عمران خان، نواز شریف، سلطانہ ڈاکو، بائی پھول کنور اور فریڈی ینگ


تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا نوازشریف سے موازنہ ہرگز نہ کیا جائے کیونکہ نوازشریف سے ان کا موازنہ سلطانہ ڈاکو سے موازنے جیسا ہے۔

عمران خان کا یہ بیان نہایت دلچسپ ہے۔ کچھ لوگ کہتے رہے ہیں کہ عمران خان اتنی ہی تاریخ جانتے ہیں جتنی انہیں صحافت کے خلیفہ گنجفے نے پڑھائی تھی۔ یقیناً خلیفہ گنجفہ سلطانہ ڈاکو کو اپنا ہیرو نہیں مانتے ہوں گے اگرچہ سلطانہ ڈاکو عقیدے کے اعتبار سے مسلمان تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سلطانہ ڈاکو کا نام عمران خان نے بھارتی فلموں میں سنا ہو گا۔ جن دنوں عمران خان بھارت میں کرکٹ اور اپنی بے پناہ شخصی صلاحیتوں کی بنا پر بھارت میں جھنڈے گاڑ رہے تھے، ان دنوں بالی ووڈ میں سلطانہ ڈاکو کے نام پر بہت سی فلمیں بنائی گئی تھیِں۔

سلطانہ ڈاکو پچھلی صدی کا ایک داستانوی کردار تھا۔ اب سے ٹھیک سو برس پہلے اس جنگجو مزاج ڈاکو نے وسطی ہندوستان، خاص طور پر یو پی کے علاقوں میں ادھم مچا رکھا تھا۔ سلطانہ ڈاکو نے جرائم کے لئے مشہور بھونتو قبیلے میں جنم لیا۔ سلطانہ ڈاکو انگریزی راج کا سخت مخالف تھا۔ اس کا خواب تھا کہ کسی طرح وہ زمانہ واپس آئے جب ٹھگ اور ڈاکو بغیر کسی رکاوٹ کے مسافروں اور دیہاتیوں کو لوٹا کرتے تھے اور اپنا جرم مٹانے کے لیے انسانوں کو بے دھڑک قتل کیا کرتے تھے۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں انگریز افسر سلیمن نے ٹھگوں کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن ٹھگوں کی جگہ لینے والے ڈاکوؤں کا خاتمہ آسان نہیں تھا۔ ٹھگ عام طور پر غیر مسلح ہوتے تھے۔ جب کہ ڈاکو دھوکہ دہی کرنے کی بجائے کھلے عام اسلحہ لے کر حملہ آور ہوتے تھے۔

سلطانہ ڈاکو عوام میں بے حد مقبول تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ روایتی ڈاکوؤں کی طرح امیروں کو لوٹتا تھا اور لوٹی ہوئی دولت غریبوں میں بانٹ دیتا تھا۔ سلطانہ ڈاکو کو اپنے گھوڑے سے بہت پیار تھا۔ اس نے اپنے گھوڑے کا نام چٹیک رکھا تھا۔ اس کا پالتو کتا بھی بہت مشہور تھا۔ روایت کے مطابق سلطانہ ڈاکو اپنے کتے کو رائے بہادر کہہ کر بلاتا تھا۔ 1924 میں ایک انگریز پولیس افسر کرنل سیموئل پئیرس نے ان تھک کوششوں کے بعد سلطانہ ڈاکو کو گرفتار کر لیا۔ کرنل سیموئل کا دست راست ایک نوجوان پولیس افسر فریڈی ینگ تھا۔ حیران کن طور پہ فریڈی ینگ کی رائے تھی کہ سلطانہ ڈاکو کو پھانسی نہ دی جائے۔ ڈی ایس پی فریڈی ینگ نے حکام بالا کو بہت سی درخواستیں دیں کہ سلطانہ ڈاکو کی جان بخشی کر دی جائے۔ یہ درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔

فریڈی ینگ کو اپنے ذرائع سے علم ہو گیا کہ انگریز سرکار 7 جولائی 1924ء کو سلطانہ ڈاکو کو پھانسی دے دے گی۔ فریڈی ینگ جیل میں سلطانہ ڈاکو سے آخری ملاقات کرنے گیا۔ اس نے سلطانہ ڈاکو سے اس کی آخری خواہش پوچھی۔ اس موقع پر سلطانہ ڈاکو نے انگریز پولیس افسر فریڈی ینگ کی منت سماجت کی کہ وہ اس کے سات سالہ لڑکے کو اپنی سرپرستی میں لے لے۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا تعلیم حاصل کرے اور صاحب آدمی بنے۔ فریڈی ینگ نے اس کی پھانسی کے بعد اس کی یہ خواہش پوری کر دی۔ اس نے سلطانہ ڈاکو کے بیٹے کو تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا، یہ خاندان آج بھی بھوپال کے علاقے عبیداللہ گنج میں آباد ہے۔

سلطانہ ڈاکو عورتوں کا بے حد شوقین تھا۔ وہ ڈاکے کے دوران عورتوں کو ریپ کیا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سی عورتوں سے جنسی تعلقات تھے۔ اپنی وضع قطع اور دولت کے باعث عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی تھیں۔ سلطانہ ڈاکو کی جنسی طاقت کے قصے مشہور تھے۔ اودھ کی ایک طوائف پھول کنور سلطانہ ڈاکو کی محبوبہ تھی۔ روایت کے مطابق ایک انگریز لڑکی بھی سلطانہ ڈاکو پر عاشق ہو گئی تھی۔

سلطانہ ڈاکو کے کردار سے واقف لوگ عمران خان کے بیان میں سلطانہ ڈاکو کا ذکر پڑھ کر چونک اٹھے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کہ نواز شریف اور عمران خان میں سے کون سلطانہ ڈاکو کے کردار سے زیادہ قریب ہے۔ تاہم سوال کئے جا رہے ہیں کہ سلطانہ ڈاکو کا رائے بہادر کون ہے؟ عہد حاضر کے سلطانہ ڈاکو کی پھول کنور کون ہے؟ کیا موجودہ زمانےمیں بھی کسی انگریز لڑکی نے سلطانہ ڈاکو کا دل چرایا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ کیا آج بھی فریڈی ینگ جیسا کوئی افسر کہیں موجود ہے۔ اگر ایسا کوئی افسر موجود ہے تو وہ عمران خان اور نواز شریف میں سے کس کی سرپرستی کر رہا ہے؟

سلطانہ ڈاکو کے قلعے کے آثار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).