کمپیوٹر کا دماغ رکھنے والے ڈاکٹرعمر سیف کو نکالنے والے کا اپنا دماغ نہیں



ملائیشیا کے مہاتیر محمد کے دادا پاکستان کے شہر کوہاٹ سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ والدہ ’’ملے‘‘ قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ ایک سکول ٹیچر تھیں، مہاتیر محمد نے تعلیم تو میڈیکل کی حاصل کی تھی لیکن اپنے ملک سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عہد لے کر سیاست کے میدان میں کودے ۔ان کا مقصدملائیشیا کو ترقی یافتہ ممالک کی فہر ست میں شامل کروانا تھا۔ 22 برس وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے اور اس دوران انہوں نے جتنے بھی اہم اقدام اٹھائے، ان میں سے ایک قدم بیرون ممالک کام کرنے والے ملائیشین دماغوں کو وطن واپس لانا تھا۔ مہاتیر نے تمام ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے ملائیشین کو پُر کشش مراعات آفر کیں اور اس طرح ملائیشیا کے دماغوں کو استعمال کر کے ملائیشیا کو ترقی یافتہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

اب ذرا پاکستان کی بات کرتے ہیں، دنیا بھر میں پاکستانی اہم عہدوں براجمان نظر آتے ہیں۔ صرف امریکا میں ’’اپنا‘‘ نامی تنظیم پاکستانی ڈاکٹروں پر مشتمل ہے اور سنا ہے کہ یہ ڈاکٹر امریکا کے لائق ترین ڈاکٹروں میں سے ہیں۔ اسی طرح انجنیئرنگ، سافٹ ویئرنگ اور دیگر شعبوں کا جائزہ لیں، تو بھی آپ کو پاکستانی دماغ ہی نظر آئیں گے۔ ان میں سے اگر کوئی وطن کی محبت کے جذبات لے کر لوٹتا بھی ہے تو اسے اس قدر بُرے تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ے کہ وہ اپنے آنے والی نسلوں کو بھی پاکستان سے دور رکھنے کی خواہش کرتا ہے، کچھ ایسے محب وطن بھی ہیں، جو ہر حال میں پاکستان کی خدمت کرنے کو اپنا اوّلین فریضہ قرار دیتے ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں کچھ بھی قربان کرنا پڑ جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان ہیروں کی قدر کرتے ہیں؟

یہاں کا لال فیتہ سسٹم، بیوروکریسی اور نالائق سیاست دان ان کے عزم کے راستے کی دیوار بنتے ہیں۔ حال ہی میں ایسے وزیراعلیٰ جس کے لباس سے کف نہیں اترتی، ان کی تقرری کا کرائی ٹیریا صرف یہ ہے کہ ان کے حلقے میں بجلی اور پانی نہیں ہے، جو کہ جھوٹ ہے، لیکن چلیں پس ماندہ علاقوں کو نمائندگی دینے کے لیے انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بنا تو دیا گیا، لیکن بقول چیف جسٹس وزیراعلیٰ پنجاب کی جماعت اور لیڈر میں نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی اہلیت کہ وہ نیا پاکستان تشکیل دیں۔ خیر بات تو ہو رہی تھی، وزیراعلیٰ پنجاب کی جس نے اپنے آقا کے ایک اشارے پر ڈاکٹر عمرسیف کو نوکری سے نکال باہر کیا۔ عمرسیف معروف کمپیوٹر سائنس دان اور پاکستان انفامیشن اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے صفر سے شروع کر کے پاکستان میں ریسرچ کرنے والی پہلی یونیورسٹی بنائی، جس میں سو کے قریب پی ایچ ڈی اُن اساتذہ کا تقرر کیا گیا، جو بیرون ملک اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ رواں برس 35 ہزار طلبہ و طالبات نے یہاں داخلے کی درخواست دی تھی۔ ڈاکٹر عمر سیف کی مجموعی خدمات پر نظر دوڑائیں، تو ان کی قابلیت پر رشک آتا ہے۔ انہیں یونیسکو نے اپنے ایک پروجیکٹ میں چیئر پرسن مقرر کیا تھا اور عمر سیف اس اعزاز پر بڑے خوش تھے اور خوشی کی وجہ یہ تھی کہ وہ دنیا کی چار بڑی یونیورسٹیز کو پاکستان کی ٹیکنالوجی یونیورسٹی سے منسلک کرنا چاہتے تھے اور بطور چیئرمین یونیسکو وہ یہ کام احسن طریقے سے انجام دے سکتے تھے۔آیئے ذرا ان کی خدمات کے خلاصے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

کسی شہری کو فرد کے حصول کے لئے پٹواری اور تحصیل دار کولاکھوں کی رشوت دینا پڑتی تھی،پھر ایک دن سننے میں آیا کہ آن لائن مراکز قائم کر دیئے گئے ہیں جہاں چند منٹوں کے اندرمعمولی فیس کے عوض آپ اپنی زرعی زمین کی فرد ملکیت حاصل کر سکتے ہیں، وہیں وراثت کا انتقال کرا سکتے ہیں اور وہیں اپنی زمین کسی گاہک کو فروخت کر سکتے ہیں، ڈاکٹر عمر سیف نے ہمیں پٹواری سسٹم سے نجات دلا دی۔ اب تک پانچ کروڑ ستر لاکھ دیہی اراضی کے مالکان کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جا چکا ہے۔ 151لینڈ ریکارڈ سنٹر ز میں جا کر آپ ٹوکن لے کر چند ہی منٹوں میں فرد حاصل کر سکتے ہیں۔ نئے سسٹم کے تحت قانون گو‘ پٹواری اور تحصیل دار وغیرہ کا کردار ختم کر دیا گیاہے۔ یہ سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہے۔ پھر دیکھا کہ سیف سٹی کے منصوبہ کے تحت پورے شہر کی سڑکوں حتی کہ گلیوں میں بھی کیمرے نصب کر دیئے گئے اور ای چالان کا اجراہوا اور ٹریفک کی خلاف ورزی کے چالان کی پرچی گھر پہنچنے لگی۔اس تبدیلی کے پیچھے کسی بل گیٹس ، کوئی مارک ذکر برگ، کوئی لیری پیج ، کوئی اسٹیو جابس کا نام تو نہیں ہے لیکن کوئی تو تھا جس نے ایک بلند و بالا ٹاور بنایا اور اس میں سائنسی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اپنے وطن کے نظام میں تبدیلیاں لانا شروع کیں۔ یہ ڈاکٹر عمر سیف کا ہیڈ کوارٹر تھا جس نے مہینوں میں پنجاب کو سیلی کون ویلی اور بنگلور کے ہم پلہ بنا دیا ۔

عمر سیف نے پنجاب کو مستقبل میں داخل کر دیا۔ پنجاب میں کبھی گھوسٹ سکولوں کا بڑا چرچا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر عمر سیف نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔ صحت کے شعبے میں ڈاکٹر عمر سیف کے کرشمے بھی دیکھ لیں۔ شہروں میں تو پھر صحت کی سہولیات میسر ہیں اصل مسئلہ تحصیل یا ڈسٹرکٹ ہسپتالوں ‘ رورل ہیلتھ سنٹرز اور صحت کے بنیادی مراکزکا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیو کا خاتمہ بھی ایک چیلنج تھا جو پوری دنیا میں ختم ہو چکا لیکن ہمارے ہاں باقی ہے۔ پولیو اور دیگر بیماریوں مثلاً خسرے وغیرہ کی حفاظتی ویکسی نیشن کا ڈیٹا ریکارڈ کرنے کیلئے ایک موبائل سافٹ ویئر ایپ بنائی گئی جس کے تحت یہ 3751موبائل ویکسین دینے والے افراد سمارٹ فون لے کر گھروں میں جاتے ہیں اور پولیو کے قطرے پلاتے ہیں‘ انجکشنز لگاتے ہیں اور وہاں سے جی پی ایس کی مدد سے اپنی پوزیشن‘ بچوں کا ڈیٹا ریکارڈ اپ لوڈ کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کون کون سا علاقہ پولیو اور دیگر بیماریوں سے پاک ہوتا جا رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق اس سسٹم کی وجہ سے پولیو ویکسی نیشن کی کوریج پنجاب کے اٹھارہ فیصد علاقوں سے بڑھ کر 88فیصد ہو چکی ہے۔اس سسٹم کی کامیابی دیکھ کر خیبرپختونخوا نے بھی ڈاکٹر عمر سیف سے رابطہ کیا اور یہی سسٹم پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے خیبرپختونخوا کو بھی فراہم کر دیا تھا۔ ڈاکٹر عمر سیف کا ایک اور بڑا کارنامہ پولیس اور امن عامہ کے شعبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہتری لانا تھا۔ پنجاب کے تمام سات سو چودہ تھانوں میں فرنٹ ڈیسک بنائے گئے جہاں کمپیوٹرائزڈ ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔اندراج کے بعد اس میں ردوبدل ممکن نہیں‘ روزنامچہ بھی نہیں رکوایا جا سکتا‘ ضمنی میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ چند سال قبل حج انتظامات میں کرپشن اور بدانتظامی اس قدر عروج پر تھی کہ وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو جیل کی یاترا کرنا پڑی۔ آج وہی نظام اس قدر فول پروف کر دیا ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں سے حج آپریشنز میں کرپشن تو دور کی بات ہے، معمولی سی بدانتظامی دیکھنے یا سننے کو نہیں ملتی۔پنجاب میں ای روز گار شروع کیا جس کے تحت لاکھوں مرد وخواتین اور طلبا گھروں میں بیٹھے آن لائن روزانہ دس سے سو ڈالر کما رہے ہیں‘ جس نے بہترین آئی ٹی یونیورسٹی بنائی‘ جس نے ای سٹامپ پیپر بنا کر سارا جھنجٹ ہی ختم کر دیا۔ یہ سارے کام آئی ٹی بی پنجاب میں ڈاکٹر عمر سیف کی نگرانی میں ہوئے۔

نوجوان ڈاکٹر عمر نے تئیس سال کی عمر میں پی ایچ ڈی مکمل کی‘ جسے آج بھی گوگل دبئی سے کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہ کی آفر ہے لیکن اس پر وطن کی خدمت کا جنون سوار ہے۔ بل گیٹس نے عمر سیف کا نام دنیا کی پانچ بہترین ٹیکنالوجی ایکسپرٹس کی فہرست میں رکھا اور امریکہ بلا کر ساڑھے آٹھ گھنٹے ملاقات کی اور پاکستان میں مفادعامہ کے منصوبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر اس کی ستائش کی۔
یہ تو عمر سیف کا مختصر تعارف ہے لیکن اس تعارف کے ایک پہلو نے انہیں اس جاب سے نکال باہر پھینکا اور پاکستان کو ایک بڑے دماٖغ سے محروم کر دیا گیا اور وہ یہ تھا کہ ان کی تعیناتی شہباز شریف نے کی تھی۔عمران خان کو ہر شخص سے چڑ ہے جو شریف برادران کے دور میں تعینات ہوا اور لائق فائق ہے۔کمپیوٹر کے دماغ والے ڈاکٹر عمر سیف کو ایک ایسے شخص نے فارغ کیا جس کا اپنا کوئی دماغ نہیں ہے۔واہ !عمران خان کسی اہل بندے کو نہ برداشت کرنا اپ کی فطرت کا حصہ ہے۔پاکستان پر تھوڑا رحم کر لو،اہل بندوں کو نہ چھیڑو، تم نہیں یہ لوگ پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).