اکیسویں صدی کی اسلامی سائنس محمد عبداللہ کے انتظار میں تھی


نام نہاد لبرل اور مغرب کے ذہنی غلام دانشوروں نے کافی عرصے ہمارے جیسے دیسی لوگوں کا یہ طعنے دے دے کر ناطقہ بند کر رکھا تھا کہ اسلامی ذہن جمود کا شکار ہو چکا ہے اور مسلمانوں نے پچھلے کئی سو سال سے سائنس کی دنیا میں کوئی قابلِ ذکر تو کیا معمولی سا بھی کارنامہ سر انجام نہیں دیا جبکہ دنیا ترقی کر کے کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے اور یہ مغربی دنیا میں روز نت نئی ایجادات اور سائنسی دریافتیں ہوتی ہیں۔ خاص طور پر یہ طعنہ سن کر تو کان پک گئے تھے کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے جب کہ ہم ابھی ڈھرکی اور پتوکی کی سڑکیں بھی ٹھیک نہیں کر سکے۔

اگر چہ ہم نے کئی بار ایسے بد خواہوں کا منہ یہ کہہ کر بند کرنے کو کوشش تو کی کہ الکٹرک شیور بنانے سے زیادہ اہم اور ضروری کھیرے کو تراشنے کا اسلامی طریقہ دریافت کرنا ہے اور الحمدللہ اس میں ہمارے علماء صبح و شام مشغول ہیں مگر پھر بھی دل کو ایک کھٹکا سا لگا رہتا تھا کہ یہ نامعقول لوگ ہمارے ان دلائل سے شاید زیادہ متاثر نہیں ہو رہے کیونکہ کئی دہائیوں کی جدو جہد کے باجود بھی کھیرے کو تراشنے کے اسلامی طریقے کی دریافت ہنوز ایک خواب ہی تھا۔ مگر پچھلے چند سالوں میں پاکستانی اور سعودی سائنسدانوں اور علماء نے تابڑ توڑ ایسی ایجادات اور دریافتیں کیں کہ نہ صرف ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا کہ ان بد خواہوں کا منہ ایسا بند ہوا کہ ابھی تک ششدر پھر رہے ہیں۔

نہ صرف یہ ان سالوں میں مسلم سائنسدانوں نے فزکس کے قوانیں کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ بائیلوجی اور خاص طور اناٹومی کی دنیا بھی ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جہاں پاکستانی سائنس دانوں کا رجحان فزکس کی طرف رہا تو اسی دور میں سعودی علماء نے اناٹومی کو اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنایا۔ جہاں ایک طرف آغا وقارنے پانی کا کار چلا کر دنیائے سائنس میں اپنا نام پیدا کیا تو دوسری طرف ایک سعودی عالم نے ڈرائیونگ کے خواتین کے تولیدی نظام پر مضر اثرات پر ایک اہم تحقیق کے نتائج کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ایک طرف ایک پاکستانی انجینئر نے نیوٹن کے قوانین کو چیلنج کیا تو دوسری جانب ایک سعودی عالم سعد الحجری نے طبی دنیا میں یہ بتا کر تہلکہ برپا کر دیا کہ خواتین کو ڈرائیونگ اس لئے نہیں کرنی چاہیے کہ ان کا دماغ جو مردوں سے پہلے ہی آدھا ہوتا ہے وہ شاپنگ کرنے کے بعد ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔

اسی دوران شیخ بندر الخیبری نے یہ انکشاف بھی کیا کہ دنیا چپٹی یا گول ہر گز نہیں بلکہ ایک میدان کی طرح سیدھی ہے اور یہ کہ سورج جیسا ہمیں نظر آتا ہے بالکل ویسا ہی ہے یعنی زمین کے گرد چکر لگاتا ہوا۔ ایک پاکستانی خاتون ڈاکٹر نے بالآخر انسانوں اور جنوں کے فرق کو ڈھونڈ نکالا اور ہم برصغیر کے باسیوں کو مژدہ سنایا کہ ہم اصل میں جن ہیں اور اگے چار پانچ سو سالوں میں ارتقاء کے ذریعے انسان بن ہی جائیں گے۔ اور ہاں انہیں برسوں میں بالآخر کھیرے کو تراشے کا اسلامی طریقہ بھی دریافت کر لیا گیا اور اب یو ٹیوب پر امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے موجود ہے۔

ان تمام کامیابیوں کے باوجود خلائی تحقیق ایک ایسا میدان تھا جس میں ابھی تک مسلمان سائنس دانوں کی طرف سے کوئی قابل ذکر دریافت سامنے نہیں آئی تھی۔ اسی لئے امریکی خلائی تحقیقاتی دارے ناسا کا بھوت ہمارے نوجوان دانشوروں کے سر پرسوار تھا اور اس کی تحقیقات کی خبریں اور اور تصویریں اپنے فیس بک کے اکاؤنٹس پر لگا لگا کر ہمیں شرمندہ کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہتے تھے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ کمی بھی پوری ہوئی اور کل عذیر سالار نامی ایک مغرب زدہ دانشور کی وال پر ایک نابغئہ روزگار پاکستانی جناب محمد عبداللہ کا تعارف ہوا جنہوں نے مغرب اور خاص طور پر امریکا کی تمام خلائی ترقی کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دیا ہے اور ناسا کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔

انہوں نے نہایت محکم دلائل کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ چاند پر کوئی جا سکے اور یہ کہ چاند کی روشنی بالکل اس کی ذاتی ہے نہ کہ سورج سے ادھار لی ہوئی جیسا کہ کواہ مخواہ ہمیں اب تک سائنس کی کتابوں میں پڑھایا گیا ہے۔ مجھے خاص طور پر ان کی اس دلیل نے بہت متاثر کیا کہ اگر چاند سورج کی روشنی سے چمکتا ہے تو ہمیں ہمارے پہاڑ کیوں چمکتے نہیں دکھائی دیتے کیوں کہ ان پر بھی تو سورج کی روشنی پڑ رہی ہے۔ اسی طرح کی دوسری دلیلوں سے انہوں یہ واضح کر دیا ہے کہ ناسا دراصل ایک سازش ہے جس کا اصل مقصد مسلماںوں کا اپنے عقائد پر ایمان خراب کرنا ہے۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے اور ان کے قلم اور ذہن میں اور برکت دے تا کہ ایسے مزید پُرمغز تحقیقات سامے لاتے رہیں۔

اب اللہ کا فضل سے ہمارا احساسِ کمتری بالکل ختم ہو گیا ہے اور ہم نہ صرف مغرب کے سامنے سر اٹھا کرکھڑے ہو سکتے ہیں بلکہ ان لنڈے کے لبرل دانشوروں کو بھی منہ توڑ جواب دینے کا قابل ہو گئے ہیں۔ اب ہمیں پختہ یقین ہے کہ اسلامی دنیا میں سائنسی تحقیق اور دریافت کا جو یہ نیا رجحان پیدا ہوا ہے وہ اب رکنے والا نہیں بلکہ اب جو فضاء قائم ہو رہی ہے جس کے ثمرات ہمارے ملک میں بھی اور دوسرے اسلامی ممالک میں نظر آ رہے ہیں اس کے تحت ایسی بے شمار تحقیقات سامنے آئیں گی جن کی بنیاد پر اکیسویں صدی اسلامی سائنس کی صدی کہلائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).