حیرہ سے اکیلے آکر خانہ کعبہ کا طواف کرنے والی عورت


چند برس پہلے کی بات ہے۔ ماہ رمضان میں میرے اور امی کے پسندیدہ عالم دین تراویح اور تفسیر کے لئے گھر سے کچھ قریب ہی آ رہے تھے۔ میں نے بھی جانے کا پروگرام بنایا۔ ایک دو دن اچھے گزرے کہ ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ آپ اکیلی آتی ہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں میری امی نہیں آسکتیں اور باقی فیملی یہاں نہیں۔ پھر اگلے دن کہنے لگیں۔ آپ کو نہیں آنا چاہئے محرم کے بغیر۔ میں خاموش رہی۔

میں نے ویب سائٹ پر بھی میسج کیا تھا کہ کوئی قریبی فیملی رابطہ کرے لیکن کسی نے نہیں کیا۔ میرا گھر اور اسپتال اور تراویح کا مقام بالکل قریب تھے اور میں اسپتال کی گاڑی میں جاتی تھی۔ اس حساب سے سیکیورٹی تھی لیکن اس خاتون سے کچھ کہنے کا فائدہ نہیں تھا۔ میں نے سوچا کیا یہ ساری خواتین زندگی کے روز مرہ کام بھی اکیلے نہیں کرتی ہوں گی۔ بازار جانا، کالج، یونیورسٹی، جاب، سب جگہ۔ اور کسی آنٹی کا بیٹا باہر ملک سے ٹکٹ بھیجتا ہوگا ماں کے لئے تو کیا وہ نہیں جاتی ہوں گی۔

کیا ہمارے معاشرے میں اچھائی کے راستے میں رکاوٹیں ہیں اور بدی کا راستہ مکمل آب و تاب سے ہمیں گمراہ کرنے کے لئے کھلا پڑا ہے۔ میں تراویح کے بجائے بازار جانا چاہوں، چا ند رات پہ شاپنگ کروں، نعوذباللہ غلط راستے وغیرہ پر جائوں تو جا سکتی ہوں۔۔ مسجد نہیں جا سکتی۔۔ اسی طرح کے خیالات سے میرا دل بوجھل ہو گیا۔ اللہ کی طرف جانے والے راستے پر پہرے اور اجارہ داری اور بدی کے راستے پہ جی آیاں نوں۔ مجھے یاد آیا کہ بخاری شریف میں ایک حدیث پڑھی تھی جس کا مفہوم یاد تھا لیکن پوری حدیث یاد نہیں تھی۔ صحیح بخاری کی 8 جلدیں وہ بھی پی ڈی ایف۔ ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہے کہ کتابوں کی جگہ لیپ ٹاپ ہے یا موبائل یہ نہ ہوں تو بس۔۔ خیر حدیث ڈھونڈنے میں کافی وقت لگا۔ پھر بالآخر مل گئی۔ یہ حدیث بخاری شریف میں 3595 نمبر پر فضیلتوں کے بیان میں ہے جس کے راوی حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ اس حدیث میں ایک سے زائد پیشن گوئیوں کا ذکر ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے فقر و فاقہ کی شکایت کی پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے راستوں کی بدامنی کی شکایت کی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا عدی تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) میں نے کہا کہ دیکھا تو نہیں البتہ اس کا نام سنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ (ایران ) سے سفر کر ے گی اور مکہ پہنچ کر کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہوگا۔ میں نے حیرت سے اپنے دل میں کہا پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہوگا جنہوں نے شہروں کو تباہ کر دیا اور فساد کی آگ سلگا رکھی ہے۔ حدیث شریف میں آگے ایران کی فتح اور مسلمانوں کی مالی خوشحالی کی پیش گوئی ہے جب کوئی زکوۃ لینے والا نہ ملے گا۔ حضرت عدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ہودج میں بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کی حیرہ سے سفر کے کئے نکلی اور مکہ پہنچ کر اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اللہ کے سوا اسے کسی ڈاکو وغیرہ کا راستے میں خوف نہیں تھا اور مجاہدین کی اس جماعت میں تو میں خود شامل تھا جس نے کسری بن ہرمز کے خزانے فتح کئے۔

مالی خوشحالی کا یہ عالم کہ ایک آدمی سونا چاندی لے کر نکلے اور کوئی زکوۃ لینے والا نہ ملے، ایسا حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں ہوا۔

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کے اکیلے باہر جانے ک تعلق سیکورٹی سے ہے۔ حضرت فاروق اعظم کے زمانے میں سیکیورٹی اتنی اچھی تھی کہ ایک عورت اکیلے سفر کر سکتی تھی۔ آج بھی سیکیورٹی کی وجہ سے ہی خواتین آزادانہ سفر کرتی ہیں۔

آج کل سعودی عرب میں عورتوں کی آزادی کے سلسلے میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ انہیں ڈرائیونگ کرنے، اسٹیڈیم جانے، وغیرہ کی آزادی مل گئی ہے بلکہ آزادی کا دھوکہ مل گیا ہے کہ یہ آصل آزادی نہیں۔ یہ وہ آزادی جو ہمیں پہلے سے حاصل ہے بلکہ اس کے علاوہ اور بہت کچھ حاصل ہے۔ لیکن حج و عمرہ پہ اکیلے جانے کی اجازت نہیں۔ 45 سال سے اوپر کی خواتین گروپ کے ساتھ جا سکتی ہیں۔ اس 45 کے ہندسے کی میڈیکل سائنس میں کوئی خاص اہمیت نہیں۔ انڈیا جو اندر سے اسرائیل کا سگا ہے لیکن اپنے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار ہونے سے بچانے اور عربوں سے حاصل ہونے والی کمائی کے چکر میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ووٹ دے ڈالا جبکہ 128 میں اس کا ووٹ نہ بھی ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑتا۔ اور پھر سعودی عرب میں تبدیلیاں دیکھتے ہی خواتین کی حج و عمرہ کی پالیسی میں تبدیلی کر ڈالی۔

ہمارے ملک میں خواتین کو یہ آزادی حاصل نہیں۔ وہ مسجد جانے کے لئے آزاد نہیں۔ حج و عمرہ پہ جانے کے لئے آزاد نہیں۔ تراویح کے لئے جانے کے لئے آزاد نہیں۔

ہمارے ہاں عورت بازار جانے کے لئے آزاد ہے، سورج نکلنے سے بھی پہلے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے آزاد ہے، گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لئے فیکٹریوں میں ڈیلی ویجز پہ کام کرنے کے لئے آزاد ہے۔ کام سے واپسی پہ لوکل بسوں میں دھکے کھانے کے لئے آزاد ہے، اکیلی کفیل ہو تو ہر کام کرنے کے لئے آزاد ہے، ماڈلنگ کرنے کے لئے آزاد یے، الغرض ایک لمبی فہرست ہے۔

یہ مضمون یہیں تک تھا۔ بوجوہ مصروفیات بھیجا نہ جا سکا تھا۔ پھر ملک خداداد میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ مجھ سمیت سب کا دھیان ادھر تھا۔ سب کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ آج اس مضمون کو دیکھا تو لگا کہ یہ اس لئے آگے نہ جا سکا کہ اس میں ایک سطر کی کمی ہے۔۔۔  “آزاد تو ہے مگر محفوظ نہیں “۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).