پاکستانی مرد کامیاب خواتین سے بیر رکھتے ہیں


ذرا سی بات جو پھیلی تو داستان بنی
وہ بات ختم ہوئی، داستان باقی ہے

کسی شائستہ اور مہذب معاشرے میں بسنے والوں سے کوئی سوال پوچھا جائے تو وہ اس کا جواب عقل اور دلیل سے دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس کے برعکس اگر سوال کسی بےہنگم اور غیر مہذب معاشرے کے فرد سے پوچھا جائے تو وہ اس کا عقل سے عاری اور منطق سے لاتعلق جواب دے گا۔ پاکستانی معاشرہ خواہ وہ پاکستان میں ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے میں، اس کا شیوہ یہ ہو گیا ہے کہ ہر بات میں جذباتیت کا عنصر ڈال کر کچھ اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ عقل اور منطق دونوں دنگ رہ جاتی ہیں۔

دنیا کے کسی بھی پڑھے لکھے خطے میں یہ بات طے ہے کے طبیب اور مریض کے درمیان اصول اور فاصلہ حائل رہے گا۔ یہاں امریکہ میں اسی سلسلے میں صدر کلنٹن کے زمانے میں قانون بنایا گیا جسے ہپا لاء کہتے ہیں۔
HIPAA :Health Insurance Portability and Accountability Act of 1996

اس قانون کے تحت کوئی ڈاکٹر یا ڈاکٹر کے ساتھ کام کرنے والا عملہ کسی مریض کی فائل کھول کر اس کی ذاتی معلومات نہیں حاصل کر سکتا اور اگر اس نے قانون کی خلاف ورزی کی تو اس صورت میں سخت جرمانہ اور کڑی سزا ہو گی، یہاں تک کے لائسنس بھی ضبط کیا جا سکتا ہے۔ انہی باتوں کے پیش نظر ڈاکٹروں اور تمام عملے کو خاص طور پر ہپا لاء کی تربیت دی جاتی ہے اور باقاعدہ ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے کہ یہ ڈاکٹر ہپا تربیت یافتہ ہیں۔

جو واقع پچھلے دنوں رو نما ہوا اسے دیکھ کے لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو یا تو تربیت دی نہیں گئی اور یا تعلیم و تربیت ان کا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکی جو انہوں نے حسن صبیح مریضہ کو بلا سوچے سمجھے دوستی کا پیغام ارسال کر دیا۔ جب بظاھر پڑھے لکھے لوگ جاہلوں والی حرکتیں کرتے ہیں تو بڑا تاسف ہوتا ہے کہ جاہلوں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ اصولاً تو جہالت پر پہلا حق جاہلوں کا بنتا ہے!

عملے کی عدم تربیت نہ صرف ہسپتالوں میں پائی جاتی ہے بلکہ یہ پریشان کن رجحان ہر ادارے میں موجود ہے۔ میڈیا کو ہی دیکھ لیجیے۔ جن والدین کے نور نظر کسی بھیانک حادثے کا شکار ہو گئے ہیں، ابھی تدفین تک نہیں ہوئی ہے ان سے کیمرے کے سامنے چھبتے ہوئے ذاتی نوعیت کے سوال کئیے جاتے ہیں۔ مرحوم امجد صابری کی خون میں لت پت لاش کی دلدوز تصاویر جس طرح میڈیا پہ گردش کر رہی تھیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ہسپتال کے کسی غیر تربیت یافتہ عملے کی بیہودہ حرکت ہے یا کسی بدلحاظ صحافی نے اپنے بد تہذیب ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ وللہ علم کس نے کی مگر بہت ہی ناشائستہ حرکت تھی۔ ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کے اداروں میں پروفیشنل تربیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے معمولی بات بھی سکینڈل بن جاتی ہے اور نوکری جانے کا باعث بنتی ہے۔

اب آئیے خواتین کو ہراساں کرنے کے حساس موضوع کی طرف۔ میری ناقص رائے کے مطابق پورے پاکستان میں تو کیا پوری دنیا میں سواے اماں حوا کے، کوئی ایسی خاتون نہیں گزری جسے ہراساں نہ کیا گیا ہو، اور اگر کہیں ہے تو اسے میوزیم میں ہونا چاہیے تا کہ اس کا ریکارڈ رہتی دنیا تک قائم رہے۔ اسی بات کے پیش نظر میری لغت میں ایسا کرنے والے مرد حضرات کی جمع مردود ہے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جو مردود اس فعل میں ملوث ہیں وہ اسے ہرگز سنگین نہیں سمجھتے بلکہ اسے میل پرولیج Male privilege گردانتے ہیں۔ اس کی سنگینی صرف نوکری جانے کی صورت میں ہی واضح ہوتی ہے۔

