نظم کو اغوا کرنا آسان نہیں


اگر نظم کو اغوا کیا جا سکتا

تو میں نظم کے ہاتھ پاؤں باندھ کر

منہ پر ٹیپ چپکا کر

اٹھا لاتی اُسے

اور مانگتی تاوان میں

سرمئی بادل، کاسنی بارش

نیلی جھیلیں، آبی پرندوں کی ڈاریں

خوابوں کی اداسی

بے تاریخ زمانوں کی تنہائی

اور وہ ساری نظمیں

جنہیں نظم

لکھے بغیر لکھتی رہتی ہے

اور وہ پہاڑی راستہ بھی

جہاں سے نظم کا پاؤں پھسلا

اور فریکچر ہو گیا

لیکن نظم کو اغوا کرنا آسان نہیں

نظم نصیر احمد ناصر ہے!

محترمہ قرۃ العین فاطمہ ابتدا ہی سے ہم سب کی مستقل لکھنے والی رہی ہیں۔ رواں برس کے ابتدائی مہینوں میں ان کی زندگی کا نیا، خوبصورت مرحلہ شروع ہوا۔ ناگزیر طور پر انہیں کچھ دیر کے لئے اپنی ادبی اور صحافتی سرگرمی سے دور رہنا پڑا۔ اب ان کے شب و روز معمول کی طرف لوٹ رہے ہیں اور تخلیق کی چبھن برقرار ہے۔ ایک تبدیلی البتہ آئی ہے کہ ان کا نام قرۃ العین فاطمہ کی بجائے قرۃ العین شعیب ہو گیا ہے۔ اسی مناسبت سے ان کی تصویر بھی بدل دی گئی ہے۔ اب ان کے چہرے کے آس پاس سرسبز ٹہنیاں بھی لہرا رہی ہیں۔ اور ایک خبر یہ کہ محترم نصیر احمد ناصر سے ان کی عقیدت برقرار ہے۔ نصیر احمد ناصر ہماری زندگیوں میں ایسے ہی اجالا کرتے رہیں گے تو امید ہے کہ قرۃ العین شعیب کی نظموں کا دریا بھی جولانی پر رہے گا۔ ویلکم بیک قرۃ العین۔۔۔ آپ کی واپسی ایسے ہے گویا آپ یہیں کہیں موجود رہی ہیں بس کچھ دیر کو تخلیقی وفور نے زرا سا رخ بدلا تھا۔ رخ بدلنے سے زمینیں اور بھی زرخیز ہو جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).