پاکستان میں جنسی تعلیم، مواقع اور ضرورت (2)


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنسیات سے آگاہی، بچے کو کب اور کیسے دی جائے؟ اگرچہ اس کے لیے کوئی نپا تُلا اصول تو کوئی نہیں مگر\"moqaddus جب بھی آپ اس موضوع پر بات شروع کریں تو انتہائی نیچرل انداز ہو، بلکہ ہو سکے تو اس سے پہلے کہ بچہ آپ سے اس موضوع پر بات کرے آپ اس پر سبقت لے جائیں۔

اکثر والدین کو یہ تجربہ تو ہوتا ہے جب ان کا بچہ، دوسرے بچے کی آمد کےطریقہ کار کے بارے پوچھ ہی لیتا ہے کہ ’’ امی امی میرا بھائی یا بہن کیسے پیدا ہوا؟ اب اسے اسکی عمر اور سمجھ کے اعتبار سے عموماً والدین بڑا اچھا جواب دیتےہیں مگر ظاہر ہے کہ بڑے بچوں کو آپ کا یہ جواب ہضم نہیں ہوگا ۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا ور میرا ایک کلاس فیلو، مجھ سے پوچھنے لگا کہ یہ حمل کیا ہوتا ہے؟ تو مجھے بھی اسکا اندازہ نہ تھا کہ میں نے کہا کہ ابو سے پوچھ کر بتاوں گا تو کہنے لگا ’’نہ نہ ابو سے نہ پوچھنا‘‘ ۔ میں نے پوچھا کیوں؟ کیونکہ میری امی حمل کا ذکر کررہی تھی اور میں پاس ہی بیٹھا تھا کہ میں ابو سے پوچھ بیٹھا کہ امی یہ حمل کیا ہوتا ہے؟ تو ابو نے پہلے تو مجھے ایک تھپڑ رسید کیا پھر امی کو بھی کھر ی کھری سنادی کہ کچھ تو خیال کرو کہ بچوں کے سامنے کیا کیا اول فول بکتی رہتی ہو۔ اب یہ لفظ میرے ذہن میں اٹک کر رہ گیا۔ کہ ابو سے نہ پوچھوں تو کس سےپوچھوں؟ امی سے تو پوچھنے سے رہا۔ اب بہرحال اس عمر میں بچوں کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں انکا انٹر نیٹ نالج ہم سے زیادہ ہے۔ اور یہ سہولت ہمارے دور میں ناپید تھی۔ تو اس سے پہلے کہ بچہ اس پر بات کرے جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ آپ اس میں پہل کریں۔ اگر بچہ چھوٹا ہے کہ اسے اردگرد کے ماحول سے مثالیں دے کر واضع کرسکتےہیں مثلاً اپنے رشتہ داروں کے متعلق، دادا، دادی، نانا، نانی، خالہ، پھوپھی، کزنز۔ کہ خاندان کیسے بنا؟ پھر لڑکے، لڑکی میں بیالوجیکل فرق۔ پھر یہ کہ بچے ٹی\"images\" وی میں بھی کئی چیزیں دیکھتے ہیں اور سوالات کرتے ہیں جیسا کہ وہ اشتہارات جن کا مخاطب، بالغ ہوتے ہیں جیسے ماہواری سے متعلقہ نیپکن، یا ’’ساتھی‘‘ کے اشتہارات وغیرہ ۔ اور بچہ اگر ان کی بابت پوچھ ہی لے تو حیرت یا غیرت سے اچھلنے کی ضرورت نہیں کہ یہ اس نے کیا کہہ دیا؟ اور نہ ہی آپ کے بچے کو یہ محسوس ہوگھر میں جنسیات پر بات کرنا ایسا عظیم گناہ یا کوئی خوفناک انکشاف ہے جس سے گھر میں ہلچل مچ سکتی ہے اور گھر کی فضا خراب ہوسکتی ہے۔ اور یہ بھی نہ ہوکہ آپ سے بچہ کوئی جنسیات کے متعلق سوال پوچھ لے تو آپ اسے بٹھا کر لمبے لمبے نصیحت آمیز لیکچر شروع کردیں ۔ اس صورت میں بھی بچہ کبھی بھی اپنے آپ کو ایزی یا پرسکون نہ کرسکے گا اور خصوصی طور پر بار بار بٹھا کر جنسیات پر لیکچر اسکے دماغ کو نہ صرف مزید بوجھل کردے گا بلکہ اسے آپ مزید تذبذب کا شکار بھی کردیں گے۔ لہذا اگر بچہ کوئی سوال اچانک بھی کرے تو اسے بڑے نارمل انداز میں ہی جواب دیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں ابھی نوبالغ تھا کہ مجھے محلے کی دکان پر یہ منکشف ہوا کہ اسکے پاس کچھ’’ ساتھی‘‘ کے نام سے غبارے ہیں تو میں نے دوکاندار سے کہا کہ مجھے یہ غبارے دے دے۔ تو وہ بولا نہیں نہیں یہ بیٹا آپ کے کسی کام کے نہیں ۔ مگر میرے اصرار پر وہ بولا کہ یہ دمے کے مریضوں کے لیے ہیں جن سے انکی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں ہوا بھرنے سے انکے منہ میں دوائی جاتی ہے جس سے اسکی اکھڑی سانس بحال ہوجاتی ہے ۔ اور بچہ ہونے کے ناطے ہم نے اس دوکاندار کی بات پرپورا یقین کرلیا اور پھر جب ہمارے ہاں ایک مہمان آیا جو دمے کا مریض بھی تھا تو اسکی بیماری کا جان کر اسے بھی معصومیت سے پوچھ لیا کہ آپ ’’ساتھی‘‘استعمال کرتےہیں ؟ اپنی سانس ٹھیک کرنے کے لیے۔ ۔ ۔ اور وہ ہونق نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ \"image\"اور اگر کہیں تو آپ کو وہ دمےکی بیماری والا غبارہ لا دوں؟والد صاحب بھی حیرت سے یہ سن رہے تھے کہ بس پھر کیا ہوا وہ یہاں بتانا ضروری نہیں ہے۔ مگر یہاں میراکہنے کا مقصد ہے کہ اس عمر میں چونکہ بچے ہر چیز کو تجسس سے دیکھتے ہیں اور مسلسل سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں لہذا انکو اس طرح بتایا جائے کہ وہ اپنا نیا نیا علم و تجربہ کہیں غلط ملط ہی نہ کر بیٹھیں۔