جیسا کے منٹو کہہ گئے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مرد صرف اپنی ماں اور بہن کو قابل عزت سمجھتے ہیں اور باقی عورتوں کی طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے قصاب کی دکان کے باہر کھڑا کتا للچائی ہوئی نظروں سے گوشت کو دیکھتا ہے۔ اب اگر عمدہ قسم کے گلابی گوشت کو کتا فرینڈ ریکویسٹ بھیجے تو وہ کیونکر اسے قبول کرے؟

بظاھر جسے معصوم سی“ فرینڈ ریکویسٹ“ بتایا جا رہا ہے دراصل یہ ہراساں کرنے کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ان باکس میں بیہودہ تصاویر اور پیغام آنے شروع ہو جاتے ہیں جس سے جنسی ہراسانی کا در کھلتا ہے۔ اس بات کی تصدیق کسی بھی پاکستانی خاتون جو ایک پبلک فگر ہو اس سے کی جا سکتی ہے۔ اسلام میں عورت کے مقام کو لے کر زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے، قدموں تلے جنت کی یاد دہانی کروانے والے کہیں پس پردہ تو کہیں سرِ بازار خواتین کے حقوق کی پامالی کرتے ہوئے انہیں ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اس پہ طرہ دیکھئے کے یہ مردود اس خوش فہمی میں ہمہ وقت مبتلا رہتے ہیں کہ یہ کوئی شہزادہ گلفام ہیں اور ان کی طرف سے آنے والے پیغام کو کنیز سر آنکھوں پہ رکھے گی!
انٹرنیٹ کی بھی اپنی ایک دنیا ہے۔ ایک مہذب اور دوسری سندر بن کے جنگل جیسی۔ اب اگر کوئی بن مانس مہذب دنیا میں گھس آئے تو تہذیب کو بچانے کا تقاضا یہی ہے کہ اسے پہلی فرصت میں باہر نکالا جائے وگرنہ ایسے بن مانسوں سے تہذیب پامال ہونے کا خدشہ رہے گا۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کے پیشے کے لحاظ سے یہ بن مانس کوئی بھی ہو سکتے ہیں، پروفیسر، وکیل، ایکٹر، سیاستدان اور یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی۔

ہمارے معاشرے کو ایک اور موزی مرض بھی لاحق ہے۔ کسی کامیاب، خود اعتماد، اور اثر رسوخ والی خاتون سے اینٹ کتے کا بیر رکھتے ہیں۔ انھیں ہر لحاظ سے نیچا دکھانا، تذلیل کرنا اور ان کی کردار کشی کرنا اپنا فرض ِ منصبی سمجھتے ہیں۔ کچھ اور الزام نہ لگ سکے تو اسے وطن کی سلامتی کے لیے خطرہ بنا دیتے ہیں تا کہ آگے چل کر غداری کا ٹھپہ لگایا جا سکے۔

اسی سلسلے میں سب سے زیادہ شکایت انھیں ملالہ اور شرمین سے ہے۔ گاہے گاہے ماہرہ خان اور دیگر اداکاراؤں کو بھی رگید کر اپنی انتقامی کارروائی پوری کرتے ہیں کہ شاید اسی طرح مردانہ کمزوری کا غم کچھ ہلکا ہو سکے۔ ایسا کرنے سے ان کا چار چلّو خون بڑھتا ہے حالانکہ مقام تو چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا ہے کیونکہ یہ وہی معاشرہ ہے جو بچوں سے بدفعلی کرنے والوں کو باعزت بری کرتا ہے اور بےبس و بے کس گھروں کی بیٹیوں کی سرِعام بے حرمتی کرتا ہے۔ تو کیا ہوا جو ایک اثر رسوخ رکھنے والی خاتون نے رائی کا پہاڑ بنا دیا۔
نہ وہ ٹھیک ہے نہ یہ غلط!

مردانہ ہمدردی پہ تُلے ہوئے ایسے حراف معاشرے پر چار حرف ہی بھیجے جا سکتے ہیں۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے کہ
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).