گرمی کی شدت، مزدور اور رمضان آرڈیننس


 

گرمی کی شدت سے پیدا ہونے والی حالتوں کو اگر فوراً شناخت کر کے اُن کا علاج نہ کیا جائے، تو وہ بہت تیزی سے جان لیوا ثابت ہو جاتی ہیں۔ علاج کے باوجود بھی کچھ لوگ، ان حالتوں میں جان بر نہیں ہو سکتے؛ لہذا احسن طریقہ یہ ہے، کہ اُن کی ان حالتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی اِن کی روک تھام کی جائے۔ انسانی جان کو بچانے کے لیے اِن حالتوں کے بارے میں جاننا، ڈاکٹروں کے علاوہ عام لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ اِن کے بارے میں تفصیل آپ کسی بھی اچھی میڈیکل سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔ اِن کے نام اور اِن کی مختصر علامات مندرجہ ذیل ہیں۔

ہِیٹ اسٹروک (Heat Stroke) گرمی سے ہونے والی فالج جیسی کیفیت ہے۔ اِس میں دماغ میں موجود جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے والا مرکز کام کرنا بند کر دیتا ہے، اور اس کی وجہ سے جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ اِس میں ہذیان کی کیفیت اور مرگی جیسے دورے بھی پڑتے ہیں، اور پھر بے ہوشی کی حالت میں، موت واقع ہو سکتی ہے۔ یہ زیادہ تر بوڑھوں، بیماروں اور بچوں کو ہوتا ہے؛ مگر وہ لوگ جو گرمی میں سخت مشقت بغیر ٹھنڈا پانی پیے کرتے ہیں، اِس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جس کے دوران بہت سے آرام (Rest) کے وقفے ضروری ہیں؛ اور ٹھنڈا پانی وقفے وقفے سے وافر مقدار میں پینا ضروری ہے۔ نمک اور دیگر الیکٹرولایٹس ملا پانی بھی (پیڈیا لایٹس یا دیگر بچوں کے لیے بنائے گئے سلوشن) تھوڑی مقدار میں‌ پینا ضروری ہے۔

Heat Exhaustion یا گرمی کی وجہ سے بے انتہا کم زوری کی حالت، گرمی میں ٹھنڈا پانی پیے بغیر جسمانی مشقت کرنے سے ہو جاتی ہے۔ اس کا علاج کم از کم دو لیٹر پانی اور نمکیات کی سلوشن کو دو سے چار گھنٹے کے اندر جسم کو فراہم کرنا لازمی ہے۔ اِس کے علاوہ مریض کو فورا سائے میں منتقل کرنا چاہیے۔ اِس حالت سے بچنے کے لیے دھوپ اور گرمی میں کام کرتے وقت، وقفے وقفے سے ٹھنڈا پانی پینا لازم ہے۔ Heat Cramps یا پٹھوں کا شدید درد، گرمی میں کام کرنے سے جسم میں، نمک کی کمی کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔ اِس کے علاج اور بچاو کے لیے، پانی کے علاوہ نمک ملا پانی بھی لازمی ہے۔ Heat Syncope یا گرمی کی وجہ سے بے ہوشی، گرمی میں مسسلسل کام کرنے اور وقفے وقفے سے ٹھنڈا پانی نہ پینے کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔

مندرجہ بالا ساری کیفیتیں چوں کہ بہت تیزی سے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں، لہذا عوام میں ان کا شعور بیدار کرنا بے حد ضروری ہے۔ خصوصاً پاکستان میں، جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت ایک سو دس ڈگری فارن ہایٹ یا 43 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس مئی کی چھبیس تاریخ کو درجہ حرارت 40 سیننٹی گریڈ ہے۔ مجھے یقین ہے، کہ پاکستان کے صحت اور پبلک ہیلتھ کے محکمات اور میڈیکل ایسوسی ایشن۔ اس قسم کی معلومات عوام تک پہنچانے کی پوری کوشش کرتے ہوں گے، کہ یہ اُن کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔

جون 2015ء میں کئی ذرائع سے ملنے والی خبروں کے مطابق، صرف کراچی شہر میں ایک ماہ کے اندر کم از کم ایک ہزار لوگ گرمی کی شدت سے مر گئے۔ اِن میں کچھ بیمار اور بوڑھے تھے اور کچھ مزدور تھے۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے، کہ اِس ماہ میں رمضان کی وجہ سے لوگوں نے پانی کے کولر گلیوں سے اٹھا دیے، کہ نا صرف کھلے عام پانی پینے کی قانونی طور پر ممانعت تھی، بلکہ عام لوگ اِس کو اسلام کے خلاف حرکت سمجھ کے طیش میں آ جاتے ہیں۔ اُنھی دِنوں میں کسی اخبار میں ایک خبر، تصویر کے ساتھ چھپی تھی، کہ ایک بوڑھے ہندو شخص کو کھانا کھاتے دیکھ کے کسی کواتنا غصہ آیا کہ اُس نے اُسے مار مار کے شدید زخمی کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ مارنے والا، بہت غصے میں آ گیا ہوگا، کہ وہ خود تو روزے سے تھا، اور دوسرا شخص کھا پی رہا تھا۔ یہ بھی مکن ہے کہ وہ پیاس کی شدت سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے وہ سمجھ رہا ہو، کہ جو شخص روزہ نہیں رکھتا، اُسے مارنا پیٹنا ثواب کا کام ہے۔

جون 2015ء کی گرمی کی شدت سے ہونے والی اموات کے بعد، میرا خیال تھا کہ پاکستانی حکومت، عوام کو گرمی سے پیدا ہونے والی مہلک حالتوں سے بچانے کے لیے ایک بھرپور مہم چلائے گی؛ صحت اور پبلک ہیلتھ کے محکمے، حکومت کو رمضان آرڈیننس بِل میں بیماروں، مزدوروں اور اسٹریٹ ورکرز (Street Workers) کو استثنا فراہم کرنے کی تجویز پیش کریں گے؛ یہی وجہ ہے کہ امسال مجھے رمضان آرڈیننس کے بِل میں مزید سختی کی منظوری دیکھ کے سخت حیرت ہوئی۔ اس نئے بِل کے مطابق ماہ رمضان میں کسی کو سرِعام کھانے پینے کی سزا پانسو رُپے اور تین ماہ قید ہے۔ اِس بِل میں بیماروں، مسلم اور غیر مسلم مزدوروں اور اسٹریٹ ورکرز کے لیے کوئی رعایت نظر نہیں آئی۔ ابھی تک صحت اور پبلک ہیلتھ کے محکمے، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، لیبر ڈِپارٹمنٹ کی جانب سے، اِس پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔

 میری ایک دوست کی بہن ذیا بیطس کے مرض میں مبتلا ہے، اور رمضان کے مہینے میں اُس کے لیے اپنی شوگر کنٹرول کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اُس نے پاکستان میں اپنے ڈاکٹر سے پوچھا کہ آیا اُسے اور روزے رکھنا چاہیے یا نہیں۔ اُس کے ڈاکٹر کا جواب یہ تھا، کہ وہ اِس معاملے میں اُسے کوئی مشورہ نہیں دے سکتا۔ خصوصاً وہ اُسے روزہ نہ رکھنے کی کبھی ہدایت نہیں دے گا۔ ملک کے موجودہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اُس ڈاکٹر کا جواب اور پبلک ہیلتھ کے محکموں‌ کی خاموشی سمجھ میں آتی ہے۔ اِس وقت ملک کے حالات یہ ہیں کہ ایسی بات کو اسلام کے خلاف قرار دے کر، آپ کی جان خطرے میں ڈال دی جاتی ہے۔ آپ کو ہتک اسلام کا مجرم قرار دے کے آپ کی جان خطرے میں ڈال دی جاتی ہے؛ آپ کو گرفتار کیا جا سکتا ہے؛ یا پھر لوگوں کا ہجوم اِس شبہے میں آپ کی جان لے سکتا ہے۔

صحت کے محکمے اور پبلک ہیلتھ نیز لیبر ڈِپارٹمنٹ کا بہر صورت یہ فرض ہے، کہ وہ اپنی سفارشات حکومت کو پیش کریں اور رمضان آرڈیننس میں بیماروں، مسلم اور غیر مسلم مزدوروں، اسٹریٹ ورکروں اور اُن لوگوں کو جنھیں گرمی میں دھوپ میں کام کرنے کی مجبوری ہے، کی جان کی حفاظت کے لیے اس بِل سے مستثنا قرار دیں۔ حکومت اس کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے کی بھرپور مہم چلائے، تا کہ کسی کو بھی ان لوگوں پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو۔ بلوائیوں کو قابو کرنے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔ ہجوم کو اکٹھا کر کے مشتعل کرنے والوں قرار واقعی سزا دی جائے۔ ایسے بلوائیوں کے لیے ہر شہر میں خصوصی پولیس کا یونٹ قائم کیا جائے، جو ہتھیاروں سے لیس ہو اور مختصر نوٹس پر موقع پر پہنچ کے ہجوم سے متاثرہ شخص کی جان بچائے۔ بلوائیوں کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے، تا کہ آیندہ کسی کو بھی ایسی حرکت کی ہمت نہ ہو۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک میں رمضان کے دنوں میں کام کے دورانیے کو کم کر دیا جاتا ہے؛ مگر مزدور کی مزدوری کم نہیں کی جاتی۔ اس کے لیے مسلم اور غیر مسلم میں کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ مسلمان کارکن کو دفتر میں دیر سے کام پر آنے کی اجازت مل جاتی ہے کہ رمضان میں نیند کا دروانیہ بہت کم ہو جاتا ہے۔ جون 2015ء میں کراچی میں، ہزار لوگوں کی گرمی کی شدت سے اموات کے بعد چند علما کے بیانات سامنے آئے، جس میں انھوں نے روزے کی حالت میں مرنے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے، مگر انھوں نے مرنے والوں کے لواحقین پر کوئی اظہار خیال نہیں کیا، کہ اُن کو دو وقت کی روٹی کیسے ملے گی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ان میں بیش تر علما ایرکنڈیشنڈ گھروں اور گاڑیوں کے مالک ہیں۔ اگر ایسی بات نہیں ہے تو اُن کو گرمی میں سخت مشقت کر کے اپنے خاندان کو دو وقت کی روٹی نہیں دینا ہوتی ہوگی۔ وگرنہ وہ ایک مزدور کی مجبوری سمجھ کے دین کی صحیح تفسیر کرتے۔ اِکا دُکا عالم نے بیان دیا ہے، کہ بوڑھے کم زور اور بیمار شخص پر روزہ لازم نہیں ہے، مگر ایک مزدور کے لیے میں نے کوئی بیان نیں سنا۔

ان ساری باتوں کو دیکھ کے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسلام کو صرف امیروں کا مذہب بنا کے رکھ دیا ہے۔ کیا ہمارے علما واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مزدور جو گرمی میں اتنا بیمار ہو جائے گا، کہ وہ اپنی بیوی بچوں یا ماں باپ کو دو وقت کی روٹی فراہم نہیں کر سکے گا، وہ متقی ہو جائے گا؟ وہ اللہ جو رحیم و رحمان ہے، جو ہمارے لیے سختی پیدا نہیں کرتا، اُس کے حکم کی ایسی تشریح کرنا تو صرف سیاست اور طاقت (Power) ہی کے لیے ہو سکتی ہے۔ پاکستانی علما سیاست کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے غریب مسلم اور غیر مسلم مزدور اور Street workers کے لیے حق کی آواز بلند کریں، اور دین کی صحیح تفسیر اپنے ملک کے حالات کے مطابق کریں؛ اگر اُن کے لیے اپنے آپ کو سیاست سے بالاتر کرنا ممکن نہیں ہے، تو وہ کم از کم خدا کا خوف کریں، لوگوں کو اشتعال دلانے سے باز رہیں۔

پاکستانی حکومت کے لیے اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ملک کے ہر مزدور اور (Street Worker  مسلم و غیر مسلم) جو کہ گرمی میں باہر کام کرنے پر مجبور ہے، ایک ماہ کی اُجرت دے سکے تو اسے اپنے رمضان کے بِل میں ترمیم کرنا ہوگی۔ صحت اور Public Health کے محکموں کو لوگوں کو گرمی کی شدت سے پیدا ہونے والی حالتوں سے بچاو کی، بغیر کسی خوف کے تعلیم دینا ہوگی ورنہ اُن کے وجود کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت بالآخر حکومت ہی کا فرض ہے۔ اگر وہ اس فرض کو انجام دینے سے قاصر تو اُسے حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہتا۔

27 مئی، 2017

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi