روس کے ساتھ سردمہری کیوں!


\"mujahid

پاکستانی میڈیا گزشتہ چند روز کے دوران پرویز مشرف کی ملک سے روانگی، کلکتہ میں بھارت کے ساتھ کرکٹ کا مقابلہ اور مصطفی کمال کی واپسی کے بعد ایم کیو ایم کی بربادی جیسے بڑے اور اہم قومی مسائل میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ بعض ایسی بظاہر غیر اہم اور چھوٹی دکھائی دینے والی خبروں کو اس منظر نامے میں کوئی جگہ نہیں مل سکی، جن کے ملک کے مستقبل اور عالمی طاقتوں سے تعلقات پر دوررَس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ قومی سطح پر ہم ان خبروں کو نظرانداز کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ بھی کرتے ہوں کہ ہمارے نزدیک وہ غیر ضروری واقعہ ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر ایسے اندازے درست ثابت نہیں ہوتے۔ اسی قسم کی ایک خبر پاکستان میں روس کے سفیر الیکسی ڈیڈوف کا یہ بیان ہے کہ صدر ولادیمیر پیوٹن اس لئے ابھی تک پاکستان کا دورہ نہیں کر پائے ہیں کہ اس دورے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بات اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک لیکچر کے دوران کہی ہے، اس لئے اس بات کی اہمیت اور اس سوال پر دنیا کے ایک اہم ملک کی خفگی کو محسوس کیا جانا ضروری ہے۔

پاکستان کو گوناگوں مسائل اور مشکلات کی وجہ سے دنیا بھر میں دوست بنانے اور دشمن کم کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے ساتھ تنازعہ کشمیر کا مشکل معاملہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، انتہاپسندی میں اضافہ اور ملک کی سکیورٹی کے علاوہ اس کی معیشت کو لاحق خطرات کی وجہ سے ملک کی قیادت کو ہو شیار اور چوکنا رہنے اور خارجی تعلقات میں کوئی بھی موقع ملنے کی صورت میں استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ روس ان سب حوالوں سے ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے اور جب اس کا سفیر اپنے صدر کے دورہ پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس دورہ کے لئے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو اس کے دو مطلب اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ (1) روس کے صدر پاکستان کا دورہ کر کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں (2) پاکستان کے حکام ان اشاروں کو یا تو سمجھنے سے قاصر ہیں یا اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس مقصد کے لئے ہوم ورک کرنے اور وہ شرائط پوری کرنے کے لئے کام کرنے پر تیار نہیں ہیں جو ایک بڑے ملک کے سربراہ \"nawaz-putin\"کے دورہ کے لئے ضروری ہیں۔

یہ رویہ اختیار کرنے کی ایک غیر اعلانیہ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسلام آباد نے شروع سے ہی امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کئی بار زیروبم آئے ہیں، ناراضگیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں لیکن پاکستان نے کبھی امریکہ کے ساتھ دوستی کو متوازن کرنے اور دنیا کے دیگر بااثر ملکوں کے ساتھ مراسم استوار کرتے ہوئے، امریکہ پر یہ واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ پاکستان اپنی سفارتی اور سیاسی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے صرف اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھے گا۔ اور بہرصورت امریکہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جائے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان، امریکہ سے ناراضگی کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے، رائے عامہ بھی امریکی استحصالی رویوں سے نالاں رہتی ہے اور یہ بھی قرار دیا جاتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے مفادات کو نظرانداز کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس یک طرفہ تعلق میں توازن پیدا کرنے کے لئے ملک کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کو خودمختار بنیادوں پر استوار کرنے کی مربوط اور مسلسل کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس حوالے سے سب سے اہم اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان دنیا میں طاقت کے دیگر اہم مراکز جن میں ماسکو، برلن، لندن، پیرس اور ٹوکیو وغیرہ سرفہرست ہیں، سے ایسے تعلقات استوار کرے جو براہ راست ہوں اوروہ  امریکہ کے توسط سے قائم نہ ہوں یا ان تعلقات کی آبیاری امریکی خوشنودی کی وجہ سے نہ کی جاتی ہو۔ مغربی دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ پاکستان کے خارجی تعلقات اس زمرے میں آتے ہیں۔ اس طرح ان مراسم پر امریکہ کا اثرورسوخ برقرار رہتا ہے اور امریکہ کی ناراضگی کی صورت میں دیگر مغربی ممالک بھی پاکستان سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ضرور استثنیٰ میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ بیجنگ سے پاکستان کے تعلقات گہرے اور مضبوط ہونے کے باوجود، وہ ہماری قومی سلامتی اور خارجہ پالیسیوں پر اثرانداز نہیں ہوتے۔ کیوں کہ ہماری خارجہ و سکیورٹی پالیسیوں کا محور بدستور واشنگٹن ہے۔ البتہ پاک چین اقتصادی راہداری مکمل ہونے کی صورت میں پاکستان پر چین کا رسوخ بڑھے گا اور وہ پاکستان سے سفارتی سطح پر مزید مراعات کا خواہاں بھی ہو گا۔ موجودہ صورتحال  اور ماضی میں پاکستانی پالیسیوں کی روشنی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اسلام آباد نے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی ہے۔

چین کے ساتھ تعلقات ایک خاص نوعیت رکھتے ہیں۔ بیجنگ نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے مراسم پر اثر انداز ہونے یا ان پر انگلی اٹھانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ یعنی چین ابھی تک دنیا کی واحد سپرپاور کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا۔ نہ ہی اسے اسلام آباد میں واشنگٹن نواز لابی سے ابھی کوئی اندیشہ ہے۔ لیکن یہ قیاس کرنا غلط ہو گا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر 50ارب ڈالر کے لگ بھگ صرف کرنے والا ملک مستقبل میں بھی ان معاملات سے یوں ہی لاتعلق رہے گا اور اس سرمایہ کاری کے تحفظ کے لئے وہ مزید اثرورسوخ اور طاقت کے دیگر مراکز سے پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے زیادہ ٹھوس مواصلت کا خواہاں نہیں ہوگا۔ یہ پہلو اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی اسلحہ کی ضرورتیں زیادہ تر چین کے ذریعے ہی پوری کرر ہاہے۔ امریکہ کی طرف سے تو اسلحہ و ٹیکنالوجی کی فراہمی کے سوال پر کئی طرح کے اعتراضات سامنے آنے لگتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پاکستان کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بھی امریکہ کے ساتھ رشتہ کی لڑی میں پروئےہوئے  لگتے ہیں۔ گویا ہمارے قومی معاملات میں امریکہ پوری طرح حاوی ہے۔ پاکستان کے سیاستدان اور فوجی لیڈر امریکہ کے ساتھ مراسم کو بے حد اہمیت دیتے ہیں اور اس کا متبادل تلاش کرنا تو دور کی بات ہے، وہ امریکہ کے اثر سے خودمختار ہونا بھی قومی مفادکے خلاف سمجھتے ہیں۔ سیاسی و عسکری قیادت کا یہ رویہ پاکستان کے کئی مسائل کی بنیاد بنا ہوا ہے۔ مستقبل میں ان مشکلات میں اضافہ کا امکان ہے۔ اس لئے وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے حالات اور ریجنل یا عالمی معاملات کو امریکی عینک سے دیکھنے کی بجائے خود اپنی رائے قائم کرنے اور امریکہ سے ہٹ کر خودمختارانہ رویہ اور سوچ اپنانے کی ضرورت محسوس کی جائے۔ روس کے ساتھ تعلقات اس حوالے سے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ روس پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا خواہاں ہے۔ روسی سفیر الیکسی ڈیڈوف نے اس خواہش اور عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ روس کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبہ پر 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر پاکستان کو فروخت کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ اس تعاون کے علاوہ روس نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن میں پاکستان کی رکنیت کو ممکن بنایا ہے۔ اس تنظیم میں جسے ایس سی او SCO کہا جاتا ہے، روس کے علاوہ بھارت اور چین بھی شامل ہیں۔ روسی سفیر نے بتایا ہے کہ پاکستان اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ اپنے اختلافات ختم کرنے اور علاقے میں قیام امن کے لئے کام کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس بھی چین کی طرح اس بات کا خواہشمند ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات ختم ہوں، وہ کشمیر سمیت اپنے معاملات طے کرلیں تاکہ اس گروپ میں شامل سب ملک مل کر مشترکہ اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر عمل کر سکیں۔

اسلام آباد کو اب اس تاثر سے باہر نکلنا ہو گا کہ روس یا کسی دوسرے ملک کے ساتھ براہ راست تعلقات استوار کرنے کی صورت میں امریکہ ناراض ہو جائے گا، جو پاکستان کے مفادات کے برعکس ہے۔ یہ رویہ دراصل پاکستان کو دنیا بھر میں سفارتی طور پر تنہا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ دنیا کے اہم مراکز پاکستان کو امریکہ کی محتاج ریاست کے طور پر نظرانداز کرنے لگے ہیں۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات پاکستانی عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے نقطہ نظر سے استوار ہیں۔ اسی پالیسی کے تحت وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ خودمختارانہ تعلقات قائم کر سکتا ہے۔ یہ باتیں صرف بیان دینے سے واضح نہیں ہوتیں بلکہ اس مقصد کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جس طرح روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے دورہ پاکستان کی راہ ہموار کر کے ماسکو کے علاوہ امریکہ پر بھی یہ واضح کیا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد امریکہ کی پسند ناپسند کو پیمانہ بنا کر اپنی خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتا۔ روسی صدر 2012 سے پاکستان کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اب روسی سفیر نے واضح کیا ہے کہ پاکستانی حکام اس دورہ کو ممکن بنانے کے لئے سرگرمی سے کام کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس رویہ سے تو یہ لگتا ہے کہ اسلام آباد کی وزارت خارجہ کے بزرجمہر دنیا میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں اور طاقت کے بدلتے ہوئے توازن کو محسوس کرنے اور اس سے استفادہ کرنے کی استطاعت سے محروم ہیں۔

اس وقت امریکہ سے ہم اور امریکہ ہم سے ناراض ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے گلے شکوے رہتے ہیں۔ امریکہ دہشت گردی کے حوالے سے ابھی تک پاکستان کے رول کو شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے حالانکہ گزشتہ 3دہائیوں میں یہ ساری پالیسیاں امریکہ کو خوش کرنے کے لئے بنائی گئی تھیں۔ اس کے باوجود امریکہ کی طرف سے ڈومور Do More کا تقاضہ سامنے آتا رہتا ہے۔ پاکستان کو اب امریکی خوشنودی کے لئے پالیسیاں مرتب کرنے کی بجائے، یہ سمجھنا چاہئے کہ اس ملک پر یہاں بسنے والے عوام کا حق ہے۔ ان کی ضروریات امریکی مفادات پر فوقیت رکھتی ہیں۔ اسی لئے اب ترجیحات بدلنے اور پاکستان کو خارجی اور سفارتی سطح پر زیادہ خودمختار اور قابل بھروسہ ملک بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments