ایک صالح صحافی کی نہایت قابل اشاعت خبر


\"iffat-hassan\"اسلام آباد (نمائندہ ترنگ): یہ بعد از صبح کا وقت تھا مجھے دفتر جانا تھا، میں مدظلہ اپنی آہنی کار کی آہنی کنجی لے کر جانب در لپکا، کہ یکایک کیا دیکھتا ہوں کہ میرے جدید ترین مہنگے ترین اور حسین ترین موبائل فون پر کشمیر کے ملکوتی حسن کی مالکہ محترمہ مریم نواز شریف کی مس کال آئی، مجھ پر کیفیت طاری ہوگئی، عالم غشی میں کیا دیکھا کہ صاحبزادی مریم کے مرحوم و مغفور چچا عباس شریف تشریف لائے ہیں کہتے ہیں پیارے صحافی، کتنی دیر سے قائد موٹر ویز آںجناب نواز شریف صاحب کی دختر نیک اختر محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ آپ کو یاد فرما رہی ہیں، ایوان وزیراعظم کی جانب قدم بڑھایئے۔

میں فوری طور پر اپنی آہنی کار میں تشریف فرما ہوا، تو ایک مست ہوائے بے قرار بھی میرے ساتھ چلی، باد صبا کہنے لگی ہم بھی محترم نواز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں پر فدا ہیں، اے صحافی اے ایوان وزیراعظم کے مسافر ہمیں بھی ساتھ لے چل۔۔۔۔۔

میرا اور باد صبا کا یہ کاروان جانب شاہراہ جمہوریت گامزن ہوا تو ہمیں دختر جمہوریت عالی دماغ آنسہ مریم نواز شریف کی جانب جاتا دیکھ کر بلبل نیم جان ہوگئیں، ریڈ زون کا رنگ اور بھی سرخ ہوگیا، اور ایوان وزیراعظم کے مینارے ہمیں بانہیں پھیلائے خوش آمدید کہنے کو بے چین و بے قرار ہوگئے۔

ہماری آہنی کار ہمراہ باد صبا اک شان کروفر کے ساتھ داخل ایوان ہوئی، چشم نم کیا دیکھتی ہے کہ خود، یعنی کہ بالکل خود نور مجسم، پری پیکر مریم نواز شریف ہمارے استقبال کے لیے اپنے سنگ مر مر جیسے پاؤں جوتوں کے سہارے زمین پر رکھ کر کھڑی ہیں۔ ہم نے دوڑ کر ان کے قدموں کے نیچے اپنے ہاتھ رکھ دیئے، مبادا کہیں جوتا میلا نہ ہوجائے۔

ایوان وزیراعظم میں جہاں جہاں سے زرد قمیض شلوار میں ملبوس یہ آنسہ گزرتی جاتیں، وہی راہ گزر مہکتی جاتی، ایک دیوان خاص میں ن لیگ کی کئی دیگر خواتین وزراء پہلے سے فروکش تھیں، اللہ اللہ چشم عاجز نے یہ منظر بھی دیکھا کہ محترمہ مریم ان ہیچ اور نیچ خواتین کے بیچ تشریف فرما ہوگئیں۔

ہر طرف سے سلامی کی صدائیں بلند ہوئیں، تمام خواتین نے محترمہ کو اپنے جلو میں لے لیا کہ خدا نخواستہ باد صبا جو ہمارے ساتھ ہی ایوان وزیراعظم گئی تھی اس کی نظر بد محترمہ کو نہ لگ جائے۔ ایسے میں محترمہ مریم نے فرمایا \”صحافی صاحب، ابا جان محترم نواز شریف سلطنت عالیہ کی ہر شئے کو عزیز رکھتے ہیں، ہمیں بھی اس باد صبا سے پیار ہے\” یہ جملہ سننا تھا کہ کل ایوان اس سادگی پر مر مٹا، وزیر صحت کو غش پہ غش آنے لگے، وزیر خوارک کو استفراغ ہوا۔ خود ہم نم آنکھوں سے سادگی اور پُرکاری کے اس نظارے سے محظوظ ہو رہے تھے کہ ایک دجال، کمینہ فطرت، عیار خاص جو خود کو کپتان کہتا تھا دیوان میں داخل ہوا، محترمہ نے بجلی کی سی سرعت سے کھڑے ہو کر کہا \”گستاخ تیری یہ مجال \” سلسلہ شریفیہ کی اس بہادر جانباز بیٹی نے فوراً اپنے موبائل پر ٹویٹر کھولا، اور اپنی نازک انگلیوں سے ٹویٹ کردیا، کپتان لڑکھڑا گیا، اس دختر عظیم نے ٹویٹوں کی مار سے کپتان کو ایسا پچھاڑا کہ وہ بد ظن، بد طینت بد معاش محترمہ کے بدلے کو تاعمر نہیں بھولے گا۔

نوٹ: یہ وہ قابل اشاعت ٹیمپلیٹ خبر ہے جسے آنے والے دنوں میں صحافت کے طالبعلموں کو پڑھایا جائے گا کہ اچھا درباری بننے کے لیے خبر کے کیا پیرامیٹرز ہوں گے۔ صحافی کتنا نیچے جائے گا جو اسے بلندی نصیب ہوگی، نیز یہ کہ کب خبر میں غیر مرئی قوتوں سے متعلق مواد شامل کرنا ہے اور کب انسانوں کو سپرمین یا سپر وومن بنانا ہے اس حوالے سے بھی رہنمائی ملے گی۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments