ایک اور احتجاجی تحریک


حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے سترہ جنوری سے پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جب یہ خبر میڈیا پر چل رہی تھی تو میرے ساتھ بیٹھی میری بیٹی نے ایک معصومانہ سا سوال کرتے ہوئے کہا کہ کہ بابا سیاسی و مذہبی اشرافیہ کیا مل جل کر ملک کو تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے آگے نہیں لے جاسکتی جبکہ سارے ہی ملک کے عوام کے مسائل کا رونا روتے ہیں، میں نے یہ سوال سوشل میڈیا پر ڈال دیا اور پھر وہاں پر آنے والے کمنٹ سے جو نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے اس کے مطابق سیاسی و مذہبی ایلیٹ اگر باہمی سیرو شکر ہو کر ملکی ترقی میں اپنی بساط، سوچ اور ویژن کے مطابق حصہ ڈالتے ہوئے کام کریں ملک کی ترقی اور خوشحالی تو یقینی بات ہے مگر ان کی سیاست کیسے چلے گی؟ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارئے ہاں نہ ہی کوئی حقیقی جمہوری حکومت بنی اور نہ یہاں جمہوری روئے پروان چڑھ سکے یہاں تک کہ کسی لولی لنگڑی جمہوری حکومت کو بھی چلنے نہیں دیا گیا اگر جمہوری پراسس قدرتی طریقے سے ہموار چلتا رہتا تو آج اس ملک کی کایا پلٹ چکی ہوتی۔

جمہوری حکومتوں کے خلاف آئے روز کے دھرنے احتجاج لانگ مارچ اور سڑکوں کی بندش سے جہان ملکی معشیت کا پہیہ رک جاتا ہے وہیں عوام کو بھی کئی طرح کے مسائل سے دوچارہونا پڑتا ہے۔ اپنی بات اور مسائل کو موثر انداز میں سامنے لانے کا بہترین پلیٹ فارم تو پارلیمنٹ ہے، عدلیہ ہے مگر پھر بھی ہم سڑکوں چوکوںاور چوراہوں کا ہی انتخاب کرتے ہیں جس کا فائدہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی ہیں۔ اب پھر ایک نئے لانگ مارچ اور تحریک کی گونج سنائی دیے رہی ہے گو کہ ملکی تاریخ میں لانگ مارچ کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اس سے قبل بھی پاکستان کی سیاست احتجاجی تحریکوں اور لانگ مارچ سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں لانگ مارچ کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ اس کے باعث کوئی انقلاب تو برپا نہیں ہوا، البتہ، ماضی میں لانگ مارچ اور احتجاجی تحریکوں نے جہاں ملکی ترقی کے پہیے کو ریورس گئیر لگایا وہیں ملکی سیاسی افق پرکئی گہرے اثرات مرتب کیے۔

بتایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا لانگ مارچ 1958ء میں کیا گیا۔ خان عبدالقیوم خان نے یہ تحریکیں اسکندر مرزا کے حکومتی ادوار میں چلائیں۔ اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کا اقتدار فوجی جرنیل ایوب خان کے ہاتھ میں چلا گیا اور پاکستان میں فوجی حکومت رائج ہوگئی۔ دوسری بار 1968 میں جنرل (ر) ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک چلی۔ اس بار بھی اقتدار فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا اور جنرل یحیٰ خان نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔ پاکستان کی تاریخ میں تیسری مرتبہ جمہوری دورِ حکومت میں احتجاجی تحریک اور لانگ مارچ کیا گیا۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی، اور اس طرح، 1977 میں ملک کا اقتدار ایک بار پھر فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے سنبھال لیا۔ بعد ازاں، فوجی دور حکومت کے دوران جمہوریت کی بحالی کے لئے ایم آر ڈی کی تحریک چلائی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1985 میں محمد خان جونیجو کو بغیر سیاسی انتخاب کے ملک کا وزیراعظم بنادیاگیا۔

پاکستان کی سیاست میں 1992 کا سال بھی احتجاجی تحریکیں لے کر آیا۔ بینظیر بھٹو کی جماعت نے اس وقت کی نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور 1988 میں بینظیر بھٹو کو ملک کا وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ تاہم، 20 ماہ کے اندر اندر سابق صدر غلام اسحاق خان نے ملک میں انتخابات کا اعلان کردیا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا۔ بعدازاں، عوام اور سیاستدانوں کی جانب سے ان کے خلاف کوئی مخالف تحریک سامنے نہیں آئی، مگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد وکلا کی احتجاجی تحریکوں نے ملک میں ایک نیا باب رقم کیا اور مشرف دور کا اختتام ہوا۔ بعد ازاں، 2008 میں نیا جمہوری نظام تشکیل دیا گیا اور پی پی پی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ تاہم، ججوں کی بحالی کی تحریک میں نواز شریف پیش پیش رہے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں حکومت مخالف اتحادوں اور تحریکوں کی کامیابی میں فیصلہ کن عنصراسٹیبلشمنٹ کے کسی با اثر دھڑے کی پشت پناہی رہی ہے۔ معلوم تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ایوب مخالف تحریک کو یحیٰی خان، جنرل حمید اور جنرل پیرزادہ کی حمایت حاصل تھی۔ 71 میں مشرقی پاکستان میں شکست کے باوجود یحییٰ خان کی سبکدوشی میں فیصلہ کن کردار جنرل گل حسن اور ائیر مارشل رحیم نے ادا کیا۔ 77 کی بھٹو مخالف تحریک کے بارے میں مولانا مفتی محمود اور پروفیسرعبدالغفور جیسے محرمان راز کا کہنا ہے کہ قومی اتحاد کے کچھ رہنما فوجی جنرلوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ 93اور 96 کی حکومت مخالف تحریکوں کے بارے میں موجودہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔

منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کاکہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مشاورت کے بعد متفقہ طور پر کیا ہے، یاد رہے ڈاکٹر طاہر القادری ماضی میں بھی حکومت مخالف تحریک چلا چکے ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطابق حکومت کے خلاف سترہ جنوری سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک میں شرکت کے لیے آصف علی زرداری، عمران خان، مصطفی کمال، چوہدری شجاعت حسین، سراج الحق اور چوہدری پرویز الہی وغیرہ کو باضابطہ دعوت دے دی گئی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس نے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو سات جنوری تک مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن دی تھی لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا، ”اب بات استعفوں سے آگے بڑھ چکی ہے، اب ہم مسلم لیگ نون کے ہر جرم کا حساب (سڑکوںپر) اور ان کی حکومتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ‘

اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے سامنے آنے والی آرا اور تجزیوں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ سے قربت کا تاثر رکھنے والی جماعتیں حکومت مخالف تحریک کے ذریعے انتخابات سے پہلے اپنے کارکنوں کو متحرک کر کے اپنی مرضی کی فضا بنانا چاہتی ہیں اور یہ سارا کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب بلوچستان میں مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے اور ملک میں مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے پہلے حکومت کے خاتمے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ اگرچہ اس تحریک کی کامیابی کے بارے میں وثوق سے کہنا ابھی ممکن نہیں ہے لیکن تجزیہ نگاروں کے بقول یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ نون کی حکومت ہے اور اس صوبے میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے لیے مرکز میں حکومت بنانا بہت آسان ہوتا ہے۔ حکومت مخالف تحریک کا ایک مقصد ’کسی کے اشارے پر‘ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کو دباؤ میں لا کر اسے سیاسی نقصان پہنچانا ہے۔ پر ایسا کم ہی ہوتا ہے۔

البتہ مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادیوں کے پیروں سے زمین کھینچنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ جو قوت و اختیار سے محروم تھے وہ سارے یکجا ہوگئے، ساڑھے چار سال کی حکومت کو گرانے پر زید او بکر سارے ایک ہوگئے نواز شریف کے ہٹائے جانے کے بعد اب دوسرا سیاسی بھونچال بلوچستان کی منتخب اسمبلی میں آیا ہے۔ تخت گرائے جانے کے اس منظر کو ہر تنظیم اپنے نظریاتی فریم ورک کی عینک سے دیکھتی ہے۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح یہاں بھی دائیں اور بائیں بازو کے درمیان حد فاصل ختم ہوتی جارہی ہے۔ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ محسوس یوں ہورہا ہے جیسے جمہوری عمل کی بے ساختہ اور فطری حرکت کو کنٹرول کیا جارہا ہے تاکہ جمہوری سفر جاری نہ رہ سکے سر سبز ہوتے اس درخت کے ارد گرد بھانبھڑ مچایا جارہا ہے تاکہ گرمی بڑھے لیکن یاد رہے سبز درخت کا جھلسانا اورکاٹنا ناقابل معافی جرم ہوتا ہے جس کی سزا سب کو ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).