مسلمان کس خوش فہمی میں ہیں؟


کوئی زمانہ ہوا کرتا ہوگا جب انسانی معاشرے میں قوت بازو، اچھا نشانہ اور جنگی چالیں زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے اور ترقی کی بنیاد ہوا کرتے ہوں گے۔انسانی زندگی کا مسکن گپھائیں ہوا کرتی تھیں اور کاروبار زندگی کے نام پر دو وقت کی غذا کا سامان مہیا کرنا ہی سب کچھ تھا لیکن جیسے جیسے انسان نے تمدن کے زینے چڑھنا شروع کئے اور انسان کہلانے والا یہ دوپایہ عقل کا استعمال کرکے دریاؤں کا سینہ چیرنے، پہاڑوں کو پیروں تلے روندنے، ہواؤں کے بازوؤں پر سوار ہونے اور قدرتی وسائل کا بہتر استعمال کرکے زندگی کو مزید آسان اور ثمرآور بنانے کی سوچنے لگا تو ترقی کے تقاضے  بدل گئے۔ اب تک اپنے وجود کی بقا ہی کافی ہوا کرتی تھی اب پیمانہ یہ قرار پایا کہ انسان صرف کھانے پینے، بچے جننے اور مرجانے سے آگے بڑھ کر عقل و دانش کا استعمال کرے اور خود کو اشرف المخلوقات ثابت کرے۔ انسانی ارتقا پر شرق و غرب میں اب تک جو کچھ لکھا بولا گیا ہے اس کو صرف ایک جملہ میں سمیٹا جائے تو وہ یہی ہوگا کہ جس نے اپنے وجود کو دنیا کی جتنی بڑی ضرورت بنا لیا اس کی اہمیت اتنی ہی بڑھتی گئی۔ فتوحات اور ترقیوں کے زینے انہیں کے قدموں کی منزل بنے جنہوں نے دوسروں کے مقابلے عقل و دانش کا زیادہ استعمال کیا ۔ دھیرے دھیرے دنیا نے علوم کو منظم شکل دی اور سیکھنے سکھانے کا وہ نظام وجود میں آیا جسے ہم جدید تعلیمی نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔

انسانی تاریخ ایسے موڑوں سے گذری ہے جہاں تیر و تلوار فتح و شکست کے فیصلے کیا کرتے تھے لیکن وہی تاریخ اس کی بھی گواہ ہے کہ تیر و تلوار سے پٹی ہوئی قوموں نے جب قلم سنبھالا تو آنے والی کل کا سورج ان کی تاجداری کاا علان لے کر آیا۔ مثال کے طور پر تاریخ کی نگاہوں نے 1453 میں دیکھا کہ تقریبا 14 صدیوں تک دنیا میں اپنی شان و شوکت کے لئے جانی جانے والی رومی سلطنت کا آخری قلعہ قسطنطنیہ عثمانی سلطنت نے جیت لیا۔ شہر کے ہزاروں افراد بھاگ کھڑے ہوئے اور یورپی کے دیگر حصوں میں پناہ لینے لگے۔ یورپ اب تک علم و دانش سے کٹے ہونے کے سبب تاریکی میں تھا لیکن جب قسطنطنیہ سے بھاگی ہوئی قوم یہاں آئی تو اس کے پاس ہیرے جواہرات کے ساتھ ساتھ علمی خزانے بھی تھے۔ بڑے بڑے یونانی حکماء کی تحقیقات اور علمی نسخوں کے ساتھ آئی پٹی ہوئی قوم نے اسی تاریک یورپ میں قدیم یونانی علوم کو زندہ کرنے اور اس کی تبلیغ کے لئے جان کھپانی شروع کی۔ ماہرین اور مورخین مانتے ہیں کہ آج یورپ اپنی ترقی اور علم و دانش کے سبب جس طرح دنیا میں نمایاں ہے اس کی جڑیں اسی شکست خوردہ قوم کی علم و دانش کے احیاء کی کوششوں کو میں دھنسی ہوئی ہیں۔

اب ذرا اس خلافت عثمانیہ کی سن لیجئے جس نے صدیوں پرانی عظیم الشان سلطنت کی بساط سمیٹ دی تھی۔ دنیا کے تین براعظموں پر مشتمل بڑے حصے کو صدیوں تک اپنی قلمرو میں رکھنے والی اس سلطنت کا دن جب ڈھلنے پر آیا تو سورج بڑی تیزی سے سمندر کے پانیوں میں اتر گیا۔ قسطنطنیہ کی ہار کے بعد یورپ دنیا کی کھوج میں لگ گیا۔ دانش گاہوں میں اسکالروں کا جمگھٹ لگ گیا تھا، اقتصادی میدان میں ترقی کے لئے تدابیر کی جا رہی تھیں۔ سائنس سے لیکر تجارت تک کون سا شعبہ تھا جس میں دنیا یورپ کو حسرت سے نہ دیکھا کرتی ہو۔ اسی اثناء میں ایک اور انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے علم کو پھیلانے میں غیر معمولی مدد کی تھی۔ یورپ میں علم پر لگا کر اڑ رہا تھا لیکن عثمانی سلطنت میں لوگوں کو کوئی اور ہی فکر کھا رہی تھی۔ علماء نے فتویٰ عنایت فرمایا کہ چونکہ چھاپہ خانہ انگریزوں کی ایجاد ہے اس لئے اس کا استعمال مذہب کے خلاف ہے۔ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کا بیٹا بایزید دوم تخت پر بیٹھ چکا تھا اس نے چھاپے خانے پر عربی رسم الخط میں کتابوں کی اشاعت کرنے والوں کو موت کی سزا کا اعلان کر دیا۔

ایک طرف قسطنطنیہ سے گھر بار چھوڑ کر بھاگی قوم دنیا کو اپنی عملداری میں لے رہی تھی اور علم اس کے ہر چوراہے تک جا پہنچا تھا وہیں وہ جو کبھی فاتح ہوا کرتے تھے انہوں نے علم پر پہرے بٹھا دیئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پہلی جنگ عظیم میں اسی پٹی ہوئی فرار قوم نے فاتح عثمانی سلطنت کی ایسی اینٹ سے اینٹ بجائی کہ اب امراء کے سروں سے چھت اور پیروں کے نیچے سے زمین کھسک چکی تھی۔ تین براعظموں پر راج کرنے والے ایک چھوٹے سے ٹکڑے تک سمیٹ دیئے گئے تھے۔ اقتدار کے نشے میں چور بادشاہوں نے بھلے ہی اس حقیقت کو جھٹلانے کی بار بار کوشش کی ہو کہ بقا اور ترقی کے فیصلے تلواریں کیا کرتی ہیں لیکن حالات نے انہیں ہمیشہ آئینہ دکھا دیا۔ بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان پانی پت میں رن پڑا تو ابراہیم لودھی کی فوج طاقت کے اعتبار سے اتنی زیادہ تھی کہ مقابلہ بظاہر یکطرفہ تھا لیکن گھوڑوں، ہاتھیوں، سپاہیوں اور تلواروں کا سامنا جب توپ کے گولوں سے ہوا تو ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ مورخ نے وقت کے سینہ پر لکھ دیا کہ جدید وسائل جس کے پاس ہوں گے فتح اسی کا حصہ بنے گی۔

یہ سارے تاریخی قصے سنانے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ انسانی ترقی کا سفر علوم، ایجادات اور عقل کے بہتر استعمال سے مشروط ہے۔ ہر ایک اس غلط فہمی میں جینے کے لئے آزاد ہے کہ بنا جدید علوم کو سیکھے، سائنس اور ایجادات سے بے خبر رہ کر اور اقتصادی میدان میں کمزور ترین ہونے کے باوجود بھی قومیں ترقی کر سکتی ہیں لیکن تاریخ اس بھلاوے میں رہنے والوں کو ہمیشہ بتاتی رہی ہے کہ علم و دانش ہر چیز کا متبادل ہو سکتے ہیں لیکن علم و دانش کا کوئی اور متبادل نہیں ہو سکتا۔

اب تک کی گفتگو ذہن میں رکھ کر ذرا مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال پر ایک نظر ڈالئے اور بتائیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔ ایک طرف تو حال یہ ہے کہ مسلمانوں میں بنیادی تعلیم کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں وہاں دنیا ہے کہ علم کے ہر آسمان کو چھو لینے کے لئے پاگل ہوئی جا رہی ہے۔ صرف کسی ایک ملک کی بات نہیں دنیا بھر میں مجموعی طور پر مسلمان جدید تعلیم سے جسقدر دور ہیں اس کو دیکھ کر یہ سوال تو اٹھے گا ہی کہ کیا یہ وہی قوم ہے جس کے نبی پر پہلی وحی اقراء کی اتری تھی، جس قوم کے پیغمبر کی ذمہ داری کتاب و حکمت کی تعلیم دینے والے کے طور پر طے کی گئی تھی، جس کے نبی نے اپنا تعارف شہر علم کے طور پر کرایا، جس قوم کے امام اپنے ماننے والوں سے بار بار مطالبہ کرتے ہوں کہ پوچھو ، سوال کرو۔ ایسی قوم آج تعلیمی میدان میں جہاں کھڑی ہے وہاں سے تو اس پیغمبر سے تعلق کا دعویٰ بھی مشکوک لگتا ہے۔ لیکن کیا ہمیشہ سے حالات ایسے ہی تھے؟۔

1258 میں ہلاکو نے جب بغداد پر چڑھائی کی اس وقت یہ شہر علم کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ مورخین کہتے ہیں کہ شہر میں لائبریریاں کتابوں سے اٹی پڑی تھیں، دنیا بھر کی زبانوں سے قیمتی کتابوں کا دھڑا دھڑ ترجمہ ہو رہا تھا۔ شہر تھا کہ علم کیمیا، ریاضیات، شعر و ادب اور طبعیات کے اسکالروں سے چھلکا پڑتا تھا۔ علمی ماحول کا اندازہ تاریخ میں درج اس جملے سے لگا لیجئے کہ حملہ آوروں نے انسانوں کی لاشوں کا انبار لگانے کے بعد جب شہر کی سیکڑوں لائبریریوں سے قیمتی قلمی نسخے ڈھو ڈھو کر دریا میں بہانے شروع کئے تو دجلا کا پانی کئی دنوں تک ان کی سیاہی سے کالا پڑا رہا۔

ماتم کیجئے کہ یہی قوم دو صدی بعد اس موڑ پر آ کھڑی ہوئی تھی کہ چھاپہ خانہ غیر اسلامی قرار دے دیا گیا تھا اورعلم کی ترویج و اشاعت کے دروازے بند ہونے لگے تھے۔ مسلمان بادشاہتوں میں تلواروں کی دھار تیز رکھنے اور جنگی ہاتھی گھوڑوں کی نگہداشت پر جتنی توجہ صرف کی گئی اس کا ایک سواں حصہ اگر قلم تراش کر جدید علوم کے اسکالروں کی سرپرستی پر دی گئی ہوتی تو وہ قوم جس نے یورپ کو جنگ کے میدان میں ٹکر دی تھی تعلیمی میدان میں کم از کم اس لائق تو ہوتی کہ کم از کم مقابلہ میں تو شامل قرار پاتی،اب تو حالت وہی ہے کہ سو اور صفر کا کیا مقابلہ؟۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter