فیض کے پاکستان کا خواب


سندھی ادب کے ایک معروف نام حسن درس نے اپنی مختصر حیات میں سندھ کو اپنے محبوب کا سایہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ساری سندھ پریں جو پاچھو“۔ اگر تو وہ اس خوش قسمتی کا مرتکب پورے ملک کو ٹھیراتے تو یقینی طور پر اس ”پریں“ کے زلفوں کا رتبہ شہرِ لاہور کو نصیب ہوتا، لیکن جیسا کہ انہوں نے محبوب کے سائے کو سندھ تک محدود رکھا ہے، اس لئے محبوب کی زلف کی چھاؤں ہونے کا اعزاز میرے خیال میں حیدرآباد کو حاصل ہے۔

بعض اوقات انسان اپنے احساس کو الفاظ میں ملبوس نہیں کرسکتا، اس وقت لاہور شہر کی رنگینیوں کے حوالے سے بھی، میں جب لکھنے کے لئے بیٹھا ہوں تو محض آڑی ترچھی لکیروں کے علاوہ کچھ ذہن میں نہیں آرہا اور میرے دل و دماغ کے دریچوں میں مسلسل یہ گمان دستک دے رہا ہے، کہ اس گورکھ دھندے میں شہرِ لاہور کے ساتھ کوئی بہت بڑی زیادتی نہ کر بیٹھوں۔

قصہ مختصر، لاہور کی جانب گامزن ہوتے ہوئے، مجھے ساہیوال شہر میں بھی وہی نہر دیکھنے کو ملتی ہے جو لاہور شہر کی شہہ رگ ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ لاہور کی گلیوں میں ٹہلتے ہوئے، جب جدید ٹیکنیکل ایجاد گوگل میپ بھی کام کرنے سے قاصر رہ جائے تو ایسے میں لاہور کی یہ واحد نہر ہی ہے جو انسان کو اپنی منزل کا پتا بتانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے؛ لیکن اسی نہر کنارے گزرنے کا وہ لطف ساہیوال میں کہاں، جو لاہور کی ”کَنال“ سے گزرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے؟

صاف ستھرا خاموشی سے اپنی منزل کو بہتا ہوا اس نہر کا پانی اوپر سے گھنے درخت اور کناروں سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کی دھیمی آواز۔ گویا محسوس کرنے والی کوئی روح ہو تو اس کی میری طرح یہی خواہش ہوگی کہ وہ ایک دن اس نہر کی رومانیت کو سندھی کے نامور لکھاری محترم اعجاز منگی کے قلم کی زینت بنتے ضرور پڑھیں کہ جن کے الفاظ پڑھنے والے کے روح کو مکمل طور پر یرغمال کرتے ہوئے سحر طاری کر لیتے ہیں۔

لاہور کی اسی نہر کنارے گزرنے کے بعد جونہی مال روڈ کی جانب سڑک پر گاڑی نے موڑ لیا تو سڑک کی دونوں اطراف الحمرا آرٹس کونسل میں جاری ”فیض بین الاقوامی میلہ“ کے بینر میری نظر سے گزرے، جن کو پڑھتے ہی میرے ذہن پر ان الفاظ نے دھاوا بول دیا کہ:

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رُکے گا سفینہ غمِ دل۔

گویا ہم نے بھی اس دنیا میں نفرتوں کے تیر کھائے ہوئے، اس دل کے لئے اسی میلہ کو عافیت جانتے ہوئے سوچا کہ شاید اسی جگہ جا کے سفینہ غمِ دل کو لنگرانداز کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ادب کے اس میکدے میں دل کو کچھ راحت نصیب ہوہی جائے۔ پھر یوں ہوا کہ ہم نے اپنی منزل اس فیض میلہ کو بنالیا۔

وہاں پہنچتے ہی مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ بڑی دیر لگادی مہرباں آتے آتے! مجھے بہت پہلے اس جگہ آنا چاہیے تھا، لیکن دیر آید درست آید کی بنیاد پر اپنے دل کو یہ دلاسا دیتے ہوئے میں نے سب سے پہلے محفلِ موسیقی کی جانب رخ کیا۔ اس وقت وہاں پر ایک خاتون گلوکارہ ”چاندنی راتیں“ بہت ہی عمدہ انداز میں گارہی تھیں۔ جس نے ٹھنڈی شب کے لطف کو دوبالا کردیا تھا۔

اس بزم کی رونق تو اپنی جگہ لیکن ٹھنڈ میں غزل کے ہمراہ چائے کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جب الحمرا آرٹس کونسل کی کنٹین کی جانب جانا ہوا تو وہاں گٹار کی تاروں کی مدد سے کچھ نوجوان ”نینا ٹھگ لیں گے“ پر محفل سے ہٹ کر اپنے فن برائے شوق کا شاندار مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ کسی یونیورسٹی کی طالبِ علم لگ رہے تھے لیکن ان کی ایسی سریلی آواز اور کلا میرے روح میں اتر گئی اور میں چاہ رہا تھا کہ وہ گاتے رہیں اور ہمارے اندر کے درد اپنی خواب گاہ سے بیدار ہوتے ہوئے خود آکر ان کے فن کے نتیجہ میں ان کو ایک مرتبہ سلام ضرور کریں۔

