برکت مسیح! آواز اور آنکھیں نیچے


برکت مسیح! آواز نیچی کرو۔ تمہارے لہجے سے یہ برابری کی بو کیوں آ رہی ہے؟ تمہیں اپنی اوقات بھول گئی کیا؟ کیا کہا؟ تمہیں دستور پاکستان نے برابری کا حق دے رکھا ہے۔ واہ بھئی واہ کیا کہی۔ گویا تم آئین کے آرٹیکل بیس اور پچیس کی بات کر رہے ہو۔ برکت مسیح ! ہم کو اتنا ہی بے وقوف سمجھ رکھا ہے تم نے۔ ہم نے ایک آدھ آرٹیکل سے اگر برابری کا حق دیا ہے تو متعدد آرٹیکلز کے ذریعے واپس چھین رکھا ہے۔ کیا تم نے آئین کا آرٹیکل 41 (2) نہیں پڑھا، تم ریاست کے سربراہ نہیں بن سکتے۔ وزیر اعظم تم نہیں ہو سکتے۔ یہی نہیں کچھ اور بھی آئینی اسباب ہیں جن کے ذریعے ہم نے تمہاری حیثیت کم تر مقرر کر دی ہے۔ ذرا آرٹیکل31-(D)، آرٹیکل 203, آرٹیکل203 اور آرٹیکل 260 پر بھی نظر ڈال لینا۔ تمہاری طبیعت صاف ہو جائے گی۔ ریاستی پالیسی کے تحت تم ادنیٰ ہو اور ہم اعلیٰ ہیں۔ چنانچہ ریاست نے غیر مسلم ہونا خاکروب کی اسامی کی اہلیت کی لازمی شرط رکھی ہے۔

برکت مسیح !2006ء میں تمہاری بیٹی قندیل نے ایف ایس سی کا امتحان بہترین نمبروں میں امتحان پاس کر لیا تھا مگر میڈیکل کالج میں داخلہ قندیل سے کم نمبر لینے والے ایک حافظ قرآن کو ملا۔ تم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مساوی حقوق کے آرٹیکل کا حوالہ دیا۔ مگر کیا بنا؟ کچھ بھی نہیں۔

اور سنو! یہ جو ہم نے 5 فیصد ملازمتوں میں کوٹا دینے کا اعلان کر رکھا ہے اِس کو ایک نمائشی اقدام سمجھو۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ یہ تمہارے معاشی استحکام کے لئے نہیں بلکہ اندرون و بیرون ملک داد سمیٹنے کے لئے دکھاوا پروگرام ہے۔ برکت مسیح۔ اِس کوٹا سے تو تم لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا۔ فائدہ تو تب ہو اگر یہی کوٹا ہم تمہیں پیشہ ور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی فراہم کریں۔ وہ ہم فراہم نہیں کریں گے۔ تم پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی بھاری فیس ادا کر کے تو ڈاکٹر انجینر بننے سے رہے۔ چنانچہ وہ اسامیاں خالی ہی رہتی ہیں۔ اور اگر کوئی بچہ ڈاکٹر ا نجنیر نکل بھی آئے تو ہمارے پاس اُسے نوکری نہ دینے کے ہزار جواز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمہاری برادری کے ایک لڑکے تنویر سرویا نے وٹینری ڈاکٹر کی 17 گریڈ کی اسامی کے لئے 2013ء میں درخواست دی۔ 210 اسامیوں میں 11 اسامیاں اقلیتوں کے لئے مختص تھیں۔ ہم نے صرف دو اقلیتی امیدواروں کو رکھا جن میں تنویر نہیں تھا۔ تنویر سرویا عدالت میں گیا جہاں اسے منہ کی کھانی پڑی۔ اعلیٰ عدلیہ تک جانے کی اُس میں سکت نہیں تھی۔

یاد رکھنا ریاست کے سگے اور تم ایسے لے پالک بیٹوں میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ تم معاشرے کا کمزور اور پست ترین طبقہ ہو۔ تم کیوں توقع کرتے ہو کہ تمہارے ساتھ ہمارے ایسا سلوک کیا جائے۔ جب آئین میں ہماری تمہاری حیثیت ایک ایسی نہیں تو برتاؤ میں کیوں ہو؟ تمہارے ساتھ کم تر سلوک کو ہم نے قانونی و اخلاقی حیثیت دے رکھا ہے۔ ذرا ملاحظہ کرو۔

یاد کرو۔ مارچ 2015ء میں یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں پر خود کش دھماکے ہوئے تو ہماری مانند تم نے بھی مشتعل ہو کر توڑ پھوڑ کی۔ پولیس کی حراست سے دو مشکوک افراد کو چھڑا کر تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اقتدار کے ایوان میں کھڑے ریاست کے وزیر داخلہ چوہدی نثار نے تمہارے عمل کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔ تاہم نومبر 2017ء میں فیض آباد، اسلام آباد کے دھرنے کے دوران قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے، پولیس کے ایک سپاہی کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کرنے والے ریاست کے اعلیٰ درجے کے شہر یوں کو معاہدے کے تحت پر امن مظاہرین قرار دیا گیا۔ اور دوسری طرف یوحنا آباد سانحہ میں توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار 27 ملزمان کو ضمانت لینے کے لئے ہائی کورٹ تک جانا پڑا اور جب ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تو سرکار اُس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی جہاں اعلیٰ عدالت نے ضمانت کی توثیق کی تاہم حکومت کم تر شہریوں کے حق ضمانت کو تسلیم کرنے سے منکر رہی۔

نومبر 2005 کا واقعہ تو یاد ہی ہو گا جب ضلع ننکانہ کے مضافاتی قصبہ سانگلہ ہل میں ایک مسیحی یوسف مسیح پر تکفیر کا الزام عائد کرنے کے بعد مسیحیوں کے گھرو ں پر حملہ کر کے تین گر جا گھر، ایک کانونٹ، ایک لڑکیوں کا ہاسٹل اور ایک پاسٹر ہاؤس نذر آتش کر دیا تھا۔ 88 مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا۔ تمام ملزمان کے خلاف الزامات واپس لینے تک (عرصہ تین ماہ تقریباً) گھر وں سے بھاگے ہوئے خوف کے مار ے مسیحیوں کو ہم نے واپس نہیں آنے دیا۔

 31جولائی 2009 کو پنجاب کے شہر گوجرہ میں ایک مسیحی پر تکفیر کا الزام عائد کرنے کے بعد مسیحی بستی کو جلا ڈالا گیا جس میں 8 افراد زندہ جل کر مر گئے۔ 60 کے قریب گھروں کو جلا کر راکھ بنا دیا گیا۔ گھروں سے قیمتی سامان لوٹ لیا گیا۔ 7 جون 2011 کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے باقی مشکوک ملزمان کو بھی ضمانت کر رہا کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ تفتیش کے دوران 70افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جن میں سے 68 کو قبل ازیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا باقی دو کو بھی رہا کر دیا گیا۔ بتایا گیا کہ 185 عینی گواہوں میں سے پانچ ملک چھوڑ چکے ہیں جس کی بنا پر ملزمان کو چھوڑ دیا گیا۔

2013ء میں لاہور میں ایک مسیحی پر تکفیر کا الزام عائد کرنے کے بعد مسیحیوں کی ایک کالونی جوزف کالونی کو مشتعل ہجوم نے نذر آتش کر دیا تھا۔ واقعہ میں 100سے زائد گھر ، متعدد دکانوں اور دیگرسامان کو نذر آتش کرنے ک علاوہ قیمتی سامان لوٹ لیا گیا۔ پولیس نے 115 ملزمان کو گرفتار کیا۔ جنوری 2017 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (لاہور) نے 2013 میں جوزف کالونی لاہور کو نذر آتش کرنے کے 115 ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنا پر رہا کر دیا۔ تمام عینی شاہدین نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا جس کی بنا پر تمام ملزمان کو جو پہلے روز سے ضمانت پر تھے بے گناہ قرار دے دیا۔

برکت مسیح! تم غیر مسلم شہریوں کی حیثیت کیا ہے؟ مئی 2010ء میں لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہ پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مرنے والوں میں ایک مسلمان سپاہی بھی تھا۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے 79 احمدیوں کے ہاں جانا گوارا نہیں کیا لیکن ایک مسلمان سپاہی کے گھر تعزیت کے لئے ضرور گئے۔ ایک غیر مسلم شہری کی حیثیت کا اندازہ تمہیں اسی سے لگا لینا چاہیے کہ قصور میں غم سے نڈھال باپ کو بھی یاد تھا کہ اُس کی بیٹی کے قاتل کا سراغ لگانے والے کی اہلیت پیشہ وارانہ مہارت اور تجربہ سے بڑھ کر مذہبی وابستگی ہے چنانچہ ایک غیر مسلم آفیسر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا جو بے چون و چرا مان لیا گیا۔

برکت مسیح! ہمارے ملک میں کسی پالیسی کو دوام نہیں۔ جب بھی کوئی حکومت آتی ہے تو وہ نئی پالیسی بناتی ہے مگر پچھلے 70 سال سے ایک پالیسی ہے جسے ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت سے زیادہ کمٹمنٹ سے جاری رکھتی ہے۔ وہ پالیسی مذہبی اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے، انہیں پس ماندہ اور پست حال رکھنے کی پالیسی ہے۔ چنانچہ تمہیں سر اٹھا کر جینے کا کوئی حق نہیں، تمہیں آواز اٹھانے کی اجازت نہیں،

برکت مسیح ! زندہ رہنا ہے تو آواز اور آنکھیں نیچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).