کشمیر: 2017 اور 2018 کے تناظر میں


قیاس آرائیوں کے برعکس 7 201کاسال اگرچہ کشمیرمیں بالکل پر امن نہیں گزرا تاہم کسی قدرکم پر تشدد تھا۔ سال2016ء میں جس طرح کے حالات کشمیر میں پیدا ہوئے اور جن کی وجہ سے کشمیر میں ایک عرصے کے بعد ’آزادی‘ کا بخار واپس لوٹ آیا، عام شہریوں کی ہلاکتوں اور خون خرابے کا سلسلہ عروج کو پہنچا، خاص طور پر پیلٹ گن کا جس طرح سے استعمال کیا گیا اور جس سے متعدد افراد اپنی بینائی سے محروم ہوگئے، کسی بھیانک خواب سے کم نہ تھا۔ جہاں تک سال2016کا تعلق ہے، اس میں بھی کشمیر کے گلی کوچوں میں نوجوانوں اور فورسز کے درمیان گھتم گتھا کے مناظر دیکھے گئے۔ کئی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے عسکری جماعتوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی تازہ مثال ترال پلوامہ کے فردین کھانڈے کی ہے، جس نے حال ہی میں لتہ پورہ کے سی آر پی ایف کیمپ پر فدائین حملہ کرکے اپنی دس ماہ طویل عسکری زندگی کا اختتام کر لیا۔ اس جھڑپ میں سی آر پی ایف کے پانچ اہلکار، بشمول ایک مقامی کشمیری اہلکار مارے گئے جبکہ فردین کے ساتھی منظور احمد بابا اور راولا کوٹ (آزادکشمیر) عبدالشکور بھی کام آئے۔ حالانکہ اس جھڑپ سے ان کچھ لوگوں کی ذہنی تشفی ہوگئی ہوگی، جو تشدد کو مسئلہ کشمیر کا حتمی حل تصور کرتے ہیں تاہم اس جھڑپ کی وجہ سے کشمیر نئے سال2018ء ؁ میں کسی اچھے موڈ میں داخل نہیں ہوا۔

پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سال2017ء بھی کشمیر میں ہلاکتوں اور خون خرابے کے ساتھ داخل ہوا اور یہی چیزیں پورا سال یہاں کے اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔ اس حقیقت کے برعکس کہ اس سال میں کتنے لوگ مظاہروں کے دوران مارے گئے اور کتنے لوگوں نے محاصروں اور کراس فائرنگ کے دوران جان گنوائی، یہ حقیقت بھی آشکارا ہے کہ اس سال عسکریت میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد مقابلتاً زیادہ رہی اور فورسز کا بھی کافی نقصان ہوا۔

ہلاکتوں کے حوالے سے انسانی حقوق تنظیموں کے اتحاد جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق ریاست میں سالِ رفتہ کے دوران کل 450 جانیں تلف ہوئیں، جن میں 124اہلکارو افسران، 217عسکریت پسند، 108عام شہری اور ایک اخوانی(سرکار نواز) بندوق بردار شامل ہیں۔ اس طرح سے یہ ماضی قریب میں پہلی بار ہواہے کہ ایک سال میں اتنے زیادہ لوگ مارے گئے، اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ مارے جانے والے عسکریت پسندوں کا تناسب2۔ 1ہے، جو کہ فورسز کی ہلاکتوں میں اضافے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ عسکریت کا معیار بہتر ہوا ہے یا نہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ کشمیر ی نوجوانوں نے عسکریت پسندی کے تئیں اپنی عقیدت اور لگاؤ کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس کو انہوں نے اپنی جانیں دے کر سچ بھی ثابت کیا۔ حالانکہ عسکریت میں غیر کشمیری افرادی قوت میں کمی واقعہ نہیں ہوئی ہے تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ اب اس میں کشمیری یا مقامی عسکریت پسندوں کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے۔

لشکر طیبہ اور جیشِ محمد جیسی تنظیموں نے کشمیر پر اپنی توجہ میں اضافہ کیا ہے جبکہ کشمیری عسکریت پسندی کے پوسٹر بوائے (برہان وانی) نے بھی متعدد نوجوانوں کو اس جانب متوجہ کیا۔ اسی طرح فردین کھانڈے کی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں، جس نے کشمیری عسکریت کو دوبارہ منظر نامے پر لاکھڑا کیا۔ نوجوان عسکریت پسندوں کے جنازوں میں ہزاروں لوگوں کی شمولیت اور اس دوران عوام کی جانب سے جوش و خروش کا مظاہرہ بھی اسی بات کا مظہر ہے کہ ابھی تک ہمارا سماج اس ’پر تشدد‘ راستے کی کھلم کھلا تائید کرتا ہے۔ حالانکہ اس دوران جنوبی کشمیر میں ایک نوجوان فٹ بال کھلاڑی کی عسکری صفوں سے واپسی نے ایک نیا باب کھولنے کی کوشش کی تھی، جس میں کئی والدین نے اپنے عسکری بچوں کو تشدد ترک کرکے واپس لوٹنے کی ا پیل۔ حالانکہ کچھ لوگوں نے اس پر بھی دھیان دیا لیکن یہ سلسلہ کوئی خاص رنگ نہ پکڑ سکا تاہم فردین کھانڈے کی جانب سے ایک رضاکار عسکریت پسند بن کر فدائی حملے میں ایک بڑے نشانے پر وار کرنے سے کشمیر کی مقامی عسکریت میں نئی روح داخل ہوئی ہے کیونکہ اب تک اس طرح کی کاورائیوں میں مقامی عسکریت پسندوں کی کافی کم شمولیت دیکھی گئی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل 19اپریل2001ء میں ایک 17سالہ نوجوان آفاق احمد نے اس وقت لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا، جب اس نے اپنے جسم کے ساتھ بارودی مواد باندھ کر سرینگر میں فوج کے صدر مقام(15کور کے ہیڈ کوارٹر )بادامی باغ کے گیٹ پر بڑا حملہ کیا تھا۔ 2017ء میں کشمیری عسکریت پسندوں نے کم از کم 4فدائی حملے کرکے اپنے نشانوں پر وار کیا، جس سے سال2013ء کے بعد اس طرح کی کارروائیوں میں آنے والی گراوٹ کا گراف ایک بار پھر سے اوپر آگیا۔

دوسری جانب، حالانکہ فوج نے اپنے ’آپریشن آل آوٹ‘ کا بہت چرچہ کیا لیکن حق یہ ہے کہ اس میں ایک اچھی تعداد میں عسکریت پسندوں کے مارے جانے کے باوجود عسکریت جوائن کرنے کے سلسلے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اگرچہ عسکریت پسندوں کی جانب سے ’مارو اور بھاگو‘ کی پالیسی سے ان کو کافی فائدہ ہوا لیکن اس کے باوجود فورسز کی سخت گھیرا بندی کی وجہ سے، باوجود اس کے کہ عوام نے ان کی کافی حمایت کی، انہیں بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

حالانکہ سرکار کی جانب سے سال کے دوران حالات کی بہتری کا کافی دکھاوا کیا گیا لیکن وقفے وقفے سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے سیاسی افق پر مایوسی کے بادل ہی چھائے رہے تاہم سال کے آخری حصے تک آتے آتے نئی دلی کو کسی حد تک اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ محض سخت گیر پالیسی اختیار کرنے اور فوجی طریقہ اپنانے سے کشمیر کی صورت حال میں بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی، اس لئے انہوں نے بھارت کی قومی سراغرساں ایجنسی آئی بی کے سابق ڈائریکٹر جنرل دھنیشور شرما کو کشمیر میں مذاکرات کار ( یا اپنا نمائندہ ) بنا کر روانہ کیا۔ اگرچہ پچھلے تین ماہ کے دوران وہ کوئی تبدیلی پیدا نہ کرسکے کیونکہ وہ ان لوگوں تک نہیں پہنچ پائے جو کشمیری عوام کی سیاسی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہیں تاہم اس کی مذاکرات کار کے طور پر تعیناتی کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس سخت گیر رویے کی ہوا نکل گئی، جس میں وہ کہتی آئی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ سیاسی نوعیت کا نہیں ہے اور اس کا کوئی بھی حل محض فوج کے ہاتھوں ہی نکالا جاسکتا ہے۔

شاید ابھی بھی نئی دلی اس بات سے انکار کرتے ہوئے شرما کی کارکردگی سے کوئی امیدرکھے لیکن یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ جب تک کشمیر مسئلہ کے سیاسی پہلو پر توجہ نہیں دی جاتی اور وہ بھی داخلی اور خارجی سطحوں پر، یہاں قیام امن کا خواب، خواب ہی رہے گا۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی مان لیا جائے کہ شرما کسی حد تک عوامی شکایات کے ساتھ ساتھ یہاں نافذ بھارت کے بعض کالے قوانین کے حوالے سے بھی کچھ پہل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، پھر بھی اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کشمیر میں کوئی بھی نمایاں تبدیلی محض یہاں کی سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بعد ہی وقوع پذیر ہوسکتی ہے۔ حق یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکراتکیے بغیر کشمیر میں ہونے والا کوئی بھی ڈائیلاگ کار آمد ثابت نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ دونوں ہی مذاکرات، افہام و تفہیم اور صلح صفائی کے قائل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ کشمیری قیادت آزادانہ طور پر سوچنا بند کردے۔

ابھی، جبکہ عوام کے سامنے ایسے کوئی وجہ نہیں کہ وہ یہ بات مان لیں کہ یہاں تشدد کا سلسلہ بند ہوجائے گا، سال2018ء میں بھی کشمیر میں تشدد کے واقعات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مذاکرات کے لئے ایک فضاء قائم کرنے اور اسے محض سخت گیر اقدامات تک محدود رکھنے سے تشدد کو جواز ملے گا اور اُن لوگوں کو مدد ملے گی، جو اس طرح کی چیزوں کو اپنے ایجنڈا کا حصہ بنانے کے لئے بیقرار رہتے ہیں اور یہ اصول دونوں جانب یکساں طور لاگو ہوتا ہے۔ جہاں تک عام کشمیری کا تعلق ہے، اُس کی نظر2018کے دوران بھی امن اور سکون پر ہی رہے گی، جو محض ایک کھلے دل سےکیے جانے والے ڈائیلاگ کی وجہ سے ہی پیدا ہوسکتی ہے۔ جس میں محاصروں کا سلسلہ بند کرنے، اچھی انتظامیہ فراہم کرنے اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنے سے اضافہ ہوسکتا ہے۔

کشمیر میں عزت و وقار اور انسانی حکمت عملی اپنانے کی اشد ضرورت ہے، سیاسی جماعتوں نے انہیں اپنے مفادات کا آلہ بنا رکھا ہے اور انہیں اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ بند ہوجانا چاہیے۔ اسی دوران ریاستی گورنر این این ووہرا نے 2 جنوری 2018کو جموں میں شروع ہونے والے اسمبلی کے بجٹ اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے اپنے خطبے میں ایک اچھی خبر یہ دی کہ سال2017ء میں تقریباً 1۔ 2ملین سیاح کشمیر آئے اور ایسا اس کے باوجود ہوا ہے کہ ہمارے سروں پر ہر وقت ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ اس تناظر میں اگر امن و امان کے لئے ایک سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے تو عوام اس سے مستفید ہوکر اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ امن کس طرح اور کس قیمت پر؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک باوقار اور با عزت راستہ اختیار کیا جائے اور اسی سوال کا جواب تلاش کرنا سال 2018کے دوران ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

(ڈاکٹر سید شجاعت بخاری رائزنگ کشمیر سری نگر کے چیف ایڈیٹر ہیں)

ڈاکٹر سید شجاعت بخاری
Latest posts by ڈاکٹر سید شجاعت بخاری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سید شجاعت بخاری

ڈاکٹر سید شجاعت بخاری رائزنگ کشمیر سری نگر کے چیف ایڈیٹر ہیں

syed-shujaat-bukhari has 2 posts and counting.See all posts by syed-shujaat-bukhari