کیا ہم ناقابل اعتبارہیں؟


\"trump_flicker_face_yess\"امریکہ میں سیاسی مقبولیت کی نئی منازل طے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے برسلز میں دہشت گرد حملوں کے بعد مسلمانوں کو ناقابل اعتبار اور عجیب لوگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دوسروں کو تسلیم نہیں کرتے۔ میزبان معاشروں میں ضم نہیں ہوتے اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بناتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ری پبلکن پارٹی ٹرمپ کو پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ تیزی سے یہ نامزدگی حاصل کرنے کے لئے اپنے حامی ڈیلیگیٹس کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اسی مقبولیت کا توڑ کرنے کے لئے ان کے قریب ترین مدمقابل ٹیڈ کروز نے امریکہ کے ان محلّوں کی نگرانی کرنے کی تجویز دی ہے جہاں مسلمان آباد ہیں۔ عوام میں مسلمانوں کو مشتبہ قرار دے کر مقبولیت حاصل کرنے کی یہ دوڑ بالآخر کیا نتائج سامنے لائے گی، اس کے لئے امریکہ کے صدارتی انتخاب کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ یورپ کے ہر ملک میں حکومتیں ایسے قوانین ترتیب دینے کی کوشش کر رہی ہیں جو نئے آنے والوں کا راستہ روک سکیں۔ آٹے کے ساتھ پسنے والے گھن کے مصداق بعض دوسرے لوگ بھی ان پابندیوں سے متاثر ہوں گے لیکن اصل نشانہ مسلمان ہی ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مسلمان اس صورتحال کی سنگینی سے آگاہ ہیں۔ کیونکہ ان ملکوں سے قطع نظر جہاں وہ اکثریت میں ہیں، اقلیتوں کے طور پر بھی ان کے رویوں سے لاتعلقی ہی نمایاں ہے۔

کل روس کے دارالحکومت ماسکو کے ائر پورٹ پر 130 پاکستانی تاجروں کو روک لیا گیا۔ انہیں کئی گھنٹوں کے لئے تین چھوٹے کمروں میں بند کر دیا گیا۔ ان میں 48 کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔ ماسکو میں پاکستانی سفارتخانہ باقی لوگوں کو بھی واپس بھجوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ لوگ ایک تجارتی میلے میں شرکت کے لئے ماسکو گئے تھے۔ اس لئے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس روس کا ویزا بھی ہو گا اور سفری کاغذات بھی مکمل ہوں گے۔ اگر بعض لوگوں کے کاغذات میں کمی بھی تھی، تو بھی اتنی بڑی تعداد میں مسافروں کو کوئی وجہ بتائے بغیر روک لینا اور انہیں بنیادی حاجات پوری کرنے کی اجازت نہ دینا کسی بھی عالمی ضابطے اور طریقے کے مطابق جائز نہیں ہے۔ لیکن روسی حکام کے لئے شاید یہ بات ہی کافی تھی کہ یہ لوگ مسلمان تھے اور پاکستان سے آئے تھے۔ اس وقت دنیا کا ہر مسلمان مٹھی بھر لوگوں کی حرکات کی وجہ سے ایک ممکنہ دہشت گرد سمجھا جا رہا ہے۔ ماسکو ائر پورٹ کا امیگریشن عملہ بھی تعصب کی وہی عینک استعمال کرتا ہے جو اس وقت یورپ امریکہ ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کم و بیش ہر غیر مسلم ملک کے شہریوں کی آنکھوں پر چڑھی ہے۔ اس بات میں شبہ نہیں کہ یہ غلط ہے۔ لیکن کیا اس غلطی کے ارتکاب میں مسلمانوں کا بھی کوئی حصہ ہے یا وہ بے قصور اور معصوم ہیں۔

پاکستانی ہونے کے ناطے اگر ملک میں ہونے والے مباحث اور مذاکروں پر نظر ڈالی جائے تو آسانی سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ یہاں پر رائے عامہ خود کو درست اور دوسروں کو غلط قرار دیتی ہے۔ اسی لئے صورتحال کی اصلاح کے لئے اقدام دیکھنے میں نہیں آتے۔ یہ اصول بنیادی ہے کہ کسی ایک فرد یا گروہ کے جرائم کی سزا اس قبیلہ ، عقیدہ یا طبقہ سے تعلق رکھنے والے سب لوگوں کو نہیں دی جا سکتی۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ یہ رویہ کیوں اختیار کیا جا رہا ہے۔ کیا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں مغرب مسلمانوں کو بہت بڑا خطرہ سمجھ کر ان کے خلاف کامیاب سازش کر رہا ہے تا کہ ان کا صالح نظام اور عقیدہ دنیا پر حاوی نہ ہو جائے؟ پاکستان سمیت کسی بھی ملک میں اس سوال پر سروے کروا کے دیکھ لیجئے اس کا جواب ایک واضح اور ٹھوس ”ہاں“ میں ہو گا۔ پس یہی جواب یہ ثابت کرے گا کہ مسلمان کیوں بطور گروہ مشکوک اور مشتبہ ہو چکے ہیں۔

ماسکو میں پاکستانی تاجروں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس معاملہ کا تعلق سیاست سے نہیں خود حفاظتی سے ہے۔ وگرنہ روس تو وہ ملک ہے جو امریکہ اور مغربی ممالک کی قیادت اور حکمت عملی کو چیلنج کر رہا ہے۔ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں اس کے اقدامات اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ پھر روس ان ملکوں میں بھی شامل نہیں جسے مسلمان پناہ گزینوں کا خطرہ لاحق ہو۔ یورپ کے متعدد ملکوں میں لاکھوں مسلمان / شامی پناہ کی تلاش میں پہنچ چکے ہیں۔ انہیں اپنے ملکوں سے نکالنے اور نئے آنے والوں کا راستہ روکنے کے لئے یورپین یونین کئی سو ارب ڈالر بطور امداد ترکی کو فراہم کر رہی ہے لیکن پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ کہہ لیجئے یہ اتنی بڑی تعداد چھوٹے یورپی ملکوں کی معیشتوں کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ وہ شبہ اور بے یقینی ہے جو مسلمانوں کے بارے میں دنیا بھر میں راسخ ہو رہی ہے۔ اس کا تدارک کرنے کے لئے ان کا راستہ روکنا ضروری سمجھا جا رہا ہے تا کہ نئے ممکنہ خودکش حملہ آوروں اور بم دھماکے کرنے والے بے چہرہ جہادیوں کو روکا جا سکے۔ ماسکو ائر پورٹ پر رونما ہونے والا ڈرامہ اسی خوف کی علامت ہے۔

اگر عام عقل کا آدمی یہ بات جانتا ہے کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کرنے والے دراصل گمراہ اور بھٹکے ہوئے مٹھی بھر لوگ ہیں۔ درجنوں مسلمان علما ان لوگوں کے طریقہ کار کو مسترد کر چکے ہیں اور بعض تو ان عناصر کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ تو کیا دنیا کے طاقتور ملکوں کے لیڈروں اور لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سوال کا جواب بھی ایک واضح ”ہاں“ میں دیا جا سکتا ہے۔ لیکن سو ، ہزار ، دس ہزار یا لاکھ لوگوں میں اگر ایک ایسا شخص موجود ہو جس کے جسم سے بم بندھا ہو تو ان سب لوگوں کو مشتبہ قرار دیا جائے گا۔ مسلمان اس وقت ایک ایسے ہی گروہ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کے درمیان بعض لوگ دہشت گردی کو کامیابی ، فلاح اور جنت کے حصول کا راستہ سمجھتے ہیں اور باقی ہجوم انہیں اپنی آغوش میں پناہ دئیے ہوئے ہے۔ اب خواہ ان گمراہ جنگجوﺅں کی تباہ کاری سے لاکھوں مسلمان بھی مارے جا رہے ہوں، خواہ صورت حال کو یہاں تک لانے میں امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کی عالمی پالیسیوں نے بھی کردار ادا کیا ہو، چاہے ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں بعض نحیف آوازیں اس رویہ کو مسترد بھی کر رہی ہوں …. لیکن دنیا مسلمانوں کو ناقابل اعتبار سمجھ کر ان کے خوف میں مبتلا ہے۔ یہ خوف ہر دھماکے کے ساتھ پھیلتا ہے اور دلیل کی بجائے نعرے اور تفہیم کی بجائے تعصب کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ مغرب اس صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ مسلمان مغرب کو اس بڑھتی ہوئی بے یقینی کا حقیقی مجرم سمجھتے ہیں۔ اس تنازعہ میں تخریب کار چور راستوں سے ہر اس جگہ پہنچنے اور بم پھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ہونے والے دھماکے کی گونج زیادہ ہو اور خوف میں اضافہ ہو۔

اب یہ بات واضح ہے کہ ڈائیلاگ کی بجائے تشدد کا ہتھکنڈہ صرف ایک ملک یا علاقے تک محدود نہیں۔ یہ رجحان فلپائن سے لے کر بھارت، پاکستان ، افغانستان ، مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک میں آباد مسلمان آبادیوں میں بھی موجود ہے۔ اکثریت بے قصور اور معصوم ہے۔ لیکن اس انتشار کی اصل قیمت بھی وہی ادا کر رہی ہے۔  اس کے باوجود مسلمانوں میں کوئی ایسی تحریک نہیں ابھرتی جو دہشت گردی کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کر سکے کہ ان کے اور ہمارے راستے علیحدہ ہیں۔ مسلمانوں کی خاموشی اور ان کے ذہنوں میں کئی دہائیوں سے نصرانیوں اور یہودیوں کے خلاف بھری جانے والی نفرت نے چند ہزار گمراہوں کے جرم میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ پھر بھی کسی نہ کسی مسجد ، کسی نہ کسی اجتماع ، کسی نہ کسی بیٹھک ، کسی نہ کسی مذاکرے یا ٹاک شو، کسی نہ کسی کالم میں یہ نکتہ ضرور موجود ہو گا کہ طالبان ، القاعدہ، بوکو حرام اور داعش جیسے گروہ آخر کیا غلط کر رہے ہیں۔ کیا وہ جو کر رہے ہیں، وہ خود مغرب کا بویا ہوا نہیں ہے۔ اگر ہو بھی تو اس شباب پر پہنچی ہوئی فصل کا زہر دنیا کے ہر مسلمان کی زندگی میں گھولا جا رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس بات کا احساس کر لیا جائے کہ یہ جنگ ہماری خاموشی کی وجہ سے شدید ہوئی ہے اور اسے ہماری کوششوں سے ہی جیتا جا سکتا ہے۔ ورنہ مرنے والوں کا غم اور زخموں کی تکلیف تو دور ہو جائے گی لیکن اس کے نتیجے میں بے یقینی ، شبہ اور تعصب کی جو فضا تیار ہو رہی ہے، وہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کو پوری دنیا میں تنہا کر دے گی۔

اگر یہ نعرہ ترک نہ کیا گیا کہ مسلمانوں کو فتح مبین تک لڑنا ہے اور سوائے ان کے سب گمراہ اور واجب القتل ہیں تو کرہ زمین پر آباد ساری قومیں عقیدہ اور سیاسی نظریہ کے امتیاز کے باوجود وہی کہنے لگیں گی جو آج امریکہ کا ایک پاپولسٹ لیڈر کہہ رہا ہے کہ مسلمان قابل اعتبار نہیں ہیں۔ جب نفرت عام ہو جائے ، جب خلق خدا اسے اپنا لے تو اگرچہ یہ تباہی اور قیامت کی علامت ہو گی لیکن سارے لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ بن جائیں گے۔ سارے ایک دوسرے سے بڑھ کر مسلمانوں کو تنہا کرنے ، مسترد کرنے ، پسپا کرنے اور خود کو ان سے محفوظ کرنے کا نعرہ بلند کریں گے۔ مسلمانوں کو اس صورتحال کو سمجھنا اور اسے تبدیل کرنا ہے۔ وگرنہ بہت خرابی پیدا ہو جائے گی۔ اس کے آثار بہت نمایاں ہیں اور ہم سمجھنے میں دیر کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments