نواز شریف بتاتے ہیں کہ وہ خاموش کیوں ہیں


”سپیدہ سحر پھوٹ رہا ہوتا ہے جب میں لاہور سے اسلام آباد پیشی کے لیے رخت سفر باندھ رہا ہوتا ہوں“ یہ الفاظ میاں نواز شریف نے گزشتہ روز احتساب عدالت میں اپنے مصاحبوں کو بتا رہے تھے۔ میاں نواز شریف بیانات قلمبند کروانے کے دوران ایک موقع پر جذباتی ہو گئے۔ وہ سیدھا فاضل جج سے مخاطب ہوئے اور کہا ”مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیس بنایا کیوں گیا؟ استغاثہ کو بھی معلوم نہیں ہو گا کہ کیس کیوں بنایا؟ دنیا بھر کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔ میرے بچوں نے اگر مجھے پیسے بھیج دیے تو کون سا عجوبہ ہو گیا؟ میں وزیراعظم رہا ہوں میرے بچے یہاں کاروبار کریں تب مصیبت، باہر کریں تب مصیبت۔“

بحیثیت کورٹ رپورٹر مجھے بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ ان ریفرنسز کی آخر بننا کیا ہے؟ بیانات قلمبند کروانے کے بعد جب وہ واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ عموماً سماعت میں بیس منٹ کا وقفہ ہوتا ہے مگر آج معمول سے ہٹ کر وقفہ طوالت پکڑ گیا۔ ایک گھنٹے سے اوپر کا وقت جب ہو چلا تو میں نے ڈان اور پبلک نیوز کے رپورٹر ہرمیت سنگھ سے کہا چلتے ہیں اور میاں صاحب سے گپ کرتے ہیں۔

بیان قلمبند کرواتے ہوئے میاں نواز شریف تناؤ کا شکار تھے مگر بعد میں ان کا موڈ خوشگوار ہو گیا۔ ہم جب ان کے پاس گئے تو انہوں نے ہم سے پوچھا ”کیا خبریں ہیں؟ “میں نے کہا سر خبروں کا سرچشمہ آپ ہیں مگر آپ نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ بولے ”انشاءاللہ جلد قوم کو خوشخبری ملے گی“ ۔ہرمیت سنگھ سے مخاطب ہوئے اور کہا ”ست سری اکال سردار جی گرو جی اگے پراتھنا کرو آسانیاں پیدا ہون“۔ ہرمیت نے جواب دیا کہ ”واہے گرو جی آسانیاں پیدا کرے گا“۔

میاں نواز شریف کے بائیں جانب مشاہد حسین سید بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے لقمہ دیا کہ ”گرو جی کی پراتھنا کے بعد پرشاد تقسیم کرنا“۔ عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔

میاں نواز شریف مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے ”آپ کا تعلق کشمیر سے ہے کہاں سے؟“ ترنت جواب دیا کوٹلی سے۔ بولے ”راولاکوٹ پتہ کریں گیس سلنڈر کی قیمت کیا ہے۔ بائیس سو کے قریب ہے۔ کیا میرے دور میں اتنی مہنگائی تھی؟ ہم نے تو عوام کو ریلیف دیا ہوا تھا، آج مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔“

گفتگو کرتے کرتے ایک دم بولے ”وہاں میرا دوست خالد ابراہیم رہتا تھا جو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ ایک با اصول سیاست دان تھا۔ ان کی فاتحہ کے لیے راولاکوٹ جاؤں گا۔ وہ نہ صرف میرا دوست تھا بلکہ میرا کلاس فیلو بھی تھا۔ ہم ایک ساتھ پڑھتے رہے“۔

بہت کوشش کی کہ میاں نواز شریف سے کوئی سوال نہ کروں لیکن صحافیانہ رگ پھڑک اٹھی اور ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ پوچھا ”میاں صاحب جاننا چاہتا ہوں کہ ایک سال سے کیس کور کر رہا ہوں۔ آپ پر مشکل وقت ہے۔ کئی لوگ اس مشکل وقت میں پورے پاکستان سے اپ کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے گرم سرد موسم میں آ رہے ہیں۔ جب اچھا وقت آتا ہے تو ان لوگوں کو فرنٹ بینچز سے اُٹھا کے بیک بینچز پر کیوں دھکیل دیا جاتا ہے اور ان کی جگہ کاسہ لیس کیوں آ جاتے ہیں“۔

مشاہد حسین سید نے پہلو بدلا۔ ان سے اچھی یاد اللہ ہے۔ میاں نواز شریف نے کہا ”بیٹا اس سوال کا جواب اپ کو پھر دیا جائے گا۔“

گفتگو کا رخ بدلا اور ملکی اداروں کی طرف ہو گیا میاں نواز شریف نے الٹا ہم پر سوال داغ دیا کہ ”کیا ہندوستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا میں ایسا ہوتا ہے کہ منتخب نمائندوں کے خلاف سازشیں کی جاہیں اور انھیں گھر بھیجا جائے؟ آپ ہی مجھے بتائیں اگر میں کرپٹ تھا تو آپ لوگ یہاں عدالت میں مجھ پر آوازے کستے، میں تو عدالتوں کا سامنا کر رہا ہوں۔ میری خاموشی کے پیچھے کوئی راز پنہاں نہیں عوام جلد جان جائیں گے کہ سچائی کیا ہے۔ موجودہ حکومت کو وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کی نا اہلی کھل کر سامنے آئے۔ ہمارے دور میں ڈالر کا ریٹ کیا تھا اور آج کیا ہے؟“

وہ خاموش ہوئے تو میں نے ان سے ایک واقعہ شیئر کیا اور کہا ”چوہدری تنویر اپ کے پیچھے کھڑے ہیں، یہ اس کے چشم دید گواہ ہیں۔“ تو میاں نواز شریف مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ آپ نے انھیں شعر نہیں سنایا؟ انہوں نے غالب کا شعر پڑھا
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

کمرہ عدالت میں واہ واہ کی آواز آئی۔ میاں نواز شریف نے ایک بار پھر کہا کہ سردار خالد ابراہیم کے ہاں تعزیتی پیغام دیا تھا مگر ان کے گھر فاتحہ خوانی کے لیے ضرور جاؤں گا۔ انہوں نے مجھ سے ان کی اولاد کے بارے میں پوچھا۔ سچی بات ہے مجھے نہیں معلوم کہ کتنی اولاد ہے۔ صرف دو بیٹوں کو جانتا ہوں اور ان سے اس وقت ملا تھا جب اسلام آباد میں واقع ان کے گھر جنازے پر گیا تھا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui