تحریک لبیک کا دھرنا اور ‘پڑھے لکھے’ عوام


جب کال بند ہوئی تواچانک ایک خیال آیا جس نے دل کو کچھ اور ہی مضطرب کر دیا۔ نجانے اس دن فیض آباد دھرنے میں میرے دوست جیسے کتنے ہی اور ‘پڑھے لکھے’ بھی اسی حال میں شامل ہوئے ہوں گے۔۔۔ کچھ عملا اور کچھ بذریعہ فیس بک!

چند دن پہلے ایک جونیٰئر دوست نے پاکستان سے کال کی۔ موصوف پیشہ سے انجنیئر ہیں، فیلڈ کا چند سالہ تجربہ لینے کے بعد اب اسلام آباد کی ایک جامعہ میں ایم ایس انجنیئرنگ کے طالب علم ہیں۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ وہ بھی تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے میں شریک ہوئے تھے اور خوب نعرہ بازی وغیرہ بھی کی۔ میں نے سرسری طور پر پوچھا کہ آپ دھرنے میں کیوں گئے تھے؟ جو جواب انہوں نے دیا سن کر رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ پھر اس سرسری بات نے ساری گفتکو کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

روانی میں ادا ہوا سادہ سا ان کا جواب کچھ یوں تھا۔۔۔ حکومت نے ختم بنوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بل آئین سے نکال دیا تھا، اس کی بحالی کے لئے میں دھرنے میں گیا۔ زاہد حامد نے قانون ختم کیا تھا، لہذا اس کا استعفیٰ ضروری تھا۔

ان کا جواب سن کر پہلے اپنے فون کے سپیکر پر یقین نہ آیا، ان سے اس کی تصدیق چاہی کہ کیا جو میں نے سنا وہ درست ہے۔ انہوں نے جھٹ سے اس کی توثیق کر ڈالی۔

میں اب انگشت بدنداں! کیا ایک پڑھا لکھا انسان سمجھ بوجھ میں ایسی فاش غلطی کر سکتا ہے! وہ حلف نامے کی تبدیلی (جو کہ درست بھی کر دی گئی تھی) کو یہ جان لے کہ ختم نبوت کی شِق ہی آئین سے نکال دی گئی، اور پھر اس کے لیے عملی جہاد کر رہا ہو! مارنے مرنے پر تُلا بیٹھا ہو!

 اس کے بعد تقریبا آدھ گھنٹہ لگا کر ان برادر کو سارا ماجرا اپنی بساط کے مطابق سنایا۔۔۔ کہ کیا تبدیلی کی گئی تھی، درست کب کی گئی، دھرنا کب ہوا اور اس کے بعد جو ہوا وہ سب تو وہ خود مجھ سے بہتر جانتے تھے کیوں کہ وہاں موجود بھی رہے۔۔۔

اتنی بڑی غلط فہمی کے بعد میری باتوں پردل کی تشفی ہونا موصوف کے لئے آسان نہیں تھا۔ لہذا ان کو انٹرنیٹ کا رستہ دکھایا اور کہا کہ جا کرخود دیکھ لو، دل کی تسلی کر لو۔ دو دن لگا کر جناب واپس لوٹے، کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں لیکن اپنی جہالت پر کچھ کچھ شرمندہ، اپنی کم علمی پر تھوڑا ناراض، اپنی نادانی پر ذرا نادم، اور توہین ثابت ہوئے بغیر دوسروں کو کافر مرتد جاننے پر غضب ناک۔ خصوصاً مستعفیٰ زاہد حامد کے بارے اپنے خیالات پر۔

لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ اس سب کے ساتھ انہوں نے ایک اور تاویل پیش کر دی۔ اپنے کیے کا قصوروار خادم رضوی اور دوسرے مولویوں کو ٹھہرا دیا۔ ان کو برا بھلا اور بہت کچھ کہا۔۔۔ یہ بھی کہا کہ ہم خود تو دین پڑھتے نہیں ہیں، مولویوں کو آگے لگایا ہوا ہے، وہ اپنی پیٹ پوجا اور سیاست کے لئے عوام کو استعمال کرتے ہیں۔ ساتھ میں میڈیا کو بھی شامل کر دیا کہ انہوں اس معاملے کو ابھارا، بگاڑا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ غرضیکہ وہ سب باتیں کیں جو پھر ہم ایسے مواقع پر اکثر کرتے سنتے رہتے ہیں۔

میں نے کال بند کرنے سے ذرا پہلے نرمی سے ٹوکا اور کہا: ” بھائی، اپنے گریبان میں بھی جھانک لو، آخر کو انجنیٰرنگ کی ڈگری رکھتے ہو، اپنے کئے کے ذمہ دار سب سے پہلے ہم خود ہوتے ہیں۔”

اورجب کال بند ہوئی تواچانک ایک خیال آیا جس نے دل کو کچھ اور ہی مضطرب کر دیا۔

نجانے اس دن فیض آباد دھرنے میں میرے دوست جیسے کتنے ہی اور ‘پڑھے لکھے’ بھی اسی حال میں شامل ہوئے ہوں گے۔۔۔ کچھ عملا اور کچھ بذریعہ فیس بک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).