ڈیرہ اسماعیل خان کا پیارا شہر اور روح تک ننگے لوگ


مجھے دو باتیں کہنا ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیوں نہ ہم کسی ناخوشگوار واقعے پر بحث کرتے ہوئے شہروں، علاقوں اور گروہوں کی بجائے اصل مجرموں کو مطعو ن ٹھہرائیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں حال ہی میں ایک نہایت تکلیف دہ واقعہ پیش آیا۔ ایک نوجوان لڑکی کو برہنہ گلیوں میں گھمایا گیا اور کوئی اسے چادر یا چار دیواری کا تحفظ نہیں دے سکا کیونکہ یہ جرم ایک گھنٹے تک بندوقوں کے سائے میں انجام دیا گیا اور کس مائی کے لعل  میں اتنی ہمت ہو گی کہ بندوق سے ٹکر لے، سو وہ سب تماشائی بنے آنکھیں سینکتے رہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا شہر انتہائی مردم خیز خطہ ہے جہاں سے اپنے فن کی کامل ادیب اور فن کار ابھرے ہیں۔ سید عابد علی عابد کا آبائی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان ہی سے تھا۔

یہی خطا ہے کہ اس گیر و دار میں ہم لوگ

دل شگفتہ جبین کشادہ رکھتے ہیں

خدا گواہ کہ اصنام سے ہے کم رغبت

صنم گری کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں

ریت کی طرح کناروں پہ ہیں ڈرنے والے

موج در موج گئے پار اترنے والے

کوئی جینے کا سلیقہ ہو تو میں بھی جانوں

موت آسان ہے مر جاتے ہیں مرنے والے

میں کبھی غزل نہ کہتا، مجھے کیا خبر تھی عابد

کہ بیان غم سے ہو گا غم آرزو دوچنداں

اور یہ نشتر دیکھئے

وقت رخصت وہ چپ رہے عابد

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

جدید اردو غزل کے قد آور ناموں میں سے ایک غلام محمد قاصر بھی تو ڈیرہ اسماعیل خان ہی سے تھے۔

تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے، گھر کا سناٹا کہتا ہے

اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

ایک بے کس عورت کو گلیوں میں ننگا گھمانے والے نہیں جانتے کہ ان کے شہر میں جینے اور مرنے والے غلام محمد قاصر نے کہا تھا

میں بدن کو درد کے ملبوس پہناتا رہا

روح تک پھیلی ہوئی ملتی ہے عریانی مجھے

واقعی، یہ وہ لوگ ہیں جن کی روح تک عریانی پھیل چکی ہے۔ اس گروہ کی نہ صرف نشان دہی ہونی چاہئے بلکہ انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہئے جنہوں نے اس معصوم لڑکی کو محض اس لئے ذہنی اور جسمانی ایذا پہنچائی کہ اس کے بھائی کے مبینہ طور پر ان کی بہن کے ساتھ تعلقات تھے، ان کم نظروں نے کمزور ٹارگٹ یعنی کم سن لڑکی کو دبوچ کر اپنی انتقامی انا کی تسکین کی، باقی کسر تماش بینوں نے ٹھٹ کے ٹھٹ لگا کر پوری کر دی۔ ان میں سے کسی نے بھی یا نہ سوچا کہ اگر ان کی بہن یا بیٹی کے ساتھ یہ بہیمانہ سلوک ہو تو ان پر کیا گزرے گی۔ ارے خدا کے بندو اور کچھ نہیں تو رب العالمین کا ہی تھوڑا سا خوف دل میں بیدار کر لو جس نے حکم دیا تھا:

“مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے”۔ سورہ نور آیت نمبر 30

اگر کسی کو یاد ہو تو یہی وہ ہدایت  ہے جو عورتوں کے پردے کے حکم سے پہلے آئی۔  یہاں عورتوں ہی پر سب پابندیاں اور سختیاں ہیں اور پھر بھی عورتیں ہی جنسی جرائم کا شکار بنتی ہیں۔  وجہ یہ کہ  منافقت کا کاروبار پوری شدت سے جاری ہے حتیٰ کہ میرے لکھے ہوئے ایک کالم پر ایک تبصرہ ایسا بھی آیا جس نے مجھے ایسے واقعات پر لکھنے سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے سخت الفاظ سے نوازا۔۔۔

 اور یہی وہ دوسری بات ہے جو مجھے کہنی ہے۔ تبصرہ نگار کے مطابق چونکہ میں بیرون ملک رہتی ہوں، اس لئے شراب اور سوٹا لگا کر پڑی رہوں اور وطن عزیز کی مظلوم خواتین کے لئے آواز نہ اٹھاؤں کیونکہ یہاں سب کچھ بہت اچھا ہے اور عورتوں کو پہلے ہی اتنی عزت حاصل ہے، مزید لے کر کیا کریں گی۔ یہاں تک کہ اس نے میری ناک تک پر اعتراض کیا۔ مجھے “ناسا چوڑی” کہہ کر مخاطب کیا۔ ہائے وہ عینک والے جن کی بل بتوڑی کو اگر نہ دیکھا ہوتا تو پتا نہیں چلتا کہ وہ میری ناک پر معترض ہے۔ چلو ہونے دو لیکن کاش ان ستواں ناک کے شوقینوں نے اس غریب خاتون ہی کی کچھ خیر خبر رکھی ہوتی اور دل گیری کی ہوتی جو توجہ نہ ملنے کی وجہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئی یا پھر اس لڑکی کو تحفظ دینے میں ہی کچھ مدد کر دی ہوتی  جو نا کردہ گناہ کی پاداش میں طاقت کے زعم میں چور دیکھنے میں مرد لیکن اندر سے گیدڑوں سے بھی بدتر ہجوم میں گھری ہوئی ہے –

کیونکہ  عزت محض ایک لفظ نہیں، رویہ ہے جس کا اظہار  عمل سے ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر شاید مجھے بیرون ملک بیٹھ کر لکھتے رہنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).