کالج اساتذہ کے مسائل اور محکمہ ہائر ایجوکشن کی بے حسی


راقم کا تعلق پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل پنڈ دادنخان کے ایک نواحی گاؤں سے ہے۔ میٹرک سے گریجوایشن تک تعلیم پنڈدادنخان سے ہی حاصل کی۔ آج جس کالج میں بطور استا د پڑھا رہا ہوں اسی کالج میں چار سال تعلیم حاصل کی اور اسی کالج کے اساتذہ نے اس قابل بنایا کہ پنجاب یونیورسٹی سے پوسٹ گرایجویشن کی اور پھر پی پی ایس سی کا امتحان پاس کر کے اسی کالج میں بطور لیکچرر پہلی تعیناتی ہوئی۔ کالج میں بطور طالب علم پڑھنا اور پھر اسی کالج میں بطور استاد پڑھانا بالکل الگ تجربہ ہے۔ گورنمنٹ البیرونی کالج اس تحصیل کی چھ لاکھ سے زائد کی آبادی میں واحد بوائز کالج ہے جو 1970ء میں اپنے قیام کے بعد سے حکومتی عدم بے توجہی کا شکا ر ہے۔ کالج میں اس وقت نو سو کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ جبکہ کالج کے قیام کے وقت سے مقررہ کردہ تیس آسامیوں نصف سے زیادہ ہمیشہ کی طرح تا حال خالی ہیں۔

دہشت گردی کی حالیہ لہر کے باوجود کالج کی بلڈنگ چاردیواری سے محروم ہے۔ وقت کی ضروریات کے مطابق کالج بلڈنگ کو بڑھانا تو درکنار موجود ہ بلڈنگ کی حالت بھی نا گفتہ بہ ہے۔ اس کے باوجود کالجِ ہذا کے اساتذہ کی محنت قابل تحسین ہے جو اس ویرانے میں پھول کھلانے میں مصروف ہیں۔ اور پنجاب کے کسی بھی بڑے کالج سے مقابلے میں تدریسی اور غیر تدریسی سرگرمیوں میں کالج کے طلبہ نمایاں پوزیشز حاصل کر رہے ہیں۔

ہمارے خاندان کے ایک بزرگ اکثر نصیحتاً فرماتے کہ مرد کو چاہیے کہ گھر جاتے ہی گھر والوں کو غصے سے دو چار گالیاں دے او ر اگر ہو سکے تو ایک عدد بچے کی پٹائی بھی کر دے۔ اس سے گھر میں مرد کا رعب و دبدبہ قائم رہتا ہے اور ان کے نزدیک تربیت کا یہ’’ اسلامی طریقہ‘‘ ہے۔ اور غالباً یہی طریقہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب نے آج کل اپنا رکھاہے۔

جو سیکرٹری آتا ہے وہ آتے ہی دو تین نوٹیفکیشنز نکال کے رعب جھاڑنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ موجودہ سیکرٹری صاحب نے کالج اساتذہ کی بد’’معاشی ‘‘ختم کرنے کے لیے پہلے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ تنبیہ کی کہ آئندہ کالج اساتذہ ’’اتفاقیہ رخصت‘‘ جیسی عیاشی کو صرف کسی قریبی عزیز کے فوت ہونے پر کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کالج کے اساتذہ کلاس میں کرسی پر بیٹھ نہیں سکتے، کالج کا واش روم صاف نہ ہوئے تو پرنسپل اور متعلقہ پروفیسر نتائج کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ نو سو بچوں کے کالج میں ایک جمعدار کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ پورے کالج کو صاف رکھے جبکہ سال ہاسال سے خالی پڑی سیٹوں کے لیے کون ذمہ دار ہے۔

بات بھی درست ہے کالج اساتذہ پڑھاتے ہیں نہیں اور ہزاروں روپے کی تنخواہ کی مد میں لیتے ہیں۔ میرے جیسے اساتذہ پچاس سے ساٹھ ہزار تنخواہ لے رہے ہیں۔ جس میں بے شمار قسم کے الاؤ نسز شامل ہیں۔ ایسی سہولیات سے شاید ہی کسی اور محکمہ کے ملازمین لطف اندوز ہو رہے ہوں۔ مثال کے طور پر لیکچررز ہر مہینے 2955/۔ روپے ہاؤس رینٹ کی مد میں لے کر قومی خزانے کو ناتلافی نقصان پہنچانے کے قومی جرم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اب بھلا دیکھیے اتنے پیسوں میں تو سیکرٹری صاحب بنگلا کرایے پہ لے کر دے سکتے ہیں۔ ذرا ٹھہریے آگے میڈیکل الاؤ نس کے نام پر ہر مہینے 1848/۔ روپے لیتے ہیں۔ جی ہاں پورے 1848/۔ روپے، حالانکہ دیسی حکیم پچاس روپے کی پھکی سے شوگر اور کینسر جیسے امراض کا شافی علاج کر دیتے ہیں۔ باقی بخار اور عام متعددی بیماریوں کے لیے تو قاری صاحب اور پیر صاحب کا دم ہی کافی ہوتا ہے۔

لیکن اب یہ بات بھلا کالج اساتذہ کو کون سمجھائے۔ جبکہ کنوینس الاؤنس کے نام پر 5000/۔ روپے ہر مہینے لیتے ہیں، حالانکہ گھر سے کالج تک لفٹ لے کر یا ٹرک، ٹرالی اور ویگن کے ساتھ لٹک کر بھی ملکی خزانے کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔ ہاں اتنا شکر ہے کہ کسی درد دل رکھنے والے قوم کے عظیم سپوت نے چھٹیوں میں یہ الاؤنس بند کر کے کچھ بچت کی ترکیب نکال لی۔ لیکن تاحال کالج اساتذہ اتوار اور دوسری چھٹیوں کا کنوینس الاؤنس لے کے اپنے بچوں کو حرام کے لقمے کھلا رہے ہیں۔ اگر ان اساتذہ کو ’’شرم ‘‘ نہیں آ رہی تو نیک دل سیکرٹری صاحب سے گذارش ہے کہ اپنے اساتذہ کو اس گناہ کبیرہ سے بچا لیں۔ میں نے اپنی سروس میں کسی کولیگ کو TA/DAؒ ٰلیتے نہیں دیکھا۔

اب ہائر ایجوکیشن کی مثالی کارکردگی کا جائزہ لے لیں کہ پاکستان میں گنتی کے ائرپورٹس ہونے کے باوجود ASFفاؤنڈیشن اپنے ملازمین کے لیے پلاٹس اور طرح طرح کی رہائشی سکیمیں متعارف کروارہے ہیں لیکن GORمیں چار چار کنال کے بنگلوں میں رہنے والے سیکرٹری صاحبان کو ایسا کوئی پروگرام یا سکیم بنانا تو دور کی بات اس پر بات کرنا بھی گوارا نہیں۔ لیکن کالج اساتذہ کے لیے ایسا سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔ تنخواہ کے جاری ہونے سے لے کر پنشن بننے تک اکاؤنٹ آفس میں اپنے شاگردوں کے ہاتھوں تذلیل کا تدارک کرنے کا خیال تو کسی سیکرٹری صاحب یا ’’خادم اعلیٰ ‘‘ کو خیال تک نہیں آیا۔ آدھے سے بھی کم سٹاف والے کالجز کا لاہور اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں کے کالجز سے موازانہ کر کے وہا ں کے اساتذہ اور پرنسپل صاحبان کو آئے دن دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

