سری دیوی پاکستان میں کیوں مقبول؟


ان دنوں پاکستان میں سری دیوی کا نام گونج رہا ہے۔

جلسوں میں سری دیوی کے چرچے ہیں

پاکستان کے ٹیلی ویژن پر سری دیوی چھائی ہوئی ہیں

پاکستان کے اخبارات میں سری دیوی کا ہر طرف تذکرہ ہے

پاکستان میں بچے بچے کی زبان پر سری دیوی ناچ رہی ہیں

پاکستان میں علمائے کرام بھی سری دیوی کے دیوانے ہو رہے ہیں

ایک عالم فاضل کالم نگار نے لکھ کر سری دیوی کے ذکر کا دفاع کیا ہے

سب حیران ہیں کہ پاکستان میں سری دیوی کی اس اچانک مقبولیت کا سبب کیا ہے؟

بھارتی اداکارہ سری دیوی 53 برس کی ہو چکیں۔ فلم کی دنیا میں ان کا عروج گزرے 30 برس ہونے کو آئے۔ کئی برس تک فلموں سے دور رہنے کے بعد سری دیوی نے 2012 میں “انگلش ونگلش” نامی فلم میں کام کیا تھا۔ یہ فلم کامیاب رہی تھی لیکن ایسے کسی نے نہیں سوچا تھا۔

کچھ حلقوں نے کھوج لگایا ہے کہ ہندوستان میں راج گوپال ورما نامی ہدایت کار نے “گن اینڈ تھائی” کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں سری دیوی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے بلکہ کتاب کا نام ہی سری دیوی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سری دیوی کو ان کے عروج پر فلم انڈسٹری میں تھنڈر تھائی کا خطاب دیا گیا تھا۔ اس خطاب کی ایک خاص وجہ تھی۔ جو زیادہ وقت گزر جانے کے باعث ہمیں اب یاد نہیں آ رہی۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں چھپنے والی کتابیں تو پاکستان میں دستیاب ہی نہیں ہیں۔ یوں بھی پاکستان میں انگریزی کتاب پڑھنے والے کتنے ہوں گے؟ راج گوپال ورما کی کتاب کا پاکستان میں سری دیوی کی حالیہ مقبولیت سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان والوں کو اپنے ملک ہی میں کسی راج گوپال ورما کا سراغ لگانا چاہیے جس نے سری دیوی کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔

پاکستان کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایک نیم سیاسی، نیم مذہبی رہنما نے الیکشن اسٹنٹ کے طور پر سری دیوی کا انتخابی نشان اختیار کر لیا ہے۔ نامعلوم اسباب کی بنا پر اس رہنما کو کچھ لوگ تھنڈر بھائی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سری دیوی عرف تھنڈر تھائی کی مقبولیت کا اصل راز یہ ہے کہ تھنڈر بھائی اپنی تقریروں میں سری دیوی کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ تھنڈر بھائی کی مقبولیت تھنڈر تھائی کے ذریعے بڑھ رہی ہے اور تھنڈر بھائی کا کرشمہ ہے کہ ۔۔۔ بھولی بسری تھنڈر تھائی کا نام پاکستان میں سنیما گھر کے اندر اور باہر گونج رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).