پیر کامل (ﷺ)


 آقا کے حضور مرزا اسداللہ خان غالب نے نذرانہٗ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا،\"ijaz-ahmad\"

 ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است

 12 ربیع الاول کی رات میں باربار یہ شعر پڑھ رہا ہوں، مجھے ان الفاظ کی ترکیب اور غالب کی قسمت پہ رشک آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ مرزا بھی کیاقسمت کے دھنی تھے؟ حشر کے دن کوئی نہ کوئی توشہ تو پیش کردینگے اور شائد یہی ان کا ذریعہ نجات بن جائے۔ اعمال میں وزن ویسے بھی بقدر اخلاص ہوگا، آقا کی شان ان الفاظ سے بہتر سوائے یزداں کے بھلا کوئی کیونکر بیان کرسکتاہے، میں شعر کے مصرعوں کا ورد کر رہا ہوں، ان لفظوں نے میرے ہونٹوں پہ درود بن کا روپ دھار لیا، میں سوچ رہا ہوں کہ آخر اس مبارک ہستی میں ایسی کیا بات تھی کہ رنگ، نسل، زبان اور مذھب کی قید سے بالاتر ہو کر دنیا کا تقریبا ہرمعتدل مزاج ادیب، مفکراور دانشور ان(ﷺ) کو ہدیہ تبرک پیش کر رہا ہے اور ان کی تعریف میں رطب اللسان دکھائی دیتا ہے۔ وہ عظیم اور مبارک ہستی جس نے اپنی ایک بھی خود نوشت نہ لکھی نہ لکھوائی، لیکن اس کے باوجود پہلی صدی ہجری سے لیکر اب تک ہزارہاتصانیف ان ﷺ کی سیرت پرلکھی گئیں ہیں، اور آج تک کسی شاعر، ادیب یا سیرت نگار نے یہ دعوی نہیں کیا کہ اس نے آپ ﷺ کی مدح و ستائش کا حق مکمل طور پر ادا کردیا ہے بلکہ وہ اکثر شکوہ کناں رہتا ہے کہ لفظوں میں اتنا اثر، معانی میں اتنا زور، تخیل میں اتنی وسعت کہاں وہ آقا کی توصیف بیان کرسکے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی حقوق کے بارے میں دیاجانے والا خطبہ بلا شبہ انسانی حقوق کا پہلا آفاقی منشور( First Universal charter of human rights )  کہلایا جا سکتا ہے یہ انسانی تاریخ کا پہلا موقع ہے جب کسی نے مساوات کی بات کی ہو، خواتین اور غلاموں کے حقوق متعین کئے ہو ، سود کا خاتمہ کرکے غریبوں کے معاشی استحصال کا سدباب کیا ہو اور نسلی تفاخر کا خاتمہ کیا ہو چنانچہ ارشاد ہوا کہ کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ ایک خاتون کی چاروں حیثیتوں یعنی ماں، بیٹی، بہن اور بیوی ہر حیثیت میں حضورﷺ نے اس کی عزت و احترام کی تلقین و تاکید فرمائی۔جہاں تک آپﷺ کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے تو تعدد ازدواج کے باوجود آپﷺ نے اپنے امور خانہ داری جس منصفانہ انداز میں نبھائے اس کی مثال حضرت انسان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، چنانچہ ارشاد فرمایا:

خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی۔

ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئےتم سب سے بہتر ہوں۔

اسی طرح ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا:

خیارکم خیارکم لنسائھم۔

ترجمہ:تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔

آپ ﷺ جہاں ایک محبت کرنے والے شوہردکھائی دئیےوہاں ایک شفقت کرنے والے باپ بھی نظر آئے، سیدہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضورﷺ کی محبت مثالی تھی کہ سفر پہ جاتے تو سب سے آخر میں ان سے ملنے تشریف لےجاتے اورسفر سے واپسی کرتےتو سب سے پہلے ان سے ملتے تاکہ جدائی کا وقفہ مختصراور کم سے کم ہو۔

 یتیموں کے سر پر دست شفقت پھیرنا، پڑوسیوں کے حقوق کے بارے تاکیدکرنا، مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلےاس کی اجرت ادا کرنے کی تلقین کرنا، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کے احترام کی تعلیم دینا، یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو نبی کریم ﷺ نے نہ صرف بتلائیں ہیں بلکہ خود عملا کرکے دکھلائیں ہیں۔

اس کے علاوہ آپ ﷺ ایک بہترین سیاستدان، ایک عبقری قانون دان اورایک ڈپلومیٹ ہونے کےساتھ ساتھ جنگی امور کے بھی ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دفاعی ماہرین، تجزیہ نگار اور مورخین اس بات پرحیران ہیں کہ آخر آپ ﷺ کو جنگی حکمت عملی بنانے میں اتنا ملکہ کیسے حاصل تھا جس کا عملی نمونہ بے شمار موقعوں پر آپﷺ نے اپنی زندگی میں پیش کیا اور اس کی بہترین مثال صلح حدیبیہ ہے جس میں قریش مکہ کی طرف سے عائد کردہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آپ ﷺ نے اس وقت جو فیصلہ کیا، وہی مسلمانوں کے حق میں فتح مبین ثابت ہوا۔ غزوہ احد کے موقع پرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس مخصوص گھاٹی کو چھوڑنا، اور نتیجتاجنگ کا پھانسہ پلٹ جانا اس کی دوسری بہترین مثال ہے ۔ چنانچہ مائیکل ایچ ہارٹ اپنی کتاب میں لکھتاہے کہ میں نے اس کتاب کی ابتداء محمد ﷺسے اس لئے کی، کیونکہ وہ مجموعہ کمالات ہیں وہ کسی ایک شعبے کے نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں کمال رکھتے ہیں۔

 الغرض زندگی کا ہرشعبہ، چاہے اس کا تعلق آئین شریعت سے ہو یا آئین معاشرت سے، تذکیہ نفس کیساتھ ہو یا تہذیب نفس کیساتھ، اس میں حضور ﷺ نے مثالی کردار ادا کیا ہے، اور ایسے پیر کامل ﷺ کی یہ زندگی آج ہم سے یہی تقاضا کررہی ہے، کہ جو پیغام حق لیکر وہ اس دنیا میں تشریف لائےتھے اس پر مکمل طور پر عمل پیراں ہو اپنی زندگیاں اس سانچے میں ڈھالیں جو انہوں نے بنایا ہے۔آئیے آج کے دن ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی میں ان درخشاں اصولوں کو اپنائیں گے ، ان پر عمل کریں گےاور ان کو پھیلائیں گے ہم ان کے اخلاق حسنہ و طیبہ کو اپنائیں گے کہ یہی راہ نجات ہے۔ ۔ ۔ ۔

 محمد(ﷺ) کی غلامی دین حق کی شرط اول ہے

اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments