نشے میں مبتلا نوجوان نسل


دنیا بھر میں ہر سال 26 جون کو انسدادِ منشیات دن منایا جا تا ہے۔ اِس دن کا مقصد اِس زہر کے خلاف اعلان جہاد ہوتا ہے۔ پاکستان بھی اِس خوفناک وبا کا شکار ہے اور آنے والے کچھ برسوں میں یہ ملک کا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ پاکستان میں روزانہ 700 افراد منشیات کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کچھ عرصہ قبل قائمہ کمیٹی نے سینیٹ کے سامنے پیش کیے۔ اِن اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ماہانہ 21 ہزار اور سالانہ 2.5 لاکھ افراد اِس زہر کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں 60 لاکھ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں۔ دنیا میں 41 ایسے ملک ہیں جن کی آبادی ہمارے یہاں کے منشیات کے عادی افراد سے بھی کم ہے۔ ملک بھر میں ہر سال 44 ٹن ہیروئن استعمال ہوتی ہے یہ امریکا اور یورپ میں استعمال ہونے والی ہیروئن سے تین گنا زیادہ ہے ۔ نشے میں مبتلا زیادہ تر نوجوان ہیں اور سب کی عمریں 24 سال سے بھی کم ہیں۔

ہماری نوجوان نسل کے اِس جانب راغب ہونے کی بڑے اسباب منشیات کی آسان رسائی ، منشیات کی روک تھام کا کمزور نظام اور اس خظے کی موجودہ جنگی صورتحال ہے۔ جس معاشرے میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ اس معاشرے میں بے سکونی، بے راہ روی اور مذہبی شدت پسندی بڑھ جاتی ہے اور یہ تینوں مل کر معاشرے کو منشیات کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ منشیات کی سب سے بڑی کاشت افغانستان میں ہے۔ اور یہ زہر نہایت آسانی سے افغانستان سے پاکستان اسمگل کیا جاتا ہے۔ یہ زہر اب ہمارے بچوں کی مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ منشیات کے بے پناہ استعمال سے ہماری نوجوان نسل چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کرنے پہ مجبور ہے۔ منشیات کے عادی افراد انتہاپسند تنظیموں کا بہ آسانی آلہ کار بن جاتے ہیں۔ کچھ پیسوں کے عوض یہ نوجوان کسی کا بھی قتل کرنے پہ امادہ ہوجاتے ہیں۔ اسکول ، کالجوں، یونیورسٹی، مارکیٹوں ہر جگہ منشیات کا استعمال جاری ہے۔ جرم منشیات کی گو د میں پنپتا ہے۔ منشیات کی عادت نوجوان نسل کو جرائم کی راہ پہ دھکیل دیتی ہے۔

منشیات کے عادی 60 لاکھ میں سے 30 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کو فوری علاج کی ضرورت ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِن نوجوانوں کا حکومتی سطح پہ علاج ہوتا لیکن حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث نوجوان نسل مزید موت کے منہ میں رہنے پہ مجبور ہے۔ کے پی کے میں میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 11 فیصد جبکہ سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 5 سے 6 فیصد ہے۔ یہ افراد اپنا نشہ پورا کرنے کیلئے کسی بھی حد کو عبور کر جاتے ہیں۔ اِن افراد میں کچھ کا تعلق انتہائی تعلیم یافتہ گھرانوں سے بھی ہے۔ ملک بھر میں زیادہ تر قائم طبی علاج کے مراکز کا حال تو یہ ہے کہ اِن مراکز کا کام تو منشیات سے عادی افراد کو منشیات سے دور رکھنا ہے لیکن حقیقت تو اس کے بلکل برعکس ہے۔ اِن مراکز میں نشہ کے عادی افراد کو باآسانی نشہ آور ادویات اور منشیات فراہم کر دی جاتی ہیں اور پھر اِن افراد کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو آنے والے کچھ برسوں میں پاکستان کے منشیات کے عادی افراد کی تعداد دنیا کے 50 ملکوں کی آبادی سے بھی تجاوز کرجائے گی۔ اور یہی عالم رہا تو ملک بھر میں اتنے افراد دہشت گردی میں ہلاک نہیں ہوئے ہونگے جس قدر اِس منشیات کے زہر سے ہلاک ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).