جھولا


دنیاوی رشتوں میں سب سے مضبوط رشتہ والدین اور اولاد کا ہوتا یے۔ دنیا کے باقی رشتوں کی طرح اس رشتے میں محبت، امید اور تکلیف جیسےعناصر شامل تو ہیں لیکن ان عناصر کی شدت باقی تمام رشتوں سے کہیں زیادہ ہوتی یے اور کیں نہ ہو ماں بچے کو دنیا میں لانے کے لیے نو ماہ کی مشقت اور تکالیف برداشت کرتی ہے۔ باپ دن رات خون پسینہ ایک کر کے اس بچے کے بہتر مستقبل کی جنگ لڑتا ہے۔ بچے کے لیے ماں ایک سایہ دار درخت کی مانند ہر وقت اس کے سر پر موجود رہتی یے اور باپ کا سہارا کسی تن آور درخت سے کم نہیں ہوتا۔ بچپن میں والدین اولاد کا سہارا اور بڑھاپے میں اولاد والدین کا سہارا ہوتی ہے۔

جیسے ہی یہ گونج سنائی دیتی ہےکہ گھر میں ایک پھول کھلے گا تو اسی دن سے پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑتی ہے۔ اس ننھے مہمان کے استقبال کے لیے گھر کے ایک کمرے کی کھلونوں کے لیے تزین و آرائش کی جاتی یے۔ اسے ہر طرح کے کھلونوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ جھولا ان کھلونوں کا سب سے اہم جزو ہے۔ جھولے کی بہت سی اقسام ہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد جو سب سے پہلا جھولا اسے نصیب ہوتا ہے وہ ماں کی گود ہے۔ جس میں بچے کو ممتا کا پیار اور تخفظ کا احساس میسر آتا ہے لیکن کچھ بدنصیب بچے اس جھولے سے محروم رہتے ہیں جنہیں محبت جیسے پاکیزہ رشتے کو پاوں تلے روندتے ہوئے اس دنیا میں تو لایا جاتا ہے لیکن نام دینے کی بجائے کسی لاوارث لاش کی طرح کچرے کے ڈھیر کے سپرد کر کے یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ اس طرح ان کا گناہ دھل جائے گا اور بدنامی کا داغ ان کے سر سے اتر جائے گا۔ کچرے کے ڈھیر پر پھینکی جانے والی ننھی جان یا تو زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی اپنی آخری سانسیں بھی اس غلیظ اور بدبودار ڈھیر پر لے لیتی ہے یا کوئی راہگیر اسے اٹھا کر کسی فلاحی ادارے کے حوالے کر دیتا ہے۔

جیسے کسی بھی تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح جھولے کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک رخ بڑا حسین ہےجس میں زندگی کے تمام رنگ موجود ہیں۔ یہ وہ جھولا ہے جس میں ماں کی لوری اور جھولا جھولانے کے لیے باپ کے ہاتھ ہیں۔ یہ جھولابچے کے لیے باعث اطمینان اور فرحت کا احساس ہے۔ جی ہاں یہ کسی خوبصورت گھر کے خوبصورت کمرے میں پڑا جھولا ہے۔ جس میں جھولا جھولنے والے بچے کی قدم قدم پر خواہشات کی تکمیل کے لیے ماں باپ ہماں وقت موجود ہیں۔ خوبصورت کمرے میں موجود یہ جھولا بچے کے لیے خوشگوار اثر رکھتا ہے اس کے لیے آرام دہ اور پر مسرت نیند کا باعث بنتا ہے۔ اس پر جھولا جھولنے والا بچہ خود اعتمادی کے ساتھ مستقبل کی سیڑھیوں پر قدم رکھتا ہے اور ہر قدم پر باپ کا اعتماد اور ماں کی دعا نصیب ہوتی ہے۔

اب دوسرے جھولے کا رخ کرتے ہیں جو کسی این۔ جی۔ او یا فلاحی ادارے کے صحن میں لگا جھولا ہے جو قریب آنے والے ہر بچے سے کئی سوالات کرتا ہے۔ انہیں احساس دلاتا ہے کہ یہ لوری سنانے والی آواز ان کی ماں کی آواز نہیں اور یہ جھولا جھولانے والے ہاتھ ان کے اپنوں کے نہیں۔ اس طرح یہ جھولا ہر روز انہی سوالوں کا اقرا کرتا ہے، یہ جھولا ایک آزمائش ہے اور اپنے اندر ایک درد ناک کہانی کی عکاسی کرتا ہے۔ جو ہر روز جھولا جھولنے والوں سے ان سوالوں کے جواب کا متلاشی رہتا پےجن کا انہیں بلکل بھی علم نہیں۔ صحن کے اس جھولے میں جھولنے والا بچہ ہر قدم پر سراپا سوال نظر آتا ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی معاشرے کے سوالوں کے جواب میں گزار دیتا ہے۔

اب ہمیں بحیثت ایک اسلامی معاشرے کے سوچنا ہے کہ ایسے کتنے اور جھولے لگائیں جائیں گے جس پر کھیلنے والے بچے ساری زندگی اپنے اندر ایک جنگ لڑتے رہیں گے اور ان سوالوں کو کریدنے کی جستجو میں رہیں گے جن کا کسی کے پاس جواب موجود نہیں۔

 

علی امین
Latest posts by علی امین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).