فیض میلہ میں جس طرح اور جن موضوعات پر ڈائلاگ کروائے گئے، وہ نہ صرف انتہائی اہمیت کے حامل تھے اور وقت کی ایک اہم ضرورت بھی۔ چونکہ ہمارے معاشرہ میں بیشتر موضوع ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر ایک عام انسان کو سوچنے کی بھی اجازت حاصل نہیں ہوتی اور ایسے موضوعات پر بات کرنے میں قباحت محسوس ہوا کرتی ہے، ان میں سے اکثر موضوعات ایسے تھے کہ جن پر بہت تفصیل سے مناظرہ ہوا۔

میلے کے دوسرے روز الحمرا ہال نمبر ایک میں ”بہار کے امکان، فیض کا پاکستان“ کے زیرِ عنوان سیاست کے انتہائی حساس پہلوؤں پر بات کرنے کے لئے سیشن رکھا گیا تھا۔ ہال ہی میں کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں منعقد ہونے والے دوسرے سندھ ادبی میلے کے بعد ملک کے نامور صحافی حامد میر نے اپنے ایک کالم میں اس ملک کی ”اداس نسل“ کا تذکرہ کیا تھا۔ اس لئے ہم جیسی اداس نسل کے لئے ”بہار کے امکان، فیض کا پاکستان“ جیسا سیشن امید کی ایک کرن تھا۔ جس میں اعتزاز احسن، افراسیاب خٹک، مجتبیٰ شجاع الرحمٰن، اسد عمر اور ڈاکٹر عاصم سجاد اختر کو بلایا گیا تھا اور اس سیشن کو شمعون ہاشمی ماڈریٹ کر رہے تھے، جن کے اندازِ گفتگو سے یہ بات محسوس کی گئی کہ وہ اپنے مہمان صاحبان کی آزمائش کے لئے مکمل تیاری کے ساتھ براجمان تھے۔

اس سیشن میں تجسس آمیز بات یہ تھی کہ پاکستان کے سیاسی حالات و سیاسی آزادی جیسے اہم ترین پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے مہمانان کے خیالات کی اپنی تنظیم کے موقف کی روشنی میں سخت امتحان کا سماں تھا اور یہ بات قابلِ دید تھی کہ ایسے محاذ پر پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ نواز، تحریکِ انصاف اور عوامی ورکرز پارٹی کا ان موضوع پر کیا موقف ہے اور وہ کس حد تک جلسہ و جلوسوں میں عوام کے ساتھ مخاطب ہونے میں حقیقت پسند ہیں؟

اس محاذ پر عوامی نیشنل پارٹی رہنما افراسیاب خٹک کا موقف بلکل واضح نظر آیا، جن کا خیال تھا کہ اس ملک کے تمام مسائل کا حل مذہب کو سیاست سے علیحدہ کرنے ہی میں ہے۔ جبکہ ان کے ایسے جرات مندانہ موقف کی سینیٹر اعتزاز احسن اور ڈاکٹر عاصم سجاد اختر کی جانب سے بھی بھرپور حمایت کی گئی، لیکن مسلم لیگ نواز اور تحریکِ انصاف کے موقف میں اب بھی وضاحت کا فقدان نظر آرہا تھا۔ اس سیشن میں تمام حاظرین کی دل کی آواز کو مہمانان و میزبان کی جانب سے تب لبیک کہا گیا جب یہ سیشن اس بات پر متفق ہوا کہ پاکستان کے اندر نصاب کی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے، جس کے علاوہ اقلیتوں کا تحفظ یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔

گو اس سیشن کے اختتام پر وقت کی قلت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حاضرین کے سوالات نہیں لئے گئے لیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا کہ ان تمام مہمانان کے متفق ہونے کے باوجود ایوان کے اندر ایسے اہم معاملات پر بولنے والی غیور آواز کی کمی کو کون پورا کرے گا؟

فیض فاؤنڈیشن کی اس کاوش کو جتنا سراہا جائے، وہ کم ہے۔ کیونکہ جس دیس کے حکمرانوں سے اپنی مفاہمت کے شکنجہ میں محض ایک دارالخلافہ کے باسی بھی سنبھالے نہ جاسکیں اور مہینوں تک ان کو یرغمال بناکر ان کا جینا اجیرن کیا جائے، ایسے میں ایسے حکمرانوں سے عام آدمی سانس لینے کی آزادی کے علاوہ اور کیا مانگ سکے گا؟

ایسی پیچیدہ صورتحال میں شہرِ لاہور میں فکرِ فیض کی فروغ کے لئے سجائے گئے اس میلے میں سانس لینے کا موقع نصیب ہوا۔ لیکن اس کے اختتام پر اس اداس نسل کا وہی سپنا اب بھی برقرار ہے کہ کاش! ہم فیض کے پاکستان میں سانس لے سکیں۔ چنانچہ یہ بھی سچ ہے کہ سپنے تو فقط سپنے ہی ہوتے ہیں جن کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).