امرتسر سے کابل: دوستی کا سفر کیسے طے ہو


\"edit\"امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر افغانستان اور بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشی کے بعد پاکستان میں یہ بحث کی جا رہی ہے کہ افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کےلئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ضرورت سے زیادہ مفاہمانہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ملک اسے پاکستان کی کمزوری سمجھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے سابقہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ایک انٹرویو میں تو یہ بھی کہا ہے کہ 2014 میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کو قریب آنے کا نادر موقع دیا تھا۔ لیکن پاکستان اس سے استفادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی یہ مان گئے تھے کہ وہ بھارت سے اسلحہ نہیں خریدیں گے اور افغان کیڈٹس کو تربیت کےلئے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں بھیجا جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ تجارتی مقاصد کےلئے راہداری محصول کم کرنے پر بھی آمادہ ہو گئے تھے۔ حنا ربانی کھر کا خیال ہے کہ پاکستان ان مراعات سے فائدہ اٹھا کر افغانستان کو بھارت سے دور کر سکتا تھا لیکن وہ مشکل حالات میں اشرف غنی کی طرف سے دوستانہ طرزعمل کا مناسب جواب دینے میں ناکام رہا۔ اسی لئے افغان صدر نے بھارت کی طرف رجوع کر لیا تھا۔ اب پاکستان کو مشرق اور مغرب دونوں طرف سے جارحانہ رویہ رکھنے والے ہمسایہ ملکوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے یہ بات تو تسلیم کی جا سکتی ہے کہ یہ بظاہر کسی منظم حکمت عملی کے تحت استوار نہیں کی گئی اور حکومت ذاتی تعلقات کی بنیاد پر دنیا کے لیڈروں سے تعلقات قائم کرنے کو درست طریقہ سمجھتی ہے۔

اسی لئے امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ خوشگوار ٹیلی فون گفتگو کے بعد وزیراعظم نے اپنے معاون خصوصی طارق \"nawaz-modi\"فاطمی کو فوری طور پر واشنگٹن روانہ کر دیا تاکہ وہ ٹرمپ کے مشیروں اور ٹیم کے ارکان سے مل کر ٹرمپ دور صدارت میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو نئی بنیاد فراہم کرنے کی بات کر سکیں۔ تاہم طارق فاطمی ایک ہفتہ سے واشنگٹن میں موجود ہیں اور ابھی تک وہ ٹرمپ ٹیم کے ساتھ ملاقات میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وزیراعظم ہاؤس نے اسی قسم کی عجلت اور خوش فہمی کا اظہار نواز۔ ٹرمپ گفتگو کا متن جاری کرتے ہوئے بھی کیا تھا۔ اس رویہ پر امریکی میڈیا ، سفارتی امور کے ماہرین، حتیٰ کہ وائٹ ہاؤس نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ دو لیڈروں کے درمیان ٹیلی فون گفتگو کا مکمل متن جاری کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ لیکن پاکستان اس کوتاہی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے درست فیصلہ قرار دیتا ہے۔ طارق فاطمی نے واشنگٹن میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ متن ٹرمپ ٹیم کی منظوری سے جاری کیا گیا تھا۔ حالانکہ نواز۔ ٹرمپ گفتگو کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ٹرمپ ٹیم نے جو بیان جاری کیا تھا، اس میں وہ گرمجوشی اور توصیفی شان و شوکت موجود نہیں تھی جو پاکستانی متن میں سامنے آئی تھی۔

نواز شریف نے یہی رویہ بھارت میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی اختیار کیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کے باوجود وہ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے لیکن اس ملاقات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اسی طرح گزشتہ برس دسمبر میں وزیراعظم نے نریندر مودی کو اچانک پاکستان وارد ہونے اور اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کی اجازت دی۔ اس موقع پر بھی مذاکرات بحال کرنے کا وعدہ کیا گیا اور چند ہی دنوں بعد پٹھان کوٹ میں بھارتی ائر بیس پر حملہ کے بعد بھارت نے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔ نواز شریف ترکی کے صدر اردگان ، سعودی عرب کے شاہی خاندان ، خلیجی ممالک کے سربراہان حتیٰ کہ چین کے ساتھ بھی اسی نوعیت کے تعلقات کے ذریعے خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔\"taliban\"

دو ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان خوشگوار تعلقات بعض اوقات ملکوں کے مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس قسم کے رابطوں کو خارجہ پالیسی کے تسلسل کے طور پر اختیار کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ خاص طور سے جب تعلقات میں مشکلات حائل ہوں اور باہمی معاملات میں کئی حل طلب امور دہائیوں سے تعطل کا شکار رہے ہوں تو ذاتی تعلقات برف پگھلانے کا کام نہیں کرسکتے۔ اس کے لئے ٹھوس حکمت عملی اور واضح تجاویز سامنے لانا ضروری ہوتا ہے۔ نریندرمودی کے معاملہ میں نواز شریف کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسی طرح امریکہ کے نومنتخب صدر کے حوالے سے موجودہ خوش فہمی بعد میں مایوسی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ٹیلی فون پر ڈونلڈ ٹرمپ سے نواز شریف کی ایک گفتگو کے بعد پاکستانی حکومت کے نمائندے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ نئے امریکی صدر کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں تازگی پیدا ہوگی اور پاک امریکہ دوستی کا احیا ہو سکے گا۔ حالانکہ امریکہ ہو یا بھارت یا افغانستان، بنیادی مسائل کو حل کئے بغیر اور ان کے حل کےلئے اتفاق رائے پیدا کئے بنا تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی کی توقع کرنا غیر ضروری خواہش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

اس حوالے سے خارجہ اور سکیورٹی معاملات میں فوج کی مداخلت اور مخصوص مقاصد کی تکمیل کےلئے طویل فہرست پر اصرار کی وجہ سے بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی غیر یقینی صورت حال کا شکار رہتی ہے۔ امریکہ ، بھارت اور افغانستان کے حوالے سے فوج اپنے نقطہ نظر پر اصرار کرتی ہے اور سول حکومت کوشش کے باوجود فوجی قیادت کی مقررہ حدود سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ اس لئے اسلام آباد کے دیگر دارالحکومتوں سے مراسم اور مواصلت کے حوالے سے یہ نکتہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی \"PIctureمختلف امور پر کھلے دل سے بات کرتے ہوئے ایک جامع پالیسی مرتب کریں۔ پھر وزیراعظم کی قیادت میں اس پر عملدرآمد کےلئے اقدامات کئے جائیں۔ فوج میں قیادت کی تبدیلی اور گزشتہ تین برس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو پیش آنے والی مشکلات کی روشنی میں وزیراعظم کو ہمسایہ ملکوں اور امریکہ سمیت اہم ملکوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرتے ہوئے مسائل کا ادراک کرنے، ان کے ممکنہ حل کےلئے آپشنز تیار کرنے اور اپنی حدود و قیود کا تعین کرتے ہوئے ایک جامع پالیسی اختیار کرنا پڑے گی۔ اس مقصد کےلئے ہر ملک کے ساتھ تعلقات کے تاریخی تناظر میں حالات کا جائزہ لینے اور پالیسی بنانے کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بھارت کے حوالے سے پاکستانی حکمت عملی کا اسیر نہ کیا جائے یا ایران کے ساتھ مراسم کو سعودی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔

اس پس منظر میں نواز شریف حکومت کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی فہرست تیار کرنا مشکل نہیں ہے لیکن ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی ساری ذمہ داری پاکستانی حکومت کی غلط پالیسیوں کو قرار دینا بھی درست نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ دو سال قبل اشرف غنی نے افغانستان کا صدر بننے کے بعد پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کا عندیہ دیا۔ یہ طرز عمل ان کے پیشرو حامد کرزئی کے مقابلے میں مختلف تھا۔ لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اشرف غنی کی کامیابی کےلئے پاکستان نے بھی کردار ادا کیا تھا۔ اشرف غنی کو صدارتی انتخاب میں کامیاب ہونے کے باوجود صدر بننے کےلئے امریکہ کے تعاون سے شمالی اتحاد کے نمائندے عبداللہ عبداللہ کے ساتھ مفاہمت کرنا پڑی تھی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان دشمن عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ کابل کی سرکاری مشینری حتیٰ کہ اس کا انٹیلی جنس ادارہ بھی عبداللہ عبداللہ کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے جب پاکستان کے تعاون سے گزشتہ برس جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مری میں مذاکرات کا پہلا دور منعقد ہوا تو اسی کے ساتھ ہی ملا عمر کی موت کی خبر عام کر دی گئی۔ یہ خبر سامنے لانے میں افغان انٹیلی جنس ادارے این ڈی ایس کا ہاتھ تھا۔ اس طرح صدر اشرف غنی کی خواہش پوری کرنے کےلئے پاکستان نے مذاکرات کی جو کوشش کی تھی، اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ اشرف غنی کمزور لیڈر ہیں جن کا اپنے ملک کے معاملات پر کنٹرول نہیں ہے۔ اسی لئے نہ تو وہ پاکستان کے ساتھ کئے ہوئے وعدے پورے کرسکے اور نہ ہی ان عناصر کی سرزنش کرسکے جنہوں نے افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ختم کروانے میں کردار ادا کیا تھا۔

اس دوران بھارت نے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے اشرف غنی کو اپنے حصار میں لے لیا اور وہ جلد ہی نریندر مودی کی زبان بولنے لگے۔

\"Pakistani

بھارتی وزیراعظم کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کئی تقریروں میں یہ اشارے دیتے رہے تھے کہ بھارت افغانستان اور اس کی سرزمین کو اپنے مقاصد پورے کرنے کےلئے پاکستان سے زیادہ وسائل صرف کر سکتا ہے۔ مودی حکومت نے اپنے مالی وسائل استعمال کرتے ہوئے افغانستان کو پاکستان کے خلاف زبان درازی پر تیار کیا ہے۔ اس کا مظاہرہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران بھی دیکھنے میں آیا۔ یہ کانفرنس افغانستان کی مدد کےلئے منعقد کی جاتی ہے لیکن امرتسر میں اشرف غنی نے اپنے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھنے کی بجائے نریندر مودی کی حکومت کو خوش کرنے کےلئے بھارت سے بھی بڑھ کر پاکستان پر نکتہ چینی کی۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ پاکستان اشرف غنی کی طرف سے دوستی کےلئے بڑھائے ہوئے ہاتھ کا جواب نہیں دے سکا۔ دراصل اشرف غنی اپنی حکمت عملی پر عمل کرنے اور پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ سیاسی نعرے بازی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔

امریکہ کی طرح افغانستان بھی پاکستان پر افغان طالبان کی حمایت کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے حقانی نیٹ ورک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جب تک لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں، اس وقت تک پاکستان کی کسی بھی حکومت کےلئے مکمل طور سے یہ کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے کہ پاکستان سے شدت پسند عناصر افغانستان نہ جائیں۔ خاص طور سے اس صورت میں کہ افغانستان سرحدی کنٹرول کے لئے پاکستان کے اقدامات کی مزاحمت کرتا رہتا ہے۔ یہ دونوں کام پورے کئے بغیر افغانستان کے ساتھ کراس بارڈر دہشت گردی کا مکمل تدارک ممکن نہیں ہے۔ اسی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے گروہ افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور پاکستان میں حملوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ لیکن افغان فورسز یا امریکی اتحاد ان کا قلع قمع کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ افغانستان کا نصف رقبہ طالبان کے زیر کنٹرول ہے۔ ایساف کی اتحادی افواج پندرہ برس کی جنگ کے دوران طالبان کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس لئے طالبان کی کامیابیوں کا سارا الزام پاکستان پر عائد کرنا حقائق سے انحراف کے مترادف ہے۔\"abdul-rashid-dostum\"

دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں امریکہ چین اور روس کے خلاف عسکری اور تجارتی محاذ آرائی کےلئے بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے۔ اس صورتحال میں چین کے بعد اب روس بھی طالبان کے ساتھ روابط قائم کر رہا ہے۔ یہ دونوں ملک اور وسطی ایشیا کے اکثر ملک طالبان کو سیاسی حقیقت کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ افغان حکومت چونکہ طالبان سے مذاکرات کی امید لگائے بیٹھی ہے تو وہ بھی اس سچ کو تسلیم کرنے کا ہی اعلان کرتی ہے۔ لیکن پاکستان کے خلاف ہیجان پیدا کرنے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کےلئے پاکستان پر افغان طالبان کی سرپرستی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہ صورتحال کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کی طرح افغانستان کا مفاد بھی بہتر دو طرفہ تعلقات استوار کرنے میں ہی ہے۔ لیکن افغانستان کو بھارت کی حوصلہ افزائی پر پاکستان کے خلاف مہم جوئی بند کرنا ہوگی۔ اسی طرح پاکستان کر بھی افغانستان کے ساتھ مراسم، اس ملک کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے استوار کرنے چاہئیں اور انہیں اپنی بھارت پالیسی کا ضمیمہ بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments