آسکر آئے گا


ایک اور موضوع مل گیا۔ ایک اور کہانی پر فلم بنے گی۔ ایک اور زندگی کے اختتام پر موقع پرستوں کی دکان کے شٹر کھل گئے۔ نام نہاد این جی اوز سے منسلک خواتین اور حضرات کو آگاہی مہم کے لئے لاکھوں ڈالر جمع کرنے کا نادر موقع ہاتھ لگ گیا۔ تاریخ میں سنہری حروف سے اپنے کارناموں کی فہرست مرتب کرنے کے لئے طاقتور ایونوں میں، قانون سازی کے نام پر۔ نئے بل نئی قراردادوں کا ایسا غل ہو گا کہ جیسے بس یہ قانون بن گیا اور وہ عمل درآمد شروع۔ مجھے ایک اور آسکر کے پاکستان آنے کی بو آ گئی ہے۔ تیزاب گردی، جنسی زیادتی، ہراساں کرنا، ونی، وٹہ سٹہ، کاروکاری، یہ بھی پاکستان کے حسین چہرہ کے کچھ خدوخال ہیں، لیکن یہ ایک الگ بات کہ ان خدوخال پر بات کرنا معیوب ہے۔ لیکن سیکس ایجوکیشن کے نام سنتے، ہمارے نام نہاد مولوی نا جانے کیا سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنے والا ناپاک ہو جائے گا۔ شعیہ سنی کے نام پر بٹ گئے، سنی بریلوی کے نام پر بٹ گئے۔ اور بٹتے بٹتے یہ وقت آ گیا کہ ہمارے بچے ہماری آنکھوں کے سامنے برہنہ کر کے پھینک دیئے جاتے ہیں۔ اور ہم انہی سوال و جواب کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ وہ عیسائی تھا یا ہندو، سکھ یا پھر مسلمان۔ زینب نام سے شیعہ لگتی ہے۔ یہ مکروہ سوال میں نے اپنے کانوں سے سنا اور پھر کسی کی یہ دلیل بھی سنی کہ نہیں شیعہ نہیں۔ طاہر القادری والے ہیں یہ لوگ۔ ماتم کرنے کو جی چاھتا ہے۔ اتنے اعلی منصب پر ہوتے ہوئے علم کی گھٹری سے لدے ہوئے ایسے عاقل و بالغ افراد کے سائے سے بھی مجھے خوف آتا ہے، ان کے ارد گرد کے بچے عورتیں۔ کتنے مجبور ہوں گے یہ سوچ کر دلگیر ہوجاتی ہوں۔ قانونی اعتبارسے لڑکی کی عمر شادی کے لئے 18 سال ہے لیکن 50 سال کے بڈھے کو چاھئے 16سال کی معصوم بچی، اور بعض درندے اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اپنی غلیظ ہوس کو پورا کرنے کے لئے سات سال کی زینب کو بھینٹ چڑھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ سیکس ایجوکیشن سے جن حضرات کی جان جا رہی ہے۔ انکے لئے یہ کڑوا سچ کہنا چاھتی ہوں کہ۔ ان کے لئے اس سے اچھا موضوع اور کوئی نہیں۔

ان کے موبائل چیک کئے جائیں گئے اور یہ اعدواد شمار ترتیب دئے جائیں کہ کس عمر کے لوگ کس تعداد میں کس قسم کی ویڈیو سرچ کرتے ہیں۔ اور یہ ایک چھوٹا سا عمل آپ کے نام نہاد پاکیزہ شخصیات کی وہ شکل دکھا دے کہ آپ خود بھی ہکا بکا رہ جائیں گے۔ کچھ عوامل بہت واضع ہوتے ہیں، تین دن کے سوگ کے بعد سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں، شاید بہت کم لوگوں کو یاد رہ گیا ہو کہ یا واقع کتنے دن پہلے کا ہے۔ اب ایک نئی بحث نیوز چینل پر شروع ہو گئی ہے کہ آیا، بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینی چاھئے یا نہیں۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا ہے کہ نصاب میں اس مضمون کو شامل ہونا چاھئے یہ ہمارے بچوں کی زندگیوں کا سوال ہے، یہ مدعا آج سے غالبا دس سال پہلے اٹھا تھا۔ اور داود پبلک اسکول نے اس ایجوکیشن پر کام کرنے کا سوچا ہی تھا کہ ہمارے مولوی حضرات نے وہ طوفان اٹھایا کہ الامان الحفیظ

مجے یاد ہے۔ 2011 میں میں نیوز ون پر ایک پروگرام کیا کرتی تھی جسکا نام ٹیبو تھا۔ اس پروگرام میں بھی ہم نے سیکس ایجوکیشن کے عنوان پر بات کی تھی کے آیا اسے نصاب کا حصہ ہونا چاھئے یہ نہیں، لیکن اس وقت بھی ہم نے بہت محتاط ہو کر اس موضوع پر بات کی تھی۔ آج کل اور شاید آئندہ آنے والے دنوں میں اس موضوع پر بات ہو گی، اور عقل کے دشمن اسے مگر مغرب کی یلغار کہیں گے، اسلام دشمنی کے فتوے بٹیں گے، سٹرکوں پر۔ احتجاج ہوگا، یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ یہاں اس فرنگی معاشرے کی ننگی تہذیب کو ہر صورت روکیں گے۔ اور نا جانے کیا کیا۔ ہر روز ایک باپ اپنی زینب کو کندھا دے یہ منظور ہے۔ لیکن ایک پڑھے لکھے معاشرے کو پروان نہیں چڑھنے دینا، اس طوفان کو اٹھانے والوں سے ذرا کوئی یہ پوچھ لے کہ بھائی آپ جانتے بھی ہیں کہ سیکس ایجوکیشن میں بچوں کو کس قسم کی تعلیم دینے پر غور ہو رہا ہے۔ یا وہی اپنی ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد لگا کر فتووں کا کاروبار کرنا ہے۔ 10 جنوری 2018 کو معصوم زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر پر تھی جسے جنسی زیاتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا زینب کا شہر قصور تھا لیکن وہ خود بے گناہ اور بے قصور تھی۔

زینب کے ساتھ پیش آنے ولا المناک حادثہ نہ پہلا تھا اور نہ آخری۔ سوال یہ ہے کہ ہم سب اس بات پر متفق کیوں ہیں کہ یہ آخری واقعہ نہیں کیونکہ آج دن تک۔ اس عمل کے مرتکب اشخاص کو قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔ عورت کو اپنی جاگیر سمجھنے والے مردوں نے بچی لڑکی ، خاتون کی تمیز کو ایسا روندا ہے کہ سوچ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مجھے زینب کے معصومیت کا سوچ سوچ کر رونا آتا ہے۔ وہ معصوم کس اذیت سے گزری ہے ، پہلے اس حیوان کی درندگی اور پھر موت کے گھاٹ

ایک ایسا علاقہ جہاں سے اربوں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہو، جہاں چمٹرے کی صنعت سے دنیا بھر سے زرمبادلہ آتا ہے ، جو روایتوں کا امین ہو، جو مذہبی۔ اور ثقافتی اعتبار سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہو۔ ۔ جس شہر کو پاکستان کی آنکھ کہا جاتا ہو، جہاں ملنساری، زندہ دلی ، محنت عوام کے اوصاف ہوں وہاں اس بے غیرتی کا کیا کوئی تصو ر بھی کر سکتا ہے۔ بابا بلھے شاہ کی زمین۔ میر ا سوہنا شہر قصور وے، گانے والی نورجہاں کا شہر۔ جہاں شہرت یافتہ صحافی نجم سیھٹی جیسے لوگ پیدا ہوئے ہوں۔ تو کیسے اس شہرمیں زینب کو ہوس کا نشانہ بنانے والے کیسے پروان چڑھ رہے ہیں ، اس سوال کا جواب مجھے بآسانی مل گیا، تھوڑی سی ریسرچ اور لوگوں سے بات چیت کر کے اندازہ ہوا کہ قصور کی نواحی گلیوں میں بے روزگاری بے لباس گھوم رہی ہے۔ اور چند خوشحال گھروں کے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، لیکن یہ محرومی کوئی جواز نہیں کہ بے راہ روی کے دروازے کھول کے جو جس طرح اپنی طاقت دکھانا چاھئے دکھائے۔ محرومیوں کا ازالہ حکومت وقت کی زمہ داری ہے۔ جو کیسے اور کب پوری ہوگی۔ یہ آپ اور ہم خوب جانتے ہیں۔ زینب بی بی کے دلخراش واقعے کے بعد دنیا بھر سے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی حکمت عملی سمیت مختلف ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں۔ جو یقینا والدین اور استاتذہ کی رہنمائی اور بچوں کی حفاظت میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہاں یہ بات زہن میں رکھنا ضروری ہے کہ۔ زینب بی بی کی ساتھ پیش آنے والے اس ناقابل فراموش واقعے کو کوئی اپنی دکان چمکانے کے لئے نہ استعمال کر سکے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں ایسے پلید لوگ موجود ہوتے ہیں جو معصوم زندگیوں کے خون سے اپنا چہرہ رنگ لیتے ہیں۔ لیکن مجھے زینب کے نام پر پاکستان میں ایک اور آسکر آتا دکھائی دے رہا ہے۔ کردار، کہانیاں دنیا کے ہر کونے میں ہیں لیکن پاکستان کی زینب ہی یہاں بھی بھینٹ چڑھائے جائے گی ۔۔۔۔۔ کیوں؟

ثنا ہاشمی
Latest posts by ثنا ہاشمی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).