لاش اور کھمبے پر الیکشن جیتنے والے


2013کے الیکشن کے بعد سے اب تک جبکہ نئے انتخابات سر پر پہنچ گئے ہیں موجودہ حکومت شدید ڈانواڈول رہی ہے۔ شروع میں دھاندلی کے الزامات اور دھرنے کے دوران عوام سے لے کر بڑے بڑے دانشوروں کو بوٹوں کی چاپ اور ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار رہا سانحہ پشاور کی وجہ سے یہ سب کچھ ختم ہی ہوا تھا کہ پانامہ کے دیس سے پا نامہ لیکس پاکستان میں بھی براجمان ہو گئیں اور پھر وہ لے دے ہوئی اور استعفیٰ استعفیٰ ہوا کہ استعفیٰ تو نہ آیا سابق وز ر اعظم کی طرف سے ہاں عدالتی کا روائی ضرور ہوئی جو بالآخر نا اہلی پر ختم ہوئی اور پھر مجھے کیوں نکالا کیوں نکالا؟ کی صدا شروع ہوئی اور نکال بھی دیا گیا تو سابق وزیر اعظم اپنی پارٹی کی سر برا ہی سے پھر بھی دست بر دار نہیں ہوئے بلکہ اسمبلی میں موجود اپنے اراکین اور کچھ مفاد پرست جماعتوں کی مدد سے ایسے قوانین پاس کروانے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ نا اہل وزیر اعظم بھی پارٹی کا سر براہ رہ سکے ویسے بھی موجودہ وزیر اعظم سمیت تمام وزراء ایک ہی راگ الاپتے نظر آرہے ہیں کہ نا اہل وزیر اعظم ہی ہمارا وزیر اعظم ہے اور ان میں زیادہ تر ایسے وزراء ہیں جو ذاتی مفادات کی خاطر اپنی جماعت کو چھوڑ کر ہی نون لیگ میں شامل ہوئے تھے۔

نا اہل وزیر اعظم اپنی بیٹی کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں جو اس وقت کسی بھی اہم حکومتی عہدے پر نہیں لیکن جا نشینی کی دعویٰ دار ہیں پھراین اے 120 کے الیکشن میں رانا ثناللہ کا یہ ڈائیلاگ بھی کمال کا تھا کہ’’پارٹی اگر کھمبا بھی کھڑا کر دے تو اسے بھی ووٹ پڑ جائیں گے۔‘‘ اسی طرح کا ایک ڈائیلاگ زمبابوے کے صدر کی بیگم نے بھی دنیا کے آگے داغا تھازمبابوے کے ترانوے سالہ صدر رابرٹ موگابے کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر اتنے مقبول ہیں کہ ان کے مرنے کی صورت میں اگر ان کی لاش کو انتخابات میں کھڑا کیا جائے تو وہ بھی ملک میں اگلے سال ہونے والے انتخابات جیت جائے گی۔ گریس موگابے نے یہ بات ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔

زمبابوے کی خاتونِ اول کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ دیکھیں گے کہ لوگ موگابے کی لاش کو بھی ووٹ دیں گے، میں یہ بات آپ کو سنجیدگی سے بتا رہی ہوں۔ لوگ ایسا صدر کے ساتھ اپنا پیار دکھانے کے لیے کریں گے۔ ‘‘ماضی میں ان پر ملک میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کروانے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں لیکن وہ اقتدار پر اتنی بری طرح قابض تھے کہ کسی کو ان کو نکالنے کی جرات نہ تھی۔ وہ اقتدار پر 27سال سے قابض تھے اور شدید بڑھاپے میں اپنی بیگم کے لیے راستہ ہموار کر رہے تھے۔ صدر موگابے کی صحت کے بارے میں مختلف افوائیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ میڈیا نے انھیں معمر ترین حکمران قرار دیا اور اپنی تمام تر نا اہلی کے باوجود وہ اقتدار چھوڑنے کو تیار نہ تھے ایسے میں جب حالات انتہائی بد تر ہو گئے تو پھر زمبابوے کی فوج کو ہی آگے آنا پڑا اور14نومبر منگل کے روززمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں بکتر بند گاڑیوں نے پوزیشن سنبھال لی۔

دارالحکومت ہرارے کے شمالی علاقوں میں بدھ کی صبح شدید گولہ باری اور توپ داغنے کی آوازیں سنائی دیں جس کے بعد زمبابوے کی فوج نے ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب 93 سال کے صدر موگابے نے اپنے نائب صدر ایمرسن منگاگوا کو برطرف کر دیا جس پر فوج کے کمانڈر ناراض ہوئے کیونکہ انھیں لگا کہ صدر موگابے بطور جانشین اپنی اہلیہ کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ زمبابوے کی فوج نے قومی نشریاتی ادارے زیڈ بی سی پر قبضے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ انھوں نے مجرموں کو نشانہ بنانے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ فوج کے بیان میں کہا گیا کہ یہ فوج کا حکومت پر قابض ہونا نہیں ہے اور صدر رابرٹ موگابے محفوظ ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فوج کی جانب ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کا مقصد صدر موگابے کی جگہ ان کے ڈپٹی ایمرسن منگاگوا کو اقتدار کی منتقلی ہو سکتا ہے جنھیں چند ہفتے قبل برطرف کر دیا گیا تھا۔

زمبابوے میں برسرِاقتدار جماعت نے حال ہی میں ملک کے فوجی سربراہ پر ’بغاوت آمیز‘ رویے کا الزام لگایا تھا جب انھوں نے ملکی سیاست میں فوجی مداخلت پر تنبیہ کی تھی۔ فوجی سربراہ جنرل کونسٹاٹینو چیونگا نے ملک کے صدر رابرٹ موگابے کے خلاف ایکشن اس وقت کیا جب صدر نے ملک کے نائب صدر کو عہدے سے فارغ کر دیا تھا۔ جنرل چیونگا کا کہنا تھا کہ فوج صدر موگابے کی جماعت میں برطرفیوں کو روکنے کے لیے تیار ہے۔ فوج کی طرف سے بیان آیا کہ ’’ہم لوگ صرف ان کے آس پاس پھیلے مجرموں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو جرم کر رہے ہیں۔ اور یہ ملک میں سماجی اور معاشی پریشانیوں کا سبب ہیں۔ جوں ہی ہمارا مشن پورا ہو جائے گا ہمیں امید ہے کہ حالات معمول پر آ جائیں گے۔ ‘‘غیر ملکی ذرائع کے مطابق زیڈ بی سی کے عملے کو فوجیوں نے دھکے دیے اور ادارے کا صدر دفتر سنبھال لیا۔ فوجیوں نے عملے سے کہا کہ وہ پریشان نہ ہوں اور فوجی وہاں صرف ادارے کی حفاظت کے لیے آئے تھے۔ حکمران جماعت زمبابوے افریقین نیشنل یونین پی ایف کی سربراہی اب سابق نائب صدر ایمرسن منگاگوا کو سونپی گئی ہے۔

غیر ملکی ذرائع کے مطابق حکمران جماعت کے اجلاس میں موگابے کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ موگابے کی برطرفی کے فیصلے کے بعد اجلاس میں موجود شرکا خوشی سے رقص کرنے لگے۔ برطرفی کے فیصلے کے اعلان کے وقت خوب جشن منایا گیا۔ زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے نے اپنی سیاسی جماعت اور فوج کے کہنے کے باوجود ٹی وی پر قوم سے خطاب میں اپنے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ ٹی وی پر قوم سے خطاب میں صدر موگابے نے کہا کہ وہ حکمران جماعت کے دسمبر میں ہونے والی کانگریس کی صدارت کریں گے۔ ان کی جماعت زمبابوے افریقین نیشنل یونین پی ایف نے انھیں پارٹی کی صدارت سے برطرف کر دیا تھا اور انھیں کہا تھاکہ وہ چوبیس گھنٹوں کے اندر استعفی دیں یا پھر مواخذے کے لیے تیار رہیں۔ زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں فوج کے سینئیر فوجی اہلکاروں کے ساتھ قوم سے خطاب کرتے ہوئے رابرٹ موگابے نے کہا کہ وہ حکمران جماعت کے دسمبر میں ہونے والی کانگریس کی صدارت کریں گے۔

رابرٹ موگانے نے حکمران جماعت افریقین نیشنل یونین پی ایف، فوج اور عوام کی جانب سے ان کے خلاف کی جانی والی تنقید کو تسلیم کرتے ہوئے ملک میں معمول کی زندگی واپس لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اپنے بیس منٹ کے خطاب میں صدر موگابے نے عوام اور اپنی جماعت کی جانب سے بطور صدر مستعفی ہونے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ انھوں نے اعلان کیا کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ اور انھیں گھر تک محدود کر کے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ یہ سب باتیں اس بے حسی اور ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتی ہیں جو جن کا مظاہرہ ہمارے معزز حکمران اور سیاست دان بھی کرتے رہے ہیں لیکن تا ریخ گواہ ہے اور موجودہ زمبا بوے کی مثال نے بھی ثابت کیا ہے کہ ایسی ہٹ دھرمیوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ انجام پھر اکثر فوجی ایکشن کی صورت میں ہی نکل رہا ہوتا ہے جو کہ کسی بھی طرح قوم کی بھلائی میں نہیں ہوتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).