اسی ارض پاک پر وفاق کے کالج اساتذہ کو ون سٹیپ اپ گریڈیشن کے ساتھ ٹائم سکیل پروموشن دی جا رہی ہے لیکن پنجاب میں یہ فارمولا منظور نہیں کیوں کہ وفاق کے اساتذہ محنتی اور پنجاب کے ’’حرام خور ‘‘ ہیں۔ کالج اساتذہ سترہ سال کے انتظار کے بعد بھی پہلی پرموشن کے وقت ڈر رہا ہوتا ہیں کہ اگر اس سال رزلٹ میں کمی واقع ہوئی یا پرنسپل کو ناراض کر بیٹھا تو اسے پھر انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جا یا گا۔ اور تو اور اساتذہ سے یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ پچھلے سترہ سال کی ACRsکا ریکارڈ بھی وہ خود محفوظ رکھیں اور وقتاً فوقتاً اعلیٰ افسران کو مہیا کریں اور اگر کسی کلرک کی شرارت یا نالائقی کی وجہ سے ریکارڈ غائب ہوا تو پھر اپنی ترقی کو ایک خواب ہی سمجھیں۔ الیکشن کروانے اور ڈینگی کی با عزت ذمہ دارں اس کے علاوہ ہیں۔

آج تک اس ملک میں کسی بیوروکریٹ، ملٹری آفیسر، پولیس آفیسر یا وزیر کو اس کی ذمہ داریوں کی وجہ سے تنخواہ کی بندش یا معطلی جیسی تہمت کا شاید اتنا سامنانہ کرنا پڑا ہو لیکن یہ اعزاز صرف اس ملک کے اساتذہ کو حاصل ہے۔ کنٹریکٹ جیسیے اذیت کا سامنا بھی اساتذہ کو ہی کرنے پڑ رہا ہے۔ کاش ہمارے حکمران اور بیور کریٹ بھی کنڑیکٹ پر رکھے جائیں۔ پی پی ایس سی کا امتحان پا س کر نے کے بعد کنڑیکٹ پر بھرتی کیا جا تا ہے اور تین، چار سال کے بعد مستقل کر کے اساتذہ پر احسان عظیم کر کے جتا یا بھی جاتا ہے۔

حال ہی میں کالج اساتذہ کی نمائند ہ تنظیم PPLAنے کالج اساتذہ کے مسائل کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے مطالبات محکمہ کے سامنے رکھے تو اہل مسند کے کانوں پر جوُں تک نہیں رینگی، ہڑتال کر نہیں سکتے کیوں کہ بچوں کا حرج ہوگا اور بچے بھی غریب کے ہیں کون سے کسی وزیر یا بیوروکریٹ کے ہیں۔ ایک گھنٹہ کی علامتی ہڑتا ل کی لیکن بے سود کیوں کہ موجودہ حکمران اور ان کے چمچے بیوروکریٹ صرف اور صرف گالی اور جلاؤ گھیراؤ کی تحریکوں پر کان دھرنے کے عادی ہیں۔ اپنے اساتذہ کو سڑکو ں پر لا کر جب تک کھائے ہوئے چھتر واپس نہ مار لیں شاید تب تک ان کے سینے میں ٹھنڈ نہ پڑے۔ تو آخری فیصلہ یہی ہے تو ہم بھی یہ قربانی دینے کو تیارہیں۔

اس ضمن میں الیکڑانک اور سوشل میڈیا کا رویہ بھی قابل مذمت ہے۔ حکومتی ایوانوں تک نہ موثر انداز میں کالج اساتذہ کی آواز پہنچائی گی اور نہ ہی کبھی ان کے مسائل کو مسائل سمجھا گیا۔ اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا اس دن اس مسئلے کو اپنائیں گے جس دن اساتذہ سڑکوں پر آئیں گے۔ مار کھائیں گے، کچھ زخمی ہوں گے، کچھ جیل میں اور کچھ ہسپتال جائیں گے اور ایک عدد کی قربانی بھی شاید دیں تب جا کر میراتھان ٹرانسمیشن چلائی جائیں گی۔ پارلیمان کے اندر مزاحمتی قراردادیں جمع ہوں گی، ٹی وی پر مزاحمتی بیان جاری ہوں گے، زخمیوں کی عیادت کے بہانے فوٹو سیشن کا لامتناہی سلسلہ جاری ہو گا جبکہ مرنے والوں کی یادگار بنا کرموم بتیاں جلا کر مگرمچھ کے آنسو بہائے جائیں گے۔ استاد تجھے سلام کے ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ ہوں گے۔ واہ رے میری قوم واہ۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).