مسکن گیٹ سے جرنلزم ڈپارٹمنٹ تک


کس مسافت میں ہوں، دیکھ میرے خدا، ایسی حالت میں تو میری ہمت بندھا

یہ کڑی رہ گزر، رائیگانی کا ڈر، مضمحل بال و پر، بے بسی اور میں

عرفان ستار نے یہ شعر یقیناً جامعہ کراچی کے مسکن گیٹ سے شعبہ صحافت تک پیدل جاتے ہوئے کہا ہوگا یا اس شیطان کی آنت نما سڑک کے ہزاروں پیدل (عقل سے نہیں) مسافروں کے دلوں کی ہوک بن کر ان کے دل پر القا ہوا ہو گا۔

جی ہاں! اگر آپ جامعہ کراچی آنے جانے کا روزانہ شوق پال چکے ہیں یعنی وہاں کے طالب علم ہیں اور،بے کار، بھی ہیں تو بس – آپ ہیں اور ایک طویل بے شٹل سڑک- نازک اندام طالبات جو پاس سے گزرتی ہر گاڑی کو آس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے زیرِ لب کہہ رہی ہوتی ہیں

تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی

انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

جامعہ کراچی میں تقریباً بتیس ہزار طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ چوبیس ہزار مارننگ پروگرام میں اور آٹھ ہزار ایوننگ پروگرام میں رجسٹرڈ ہیں۔ مجموعی طور پر طالبات کی شرح ستر فیصد ہے۔ صبح پڑھنے کے لیے آنے والے چوبیس ہزار طالب علموں کو صرف 25 بسیں فراہم کی گئی ہیں جو انتہائی ناکافی ہیں۔ یہ بسیں طالب علموں کو شہر سے لانے اور واپس لے جانے کے لیے مخصوص ہیں۔ ان پر سفر کرنے والے طلبہ و طالبات کی حالت زار سے کون واقف نہیں۔ حالیہ برسوں میں متعدد طلبا ان بسوں سے گر کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

1990ء تک جامعہ کراچی کے پاس کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی 100 بسوں کے علاوہ 40 اپنی بسیں تھیں۔ مگر اب یونیورسٹی کے پاس محض تیس بتیس بسیں ہیں جن میں سے کچھ اکثر خراب رہتی ہیں۔ جامعہ کے پاس کل 26 یا 27 ڈرائیور ہیں اور 25 بسیں چلائی جاتی ہیں۔ یعنی 960 طلبا کے لیے صرف ایک بس ہے۔ یونیورسٹی کی بسوں میں لٹکے ہوئے طلبہ و طالبات کو دیکھ کر اس کی آسانی سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ جامعہ میں طلبا کی تعداد کے حساب سے کم از کم 300 مزید بسوں کی ضرورت ہے۔ ایک بس میں تقریباً 62 نشستیں ہوتی ہیں۔ چند طلبا کھڑے ہو کر سفر کر سکتے ہیں یعنی ایک بس میں 75 طلبا کو سفر کی سہولت مل سکتی ہے ۔

 1200 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے شعبوں اورواپس جانے کے لیے جامعہ کے کسی گیٹ کے لیے کوئی شٹل سروس نہیں ہے۔ ایوننگ پروگرام میں پڑھنے والوں کو تو کسی قسم کی سہولت حاصل ہی نہیں ہے۔ ان کے لیے تو پوائنٹ کی بسیں تک نہیں ہیں شٹل کا تو ذکر ہی کیا۔ صبح کے طلبا و طالبات موسم کی شدت سہتے ہیں تو شام کو پڑھنے کے لیے آنے والے تاریکی میں پیدل چلنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ دن بھر محنت کرنے کے بعد اپنی تعلیمی استعداد میں اضافہ کرنے کی خواہش انھیں بہت مہنگی پڑتی ہے۔ تھکے ہارے طالب علم دورِ حاضر کی ایک سہولت کو استعمال کرنا چاہیں تو وہ بھی جامعہ کے بزرجمہروں کو گوارا نہیں۔رات کے آٹھ نو بجے فارغ ہونے والے طالبعلموں کو گیٹ تک پہنچنے کے لیے سوا کلو میٹر کا فاصلہ یا تو پیدل طے کرنا پڑتا ہے یا یونیورسٹی کے ملازمین کی آٹو رکشہ سروس کو دن میں دو بار چالیس روپے دینے پڑتے ہیں۔ رات کے گیارہ بارہ بجے گھر پہنچنے والے طلبا و طالبات اگر مل کر ایک موبائل ایپ کے ذریعے کسی کریم کو بلوا لیں تو اسے اندر آنے کی اجازت دینے کے لیے گیٹ پر کوئی رحیم نہیں ہوتا جو رحم کھا کر ، کریم، کے ڈرائیور کو اندر آنے کی اجازت دے بلکہ ایک نادر شاہی حکم صادر ہو جاتا ہے کہ جس نے کریم بک کروائی ہے وہ گیٹ پر آ جائےآن لائن ٹیکسی کریم یا ابر کو اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ یعنی مزید آدھا گھنٹہ یا چالیس روپے برباد کیجیے۔

امن وامان کی دگرگوں صورت حال میں ہمیں ان حفاظتی اقدامات سے کوئی تعرض نہیں۔ مگر کیا یونیورسٹی انتظامیہ یونیورسٹی کے طول و عرض کو ذہن میں رکھ کر شٹل سروس نہیں چلا سکتی۔ 2012 میں جامعہ کراچی کی شٹل سروس کو نا معلوم وجوہ کی بنا پر بند کر دیا گیا تھا۔ جسے طلبا کے شدید مطالبے کے باوجود دوبارہ نہیں چلایا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ اس بارے میں قطعی خاموش ہے۔ 2008 میں حکومت سندھ نے جامعہ کراچی کو نو گرین بسیں دینے کا وعدہ کیا تھا جو ہنوز شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جامعہ کو جو گرانٹ ملتی ہے وہ اس کی ضروریات کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔ مگر صوبائی حکومت اور جامعہ کے کرتا دھرتا طلبا کی اس مشکل کو حل کرنے کے موڈ میں قطعی نظر نہیں آتے۔

ایسا لگتا ہے کہ جامعہ نے کسی قسم کی منصوبہ بندی کے بغیر ہی ایوننگ پروگرام شروع کر دیا تھا۔ شام کو آنے والے طلبا کے مسائل اور ضروریات کا خیال کر کے پروگرام تیار نہیں کیا گیا حالانکہ ایوننگ پروگرام کے طلبا سے مارننگ پروگرام سے تین گنا زیادہ فیس لی جاتی ہے۔ جامعہ کے عظیم دماغوں کا خیال ہے کہ چونکہ شام کو وہ لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں جو دن میں کہیں ملازمت کرتے ہیں یعنی کماتے ہیں تو وہ یقینی طور پر طبقہ امرا سے ہوں گے۔ حقیقتاً چند فیصد کےعلاوہ شام کو پڑھنے والے بیشتر طلبا سخت محنت کر کے اپنے گھروں کو بھی پالتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کی مہنگی فیسیں بھی ادا کرتے ہیں۔ زندہ قومیں تعلیم کی اہمیت سے خوب واقف ہوتی ہیں اور اپنے طالب علموں کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرتی ہیں، پچھلے سال جاپان کی ایک خبر نے دنیا بھر کی توجہ کھینچی۔ جس کے مطابق حکومت جاپان نے ایک دوردراز قصبے میں رہنے والی ایک طالبہ کے لیے ٹرین چلائی جو اس اسٹیشن کی برسوں واحد مسافر تھی۔ جب طالبہ کی تعلیم مکمل ہو گئی تو اس اسٹیشن کو بند کر دیا گیا کیونکہ وہاں کوئی اور مسافر نہیں تھا۔

پاکستان میں ایسی کسی مثال کی خواہش کرنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ کیا جامعہ اپنے آٹھ ہزار طلبا کے لیے چند بسیں نہیں چلا سکتی۔ کیا سندھ حکومت کوعوام کے مسائل سے ذرا دلچسپی نہیں۔ شاید تعلیم ہماری قوم کی ترجیحات میں ہے ہی نہیں۔ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جانا چاہئیے۔ اگر جامعہ فوری طور پر مزید پوائنٹس نہیں چلا سکتی تو آن لائن ٹیکسی سروس کریم اور ابر کو اندر آنے کی اجازت دے ورنہ شام کے طلبا کے لیے کم از کم شٹل سروس کا انتظام کرے۔ کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں شمسی توانائی سے دو سیٹوں کی ایک چھوٹی سی گاڑی چلائی جاتی ہے۔ جامعہ کراچی بھی ایسے منصوبوں پر غور کر سکتی ہے۔ جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں کے درمیان ایسے پروگرام پر بھی غور کیا جا سکتا ہے جن سے انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے کم قیمت پراجیکٹس بنوائے جائیں اور وہ تمام تعلیمی اداروں کی ضروریات کو پورا کریں۔ معاملہ صرف ترجیحات کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).