کیا ایک سرکاری افسر کی کوئی عزت نہیں ہوتی ہے؟


قمر زمان بلوچ صاحب سول سروس سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت جام پور میں بطور اسسٹنٹ کمشنر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ کوٹ مومن میں ہونے والے حالیہ تنازعہ پر اپنی رائے دیتے ہیں اور ایک اسسٹنٹ کمشنر کے اختیارات اور اس کو پیش آنے والے مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔

مجھے حیرت ہو رہی ہے اساتذہ برادری جس طرح اپنے ایک کولیگ کی غلط کاری کو مسلسل ڈیفینڈ کرنے کے چکر میں ہے۔ غالباً ہمارے معاشرے کی سائیکی ہی یہ بن چکی ہے کہ غلطی ہمیشہ طاقتور سے ہی ہوتی ہے۔ اور اس سے کم درجہ یا کمزور لوگ معصوم عنالخطا ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے دنوں ائرپورٹ واقعہ کی فوٹیج نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کر دیا کہ جس میں خواتین پر تشدد ہوتے دیکھایا گیا۔ مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ تھا۔ جب اصل ویڈیو سامنے آئی کی جس میں خواتین نے ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کیا ہوا تھا تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔

دوسری مثال لیجیے فرض کریں ایک بڑی قیمتی کار والے کا ایک موٹر سائیکل سوار سے ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے تو سارے تماشببین قیمتی گاڑی والے کو ہی طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں حالانکہ ایسے کیسز میں نوے فیصد قصور موٹر سائیکل والے کا ہی ہوتا ہے۔

ابھی کل بات ہے نامور اینکر اقرارالحسن کی ایک عام پرائیویٹ ویڈیو کو غلط رنگ دے کر کہرام برپا کیا گیا۔

موجودہ واقعہ میں بھی ایک غلط کار استاد کی غلط کاری کی مذمت کرنے کی بجائے اپنی عددی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اساتذہ کمیونٹی نے ایک ایماندار آفیسر کے ساتھ ہونے والے قابل افسوس واقعہ کی مذمت کرنے کی بجائے اپنی کالی بھیڑ کو ہیرو بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ آفیسر چونکہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ ہر ہر فورم پر اپنی صفائی دیتا پھرے اس لئے اس پر سنگ باری شروع کر دی گئی۔

ابھی وکلاء کا جن بوتل میں بند نہیں ہوا اس لئے کسی بھی اور پریشر گروپ کی بلیک میلنگ سوائے معاشرے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے کسی کے لئے فائدہ مند نہیں۔
ذرا اے سی کے خلاف چارج شیٹ ہی ملاحظہ فرما لیں۔

1۔ 1۔ کیا کسی انتظامی افسر کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امتحانی مراکز کا دورہ کرے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں!

پنجاب سول سرونٹ ایکٹ 2016 کسی بھی اے سی کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی تحصیل کے اندر واقع کسی بھی ادارے کا دورہ کر کے اس کی کارکردگی کا جائزہ لے۔

Section 14(3) of Punjab Civil Servant Act 2016 provides:

“It shall be the duty of every head of office and officer-in-charge to facilitate inspection and provide record, information, report and otherwise assist the Commissioner, Deputy Commissioner or Assistant Commissioner.”

اس لئے اساتذہ کرام کا یہ کھنا کہ آپ گریڈ 17 کی ہیں اور ہم گریڈ 19 کے ہیں اس لئے آپ ہمیں چیک نہیں کر سکتیں یہ قانون کے منافی ہے۔ ویسے بھی اگر اساتذہ کرام خود پوری ذمہ داری کے ساتھ امتحانات کرواسکتے ہوتے تو انتظامی افسروں کو امتحانی مراکز میں خواہ مخواہ خوار ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ اور جس طرح نقل مافیا سر گرم ہے یہاں تک کہ چیف منسٹر سندھ کو خود امتحانی مراکز کا دورہ کرنا پڑا اس سے بھی یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ امتحانات جیسے حساس اور اھم معاملے کو غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ ہمارے مستقبل کی نسلوں کا سوال ہے۔

2۔ اساتذہ کا موقف ہے کہ اے سی صاحبہ پرنسپل کی کرسی پہ بیٹھ گئی تھیں۔ کیا گریڈ 17 کا افسر گریڈ 19 کے پرنسپل کی کرسی پہ بیٹھ سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں اگر اے سی صاحبہ پرنسپل صاحب کی کرسی پہ بیٹھی ہیں تو ان کو بلکل نہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ یہ بات غیر قانونی ہویا نہ ہو غیر اخلاقی ضرور ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی یہ بات ہے کہ اک خاتون افسر کا گھیراؤ صرف اس بات پہ کر لیا جائے کہ وہ آپ کو چیک کرنے آ گئی ہیں اور پرنسپل کی کرسی پہ بیٹھ گئیں ہیں۔ اسے گالیاں دی جائیں، دھمکیاں دی جائیں اور اس کے خلاف الٹا جھوٹے الزامات کا ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیا جائے۔ مجھے صرف یہ بتا دیا جائے کہ گریڈ 19 کا غیر حاضر پروفیسر زیادہ عزت کے قابل ہے یا ایک خاتون؟ ایک لمحے کے لئے اس خاتون کا گریڈ بھول جائیں اور صرف یہ یاد رکھیں کہ وہ اک خاتون ہے اور پھر اس سوال کا جواب دیں۔

3۔ کیا اساتذہ کرام کو اے سی ہاؤس کا گھیراؤ کرنا چاہیے تھا؟ جواب بہت واضح ہے۔ صرف اتنا کہ دینا کافی ہے کہ عام حالات میں اس طرح کسی گھر پر حملہ کرنے کی صورت میں سیکشن 452، 148، 149 اور نجانے کون کونسے سیکشنز کے تحت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ مگر کیا کریں اساتذہ کرام کا احترام لازم ہے۔

4۔ کیا استاد بائی ڈیفالٹ ہی عزت کا حقدار اور افسر بائی ڈیفالٹ ہی برا سمبھے جانے کا حقدار ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ ہم یہاں پاکستانی اساتذہ کی بات کر رھے ہیں سقراط کی بات نہیں کر رھے نہ ہی ہم جاپانی معاشرے کی بات کر رھے ہیں۔ ہمارے اساتذہ نے ہمیں سکھانا ہوتا ہے کہ ہم نے کس کی کتنی عزت کرنی ہے۔ اور اساتذہ کرام خود خواتیں کی عزت کرنا بھول جائیں تو وہ کیسے ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل دے سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ استاد کہ سامنے ایک اے سی کی کیا حیثیت؟ مگر کوئی استاد ہو تو سہی۔

ایک ایماندار انتظامی افسر عوام۔ کے لئے اپنے دن رات کا سکون اپنی فیملی اپنی زندگی قربان کرتا ہے، آپ کے روز مرہ استعمال کی چیزیں اعتدال پر ہیں تو یہ اسی افسر کی مرہون منت ہیں، جعلی دوائیاں، جعلی اشیائے خوردونوش، جعلی کھادیں بنانے والے اگر کسی خوف کا شکار ہیں تو اسی افسر کا خوف ہے اسے، اگر آپ کی سڑکیں، گلیاں یا پارک بن رہے ہیں تو وہ بھی ایک افسر اپنا آرام قربان کر کے مکمل کروا رہا ہے۔ آپ اپنے مذہبی تہوار اگر سکون سے منا رہے ہیں تو وہ بھی افسر کے آرام کی قیمت پر۔ حد تو یہ کہ کسی افسر کو عید پر بھی چھٹی نہیں ملتی۔ ایسے میں ایک انتظامی افسر آپ سے مانگتا کیا ہے؟ صرف عزت!

اور کیا وہ اتنے سے احترام کا بھی حقدار نہیں؟

رہی بات استاد کی عزت کی تو ہم بیوروکریٹس کی ساری عزتیں استاد کے جوتوں پر قربان۔ پر کوئی استاد بننے کا حق تو ادا کرے۔ گورنمنٹ کالج لیہ کے پروفیسر جی۔ ایم خان جیسا استاد کہ جو تہجد میں بھی اپنے شاگردوں کی عزت و توقیر کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔


اسی بارے میں

استاد کی دو کوڑی کی عزت اور ڈنڈے والے حاکم
کوٹ مومن کی اسسٹنٹ کمشنر عفت النسا کا سرکاری موقف

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).