پھر جوں جوں بچہ بڑا ہو تا ہے اسکے اندر جسمانی و نفسیاتی تبدیلیا ں بھی قدرتی ہیں، مگر ہمارے معاشرے میں لڑکا جوان ہورہا ہو تو ابا اماں، خوشی سے پھولے نہیں سماتے، بلکہ اگر کوئی محلے سے ایسی شکایت آئے جس کا تعلق لڑکے کی مردانگی سے ہو تو ماں باپ فکر مند ہونےکی بجائے خوش ہی ہوتے ہیں کہ آخر لڑکا جوان ہورہا ہے جبکہ لڑکی کے بارے کوئی ایسی شکایت سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے بلکہ اس معاملے میں اسے زندہ جلانے کی یا دفنانے کی ہی بات کرتے ہیں لہذا اس عمر میں بچہ اگر جنسیات کے بارے سوال کرے تو اسے یہ سمجھانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ یہ ہماری خاندانی زندگی کا حصہ ہے اور ہمارے دادا، دادی، نانا، نانی، خالہ پھوپھی، ماموں، چچا وغیرہ سب اسی وجہ سے اس دنیا میں آئے۔ لہذا جنسیات کوئی خوفناک یا حرام عمل نہیں ہے کہ اس پر سرے سے بات ہی نہیں ہو سکتی۔ اور جیسے ہی آپ محسوس کریں کہ آپ کا بچے میں بلوغت کےآثار نمایاں ہورہے ہیں تو اسے ان تبدیلیوں کے بارے آگاہی دینے میں بخل سےکام مت لیجیے۔ اگر آپ نے اپنے بچے یا بچی کو اس بارے میں بتانے میں ججھک محسوس کی تو پھر یہ آپ کے بچے یا بچی کو لڑھتا پتھر بنا کررکھ دے گی۔ جہاں بچی\"images\" پر تو ہر کوئی توجہ دے رہا ہوتا ہے۔ وہاں بچے کو بھی کسی بھی صورت نظر انداز مت کیجیےجو اپنے والد کی خصوصاً اصل توجہ کا طالب ہوتا ہےمگر والد اس سے اس انداز میں بات کرنا جیسے اسے پسند ہی نہیں کرتا۔ ہاں اس بات کا دھیان رہے کہ اور یہ ماہرین کی بھی یہ متفقہ رائے ہے کہ آپ کی، جنسیات کے متعلق وضاحت سیدھے سادھے الفاظ اور ایماندارانہ طریقے سے ہو۔ کیونکہ آپ نے اگر اپنے بچے کو واضع نہ بتایا تو یاد رکھیں پاکستان میں جنسی مریضوں اور شکاریوں کی کمی نہیں، وہ آپکی اس عاقبت نااندیشی کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اور آپ کا بچہ، جنسی زیادتی کا آسانی سے شکار تک ہوسکتا ہے۔

رہا سوال دیہات کا تو وہاں جنسیات کے متعلق آگاہی، بچے اپنے ارد گرد سے بچپن سے ہی سیکھنا شروع کردیتے ہیں، مثلاً ان کے پالتوجانور جیسے مرغیاں مرغے، بکریاں، گدھے، کتے یا دیگر مویشی جو انہوں نے گھر میں پال رکھے ہوتے ہیں وہ پالتو جانور، ظاہر ہے کہ جنسی اختلاط کہیں چھپ کر تو کرتے نہیں لہذا بچے اس عمل کو اتنی بار دیکھتے ہیں کہ اسے معمول کا فعل ہی سمجھتےہیں ۔ بعض جانوروں کے اس عمل کو تو دیہات میں باقاعدہ مجمعے کی صورت میں بھی دیکھا اور انجوائے کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح اپنی قیمتی بھینس، یا گائے یا اچھی نسل کی بکری کو ’’نواں‘‘ یا نیا کروانےکا کام بھی زیادہ تر بڑے بیٹے کے ذمے ہوتا ہے۔ مگرپھر جنسی گھٹن یا اس فعل کو انتہائی قبیح سمجھنے کی وجہ سے اکثر دیہی علاقوں کے بچے ہی کیا کئی بالغ بھی یہی عمل انہی جانوروں سے دہراتے بھی پکڑے جاتے ہیں ۔ جو ان کئے لیے بظاہر ایک آسان پہنچ والا ٹارگٹ ہوتا ہے۔ اتنی جنسی آگاہی کے باوجود چونکہ بچے یہ فعل والدین کی بجائے جانوروں سے سیکھ رہے ہوتےہیں لہذا دیہی علاقوں میں بھی بچوں سے پہلے والدین کوجنسی تعلیم کو ضرورت ہے اور یہ کام جیسا کہ محکمہ بہبود آبادی ایسے ہی سرانجام دے سکتا ہے جیسے، آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیےاس کی خدمات نمایاں ہیں ۔ لہذا تھوڑی سی  Capaciy Buildingکے ساتھ یہی عملہ والدین کو جنسی تعلیم دے سکتا ہے کہ پھر وہی والدین احسن طریقے سے اس تعلیم کو بچوں میں منتقل کرسکیں۔ اس سلسلے میں جہاں ضرورت ہو وہاں مذہبی راہنماوں کی مدد بھی پہلے کی طرح لی جاسکتی ہے تاکہ اس تعلیم کا پولیو کے قطروں والا انجام نہ ہو۔ چونکہ اس مضمون میں ہمارا موضوع بچے ہیں جن کی مجموعی \"fotolia_77675178_subscription_monthly_m\"نشوونما، ہمارے معاشرے میں اچھائی برائی، گناہ، ثواب، انعام و سزا سے مشروط کی جاتی ہے نہ کہ اچھائی برائی کے کے علل و اسباب پر کہ بجائے حقائق کو سختی سے دبانے کے بچے کے شعور، اعتماد اور سوچ کا ہی گلہ دبا دیا جائے کہ وہ گھر میں ایک تابعدار ربوٹ ہی بن کر رہ جائے۔ لہذا اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جاسکتا ہے۔ جسے ایک دفعہ پھر دہرایا جا رہا ہے

1- اپنے بچے کو اس کے جسم کے بارے میں متفکر نہ کریں بلکہ اسے نارمل انداز میں بڑھوتری کے عمل سےگزرنے دیں۔ اور جہاں تک ہ وسکے اسے، اسکے جنسی اعضاء کے متعلق انکی عمر کے لحاظ سے آگاہی دیں۔ اور اگر بچہ کسی یورپی اسکول میںپڑھتا ہےتو اسے تو وہاں جنسی اعضاء کےنام بھی بتا دیئے جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں، بچوں کے جنسی اعضاء کی ہر خاندان نے اپنی اصطلاح رکھی ہوتی ہے یا پھر کوئی مخصوص نام۔ بلکہ مائیں تو اپنے دودھ پیتے بیٹے کے جنسی اعضاء کے ساتھ نہ صرف بڑے فخر سے کھیلتی ہے بلکہ اسے اپنے عظیم خاندان کی عظیم وراثت کی ترسیل کا ذریعہ بھی سمجھتی ہے ۔ اور گھر سے لے کر گلی کوچوں میں ہم جو ایک دوسرے کو بار بار صلواتیں سنا کر جو ان جنسی اعضاء کی ترویج و اشاعت کررہےہوتے ہیں اس سے بچوں کو ان اعضاء کا جاننا کوئی مشکل کام نہیں رہتا۔ حتیٰ کہ بعض والدین جب اپنی سنائی ہوئی گالیوں کو اپنے بچے کی زبان سے سنتے ہیں تو پھولے نہیں سماتے۔ بلکہ اسکا مظاہرہ وہ اپنے دوستوں کے سامنے بھی کروا کر خوش ہوتےہیں ۔ اس لیے ہم کتنے ہی مہذب ہونے کا ڈھونگ رچالیں ہم ان اعضاء کوکسی نہ کسی ڈھکے چھپے انداز میں بیان کرتے رہتے ہیں ۔ کہ مجھےخود کافی عرصے بعد پتہ چلا کہ نفس سے اصل مراد کیا ہے؟

\"meaningoflife-sexeducation\"2-جب بھی بچہ آپ سے کوئی سوال کرے تو اس سے پہلو تہی مت کیجیے گا۔ حتیٰ کہ چہرے پر خجالت کے آثار بھی مت لائیں بلکہ اگر آجائیں تو تو فوراً ان آثار کو دور کرکے، بچے کو جتنا ممکن ہوسکے سیدھے سادھے اچھے الفاظ میں، سہل انداز میں جواب دیجیے۔ جیسے یہ کوئی انہونا، گندہ یا شرارت بھرا سوال نہیں بلکہ کوئی عام بات پوچھی گئی ہے۔ اسی طرح بچوں کی اپنے اندر ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں تجسس پر مزید حیرت کا اظہار کرنے کی بجائے اسے احساس دلوائیے کہ یہ تبدیلیاں کوئی انہونی یا عجیب و غریب نہیں بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ ایسا بالکل نارمل ہے جس سے ہر انسان گزرتا ہے۔ اکثر بچے ہمارے شہروں کی دیواروں پر لکھے ہوئے مردانہ کمزوری، ٹی وی پر آنے والے ’’ساتھی ‘‘ جیسے اشتہاروں کے بارے میں بھی سوالات کریں تو انہیں آپ بتا سکتے ہیں کہ کس طرح نام نہاد حکیم، کمزور ایمان والوں کو لوٹتے کے لیے یہ اشتہار لگاتے ہیں اور ’’ ساتھی ‘‘ کے بارے میں کافی کچھ اوپر بیان کرہی چکا ہوں، اور آپس کی بات ہے کہ جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور میں نے ایک اشتہار لاہور کی سڑکو ں پر دیکھا جس کی بڑی سرخی تھی’’مردے زندہ ہوگئے‘‘ جب میں نے اس اشتہار کو بغور پڑھنا شروع کیا تو اوپر

چھوٹے حروف میں لکھا تھا ــ

مردانہ کمزوری کے مارے ہوئے

مردے زندہ ہوگئے

اور اس کے بعد وہ کچھ لکھا تھا کہ میرے جیسا بظاہر صحت مند انسان بھی سوچنے لگا کہ پتہ نہیں میں کل تک ان جنسی امراض و حرکات کی \"hqdefault\"وجہ سے بچوں یا نہ بچوں۔ یہ تو میرے ایک ڈاکٹر دوست نے مجھے دلاسہ دے کر روکا ورنہ میں تو اس شتہار کے ایڈریس کی طرف کھچا چلا جارہا تھا تاکہ دوبارہ سے زندہ ہوسکوں۔ تو اس سے اندازہ لگا لیں کہ بچے اس قسم کے اشتہارات، اور گلی کوچوں میں رہنے والے نیم حکیم و نیم ناصح کس طرح بچوں کو گناہوں سے بچنے کی تلقین کرکے ان کے اندر کتنا احساس گناہ، بارود کی طرح بھر رہے ہیں، اور تو اور ان مسائل کے حل کے لیے اگر کوئی بچہ محلے کے مولوی صاحب کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر اسکی آخرت تو ٹھیک ہو نہ ہو دنیا میں وہ چن چاڑھ کر ہی رہتا ہے۔ لہذا اس سے پہلے کہ آپکا بچہ کسی کے ھاتھوں تجربہ گاہ بنے اسے اپنے پیار، دوستی، محبت سے جتنا ہوسکے اچھے انداز میں بتا دیجئے کہ جنسی تبدیلیاں بھی ایک نارمل انسان کی زندگی کا حصہ ہے۔ لہذا کسی قسم کی شرمندگی یا احساس گناہ کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ۔

3- اگر آپ کو اپنے بچے کو جنسی تعلیم دینے میں دقت ہورہی ہے تو لائبریری جائیں کوئی اچھی سی کتاب جو نوجوانوں کے جنسی مسائل پر مبنی ہو اسے سامنے رکھ لیں یا کسی فقہہ کی کتاب اگر آپ کو اس پر دسترس ہے تو اسے سامنے رکھ کر بچے کو سمجھا سکتے ہیں، کتاب سامنے ہوتو یہ آپ پر کافی حد تک تناو یا دبائو کم کرسکتی ہے۔

4- اور یاد رکھیں کہ بچے کو جنسی آگاہی ایک ہی نشت میں لمبے اور تھکا دینے والے لیکچر میں دینے کی کوشش نہ کیجیے گا۔ اس کا قطعاً اثر نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس اس مکالمہ کو بتدریج، چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں، ھلکے پھلکے انداز میں لے کر آگے بڑھیے گا۔\"ee8f975e13a6bb00e0874a95b361bf64\"

5-اس بات کا خیال رہے کہ بچے سے صرف جنسی تبدیلوں اور افعال پر ہی بات مت کیجیے گا بلکہ اسے، اس کے اخلاقی پہلوئوں، معاشرتی اقدار کے تناظر میں بتانا مت بھولیے گا۔ بچے کو غیرت، عزت، باہمی رشتےاور انکی آپسی محبت پر بھی روشنی لازمی ڈالیے گا۔ اپنے بچوں کو ماں باپ کی باہمی محبت، رشتہ داروں اور بزرگوں کی عزت میں کتنا رتبہ، سکون اور ثواب ہے، کے متعلق بھی وقتاً فوقتاً بتاتے رہئے۔ اور یقیناً جب بچہ دوسرے ہم جولیوں میں، جنسیات سے متعلقہ کوئی کمی یا زیادتی دیکھے گا تو یقیناً آپ سے رجوع کرے گا جو کہ ایک اچھا شگون ہے۔ بات وہی ہے کہ جتنا اس موضوع کو آپ آسان فہم اور پرسکون طریقے سے بچوں کو سمجھائیں گے بچہ اتنا ہی اچھا اثر لے گا ۔ ہاں اس بات کو مت بھولیے گا کہ اگر آپ کا لیکچر آپ کے فعل سے متصادم ہے تو یقین کریں، بچہ پھر دوائی باہر سے ہی لے گا۔ اسی طرح اگر آپ بچے کو ما ں باپ، بزرگوں کی محبت کے بارے میں درس دیں اور خود موقع بہ موقع اپنی بیگم کی توہین کر دیں یا اپنے والدین کے آگے بات بات پر ان کی تضحیک کریں گے تو یقیناً آپ بچے کی نشوونما میں وہ بیج بو رہے ہیں جسکا خمیازہ آپ کو جلد یا بدیر بھگتنا ہوگا۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بچے کے سامنے کسی کو بھی جنس کی تخصیص کی بنا پر تضحیک کا نشانہ مت بنائیں کہ وہ پھر بعض مخصوس جنس کے لوگ جیسے خواجہ سرائوں کے بارے میں ہمیشہ غیر سنجیدہ رویہ رکھے گا۔ جیسا کہ ہم نے چند ماہ پہلے پشاور میں اس خواجہ سرا کا حال دیکھا جس کو کسی نے پہلے گولیاں ماریں اور جب اسکے ساتھی اسے ہسپتال لے کر آئے تو وہاں بھی اس کا علاج ہونے کی بجائے، وہ ڈاکٹروں، مریضوں کے غیر سنجیدہ رویوں کی بھینٹ چڑھ کرآخر کار اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا ۔ یہ دراصل ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو ہے کہ ہم مرد، عورت کی بھی جنسی لحاظ سے درجہ بندی کرتےہیں\"1465017073544\" اور خواجہ سرا توکسی انسانی کھاتے میں ہی نہیں آتے کہ وہ بھی یورپ کی طرح برابری کی بنیاد پر پڑھ لکھ کر معاشرے کا ایک اچھا شہری بن سکیں۔ اگرچہ مغرب میں تو ہم جنس پرستوں پر بھی آپ انگلی نہیں اٹھا سکتے مگر پاکستان میں ہم کم از کم کسی خواجہ سرا کو تو برابری کا درجہدے سکتے ہیں کیونکہ یہ جنسی نقص اس کا اپنا پیدا کردہ نہیں ہے۔

جنسی تعلیم یورپ میں تو پرائمری سطح پر بچوں کی عمر کے لحاظ سے سمجھ اور سوچ کے مطابق رائج ہے۔ جہاں پانچ سے سات سال کی عمر میں بچوں کو انسانی ساخت اور مرد و عورت میں نمایاں فرق بتا یا جاتا ہے۔ پھر سات سے گیارہ سال کی عمر میں بچوں کو نظام تولید کے بارے ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے۔ مزید برآں کچھ مذہبی اسکول جنسی تعلیم، اپنی دینی و قومی نصاب تعلیم کی روشنی میں کافی گہرائی تک پڑھاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یورپ میں بچوں کی صحت مند تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ والدین گھر میں یا حتیٰ کہ گاڑی کے اندر بھی بچے کے سامنے سیگریٹ نہیں پی سکتے، بچے کو شراب خانے یا نائٹ کلب نہیں لےجا سکتے۔ کہ بچے کی اخلاقیات پر برا اثر نہ پڑے۔ اسی طرح بعض سکول بچوں کو انفرادی، معاشرتی اور صحت عامہ کے تناظر میں بھی جسمانی و جنسی تبدیلیوں اور اس سے متعلقہ تعلقات کے اچھے برے اثرات سے بھی آگاہی دیتے ہیں ۔ تو کیا ہم بھی اپنے معاشرتی اقداریا روایات کے \"519hrve8jol-324x160\"مطابق کوئی ایسا نصاب ترتیب نہیں دے سکتے؟ کہ ہم بچوں کو جنس پر بات کرنے پر یا بھولے سے ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بجائے اسے گناہوں کی پوٹلی قرار دیے کر معتوب کرنے کی کوشش کریں کہ وہ پھر نارمل زندگی نہ گزار سکے۔ ورنہ، جتنا ہم اس جنسی تعلیم سےسہواً یا کرہاً، مجرمانہ پہلو تہی کریں گے تو پھر اتنا ہی ہم سب سے زیادہ پورنوگرافی دیکھنے کا نہ صرف ریکارڈ قائم کریں گے بلکہ عملی طور پر بھی معاشرے میں زہنی جنسی بیمار پیدا کرتے رہیں گے۔ اور ہماری غیرت صرف ہمارے گھر تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی۔ اور جہاں تک ہم جنسی لطیفے، جنسی مذاق، اور بھاری بھرکم گالیوں میں اخلاق وکردار کو برھنہ کررہے ہیں یہ کام ہم مناسب وقت میں جنسی تعلیم دے کر اس کی شدت میں کمی لاسکتےہیں ۔

(ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments