ہمیں سبق سیکھنا چاہئے


\"????????????????????????????????????\"گزشتہ ہفتے نوشہرہ کے قریب موٹر وے پر ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ پاک فوج کے دو کپتان نجی گاڑی پر سفر کر رہے تھے۔ موٹر وے اہلکاروں نے انہیں تیز رفتاری کے شبے میں روکنے کی کوشش کی۔ تلخ کلامی ہو گئی۔ فوجی افسر نے قریبی کیمپ میں فون کر کے اپنے ساتھی بلا لئے۔ مبینہ طور پر موٹر وے اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور انہیں اٹک قلعے میں لے جا کر بند کر دیا گیا۔ اعلیٰ حکام کی مداخلت کے بعد محبوس اہلکاروں کو رہائی ملی۔ موٹر وے پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے جب کہ آئی ایس پی آر نے تحقیقات کا اعلان کر دیا ہے۔ فی الحال تفصیلی حقائق کی توثیق یا تردید ممکن نہیں تاہم واقعے میں ملوث کیپٹن دانیال کا ایک آڈیو بیان سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے نیز موقع پر پہنچنے والے میجر زعفران کا تحریری موقف بھی دستیاب ہے۔ کپتان دانیال نے کھلے لفظوں میں بتایا ہے کہ انہوں نے موٹر وے افسر کو اپنی قانونی بے گناہی سے آگاہ کرنے کی بجائے اپنے منصب کا حوالہ دیا۔ میجر زعفران نے دو سو الفاظ کی مختصر تحریر میں تین دفعہ بتایا ہے کہ انہوں نے موٹر وے اہلکاروں کو سبق سکھایا ہے۔ سبق سکھانے کا یہ رویہ ہمارے سیاسی اور ریاستی بحران کی بنیادی علامات میں سے ایک ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان کے رہنے والوں کو کیا سبق سکھانا چاہیے ۔ اور یہ کہ ہمیں بحیثیت قوم کون سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں باقاعدہ فوج کی صورت بہت مختلف تھی۔ جنگ پلاسی کے بعد مغل بادشاہ شاہ عالم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال میں حکمرانی کا اختیار دیا تو یورپ سے آنے والے غیر ملکی تاجروں نے تجارتی مال کی حفاظت سے آگے بڑھ کر عسکری مقاصد کے لئے فوج کا ڈول ڈالا۔ بنگال، مدراس اور بمبئی میں تین فوجیں کھڑی کی گئیں۔ پنجاب، بلوچ اور گورکھا رجمنٹیں قائم کی گئیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے دوران انگریز فوج میں مقامی سپاہیوں کا تناسب ایک کے مقابلے میں چھ تھا۔ چنانچہ واضح ہے کہ برصغیر میں\"motorway-police\" غیر ملکی اقتدار کی بنیاد مقامی سپاہیوں کی وفاداری پر رکھی گئی تھی۔ انیسویں صدی کے آخری برسوں میں باقاعدہ ہندوستانی فوج تشکیل دی گئی۔ پہلی عالمی جنگ میں ہندوستانی فوج کی تعداد ساڑھے سترہ لاکھ اور دوسری عالمی جنگ میں پچیس لاکھ تھی۔ اس سے معیشت، انتظامی امور اور سیاسی ثقافت پر بندوق کی برتری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 1919 کے مارشل لا کے دوران اعجاز بٹالوی کے بڑے بھائی ذوالقرنین لاہور کے کوتوال تھے۔ آغا بابر کی یادداشتوں میں ذوالقرنین کے تاثرات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جلیاںوالا باغ، قصہ خوانی بازار، مسجد شہید گنج اور خاکساروں کے ساتھ تصادم جیسے واقعات نے ہمارے اجتماعی حافظے پر گہرے ناخوشگوار نشان چھوڑے۔ طاقت کے بل پر قائم ہونے والی غیر ملکی حکومت کا بنیادی نصب العین اپنی حکمرانی کی طوالت اور معاشی استحصال کو یقینی بنانا تھا۔ شہری سہولتوں، آبپاشی، نقل و حمل، انصاف اور انتظامی بندوبست کی بنیاد اس اصول پر تھی کہ تاج برطانیہ حکمران ہے اور مقامی باشندوں کی مناسب دیکھ بھال حکومت کے مفاد میں ہے۔ ریاست طاقتور تھی اور معاشرہ کمزور تھا۔ برصغیر میں ریاستی ادارے سماج کے نامیاتی ارتقا میں قائم نہیں ہوئے تھے بلکہ ریاست نے رعایا کو قابو میں رکھنے کے لئے ادارے قائم کئے تھے۔ ان ریاستی اداروں کو موثر بنانے کے لئے شہریوںپر دبدبہ قائم کرنا بہت ضروری تھا۔ ہمارے بزرگوں نے معاشی ترقی، سیاسی اختیار اور انسانی احترام کے نام پر آزادی کی لڑائی لڑی۔ آزادی کا ایک ہی نصب العین تھا کہ آزادی کے بعد تمام شہریوں کے حقوق اور رتبہ مساوی ہوں گے۔ ریاستی ادارے شہریوں کے خادم ہوں گے۔ اگست 1947 میں ہماری آزادی شہریوں کی ریاست پر حاکمیت کا اعلان تھی۔

ہندوستان کی تقسیم مقامی باشندوں میں آئینی سمجھوتے کی ناکامی کا نتیجہ تھی۔ ہندوستان میں اکثریتی مذہبی گروہ سب سے بڑی مذہبی اقلیت کو\"14302\" تحفظ کی یقین دہانی کرنے میں ناکام رہا۔ اس دوران بہت سے ایسے حالات و واقعات پیش آئے جو تقسیم کے مطالبے کا حصہ نہ تھے۔ مثلاً بنگال اور پنجاب تقسیم ہوئے۔ بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے۔ مذہب کی بنیاد پر تبادلہ آبادی پیش آیا۔ دونوں ریاستوں کی حد بندی اور نیم خودمختار ریاستوں کے الحاق پر تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو متحدہ ہندوستان کے مالی وسائل سے صرف 17 فیصد حصہ مل سکا تاہم پاکستان کے حصہ میں متحدہ ہندوستان کی فوج کا 33 فیصد حصہ آیا۔ برطانوی فوج کی روایات میں برتری اور اختیار کی نفسیات رکھنے والا یہ ادارہ پاکستان میں طاقتور بن کر ابھرا۔ ابتدا ہی میں ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ جنگ کی روایت قائم ہوگئی اور ایک اہم تبدیلی یہ کہ پاکستان نے سرد جنگ میں سرمایہ دار دنیا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ درویش کی رائے میں خالص زمینی حقائق کی بنیاد پر پاکستان کے لئے مغرب سے تعاون کا فیصلہ درست تھا۔ اڑچن یہ آ پڑی کہ پاکستان کی قیادت داخلی بندوبست میں ایسی حقیقت پسندی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ جمہوریت گریز رویوں کا سہارا لیا گیا۔ وفاق کے تقاضوں سے انحراف کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں آئین سازی تعطل کا شکار ہو گئی۔ جمہوری بندوبست کے خدوخال پر اختلافات نے ریاست کو اس قدر مضبوط کر دیا کہ شہریوں کے اختیار کا خواب دھندلا گیا۔ اس زمانے میں طالب نقوی، ہاشم رضا اور عزیز احمد کے جاہ و جلال پر نظر ڈالئے۔ چوہدری محمد علی اور غلام محمد کا عروج دیکھئے۔ اسکندر مرزا کی دستکاری پر نظر ڈالئے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے حاشیے میں لکھ رکھئے کہ پاکستان امریکہ بہادر کی نیشنل سکیورٹی سٹیٹ کے پھندے کا اسیر ہو گیا۔ اس نظریہ کے مطابق امریکہ بہادر کو نو آزاد ریاستوں میں عوام کے جمہوری اختیارات پر قومی افواج کی بالا دستی مقصود تھی۔ ایوب خان نے خود نوشت میں یہ تو لکھا کہ لیاقت علی خان نظر کمزور ہونے کے باعث کاغذ کو ایک خاص زاویے پر رکھ کر پڑھتے تھے، یہ نہیں بتایا کہ مفلوج گورنر جنرل غلام محمد کے دہن مبارک سے گالیاں کس زاوئیے سے برآمد ہوتی تھیں۔

تب سیاسی قیادت پر تین الزام لگائے گئے، نا اہلی، بدعنوانی اور مفاد پرستی۔ ساٹھ برس سے ہم صفائی دے رہے ہیں۔ ہمیں سبق سیکھنا چاہئے تھا۔ جنرل ایوب خان نے 98 سیاستدانوں پر بدعنوانی کے مقدمات چلانے کا اعلان کیا۔ 70 نے بغیر مقدمہ لڑے سزا قبول کر لی اور صرف چھ سیاستدان بری ہو سکے۔ ہم نے سیاست کی کیاری اجاڑ دی۔ ہمیں سبق سیکھنا چاہئے تھا۔ ہم نے مشرقی پاکستان کے ہم وطنوں کو رعایا سمجھ کر انہیں بندوق کے بل پر محکوم بنانے کی کوشش کی، ہمیں سبق سیکھنا چاہئے تھا۔ ہم نے ملک کے متفقہ آئین کو معطل کر کے گیارہ برس تک آمریت کا سکہ چلایا، ہماری سیاسی ثقافت افغان جہاد کی بھول بھلیوں میں کھو گئی، ہمیں لسانی اور فرقہ پرست تنظیموں کے تحفے ملے۔ غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والے ایسے سیاسی رہنما ملے جو کسی اجتماعی سیاسی نصب العین سے ماورا تھے۔ ہم نے دس برس میں چار منتخب حکومتوں کو ڈنڈے کے زور پر رخصت کیا، ہم نے جمہوری تسلسل کی طنابیں کاٹ ڈالیں، ہماری صحافت اور سیاست اسکرپٹ کی اسیر ہوگئی، ہمیں سبق سیکھنا چاہئے تھا۔ غیر ملکی جنگجو مذہب کے نام پر ہماری زمین پر آن بیٹھے۔ ہمارے ہزاروں شہری اور فوجی جوان شہید ہوئے۔ لاکھوں گھرانے بے گھر ہوئے، ہمارے شہر دھماکوں سے لرزتے رہے، ہمارے بچے قتل ہوتے رہے، ہمیں سبق سیکھنا چاہئے تھا۔ خبر ہے کہ گزشتہ پانچ برس میں اسٹاک ایکسچینج نے چار سو فیصد ترقی کی ہے۔ اس عرصے میں چین اور بھارت کی اسٹاک ایکسچینج نے بالترتیب صرف 16 فیصد اور 33 فیصد ترقی کی ہے۔ ماشا اللہ، بہت اچھے آثار ہیں۔ تاہم خیال رہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کا پیداواری عمل، مصنوعات اور برآمدات سے تعلق ضمنی ہوتا ہے۔ ایک نظر گلوبل انوویشن انڈیکس کی 2016 کی رپورٹ پر بھی ڈال لیجئے۔ یہ انڈیکس مختلف قوموں میں جدت کی صلاحیتوں کی درجہ بندی کرتا ہے اس برس پاکستان نے 128 ممالک میں سے 119 ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ پاکستانی شہریوں کو اپنی فوج پر فخر ہے۔ ہمیں نوشہرہ کے نوجوان افسروں کو صرف یہ یاد دلانا ہے کہ آپ کے لئے ابھی سیکھنے کے بہت سے نکات باقی ہیں۔ اہل وطن کو سبق سکھانا آپ کے شایان شان نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments