26  جون – منشیات کے خلاف آ گہی کا عالمی دن


لِن یو (Lin Zexu) چین کی چنگ شہنشاہت کا ایک زبردست کردار ہے ۔وہ ایک انتہائی زیرک ،اعلیٰ تعلیم یافتہ، ویژنری اوردانشور افسراور سیاستدان تھا۔ چین کا بیرونی دنیا سے رابطہ استوار کرنے میں بھی لِن یوکا کافی کردار ہے جبکہ اس نے جغرافیہ کے موضوع پر ایک مسوّدہ بھی لکھا۔ لیکن اس کو اصل شہرت انسداد منشیات کیلئے اس کے بے رحمانہ اقدامات پر ملی جب 1839سے 1842کے دوران اس نے چین میں انسداد منشیات کیلئے دنیا کی پہلی جنگ لڑی ۔منشیات کی روک تھام کیلئے اسکی سنجدیگی کا اندازہ ملکہ برطانیہ کو لکھے گئے اس کے کھلے احتجاجی خطوط سے لگایا جاسکتا ہے جو برطانوی اخبارات میں بھی شائع ہوئے جس میں لِن نے برطانوی سامراج کو چین میں منشیات کے فروغ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ 1839میں ملکہ وکٹوریہ کو لکھے گئے اپنے ایک غیر معمولی خط میں لِن نے ملکہ برطانیہ کو مردہ ضمیر قرار دیتے ہوئے فی الفورافیون کی تجارت ختم کرنے کو کہا۔اپنے خط میں لِن نے مزید لکھا کہ چین برطانیہ کو چائے ، ریشم ،مصالحہ جات اور دیگر مفید چیزیں برآمد کرتا ہے جس کے بدلے میں برطانیہ چینی شہریوں کو ذہر فروخت کر رہا ہے ۔انسداد منشیات کیلئے لِن کی خدمات کے اعتراف بین الاقوامی سطح پر 26 جون عالمی یوم انسداد منشیات کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد اقوام عالم کومنشیات کی سمگلنگ کے سد باب میں معاونت فراہم کرنا اور اس کے استعمال و مضر اثرات سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے تاکہ عالمی معاشرے کو منشیات جیسے ناسور سے محفوظ بنایا جاسکے اور یہ سلسلہ 1988سے جاری ہے۔لِن کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے نیویارک اور مادام تساو ¿ میوزم میں اس کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔

یونائیٹڈ نیشن آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم (UNODC)کی جانب سے جاری کردہ ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق دنیا میں منشیات کی تجارت اس وقت پانچ سو بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو دنیا کی مجموعی تجارت کا ایک فیصد ہے۔دنیا میں منشیات کے استعمال میں تیزی سے ہونے والے اضافے سے منشیات فروشوں کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ظاہر ہے اتنے بڑے پیمانے پر منشیات کی سمگلنگ ، بلیک مارکیٹنگ اور فروخت دنیا بھر کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی مدد اور معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ایسی متعدد رپورٹس آچکی ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کی سی آئی اے کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ منشیات کی فروخت سے حاصل ہوتا ہے۔ایسے میں دنیا کی دوسری ایجنسیاں کیا پیچھے رہیں گی؟دنیا میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیچھے منشیات کا استعمال اور کاروبار ہے۔ میکسیکن گورنمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں قتل کی 90فیصد وارداتوں کا محرّک منشیات ہے۔برطانوی حکومت کی ایک لیک ہونے والی رپورٹ کے مطابق دکانوں سے 80فیصد چوری ، نقب زنی کی 80 فیصد وارداتوںاور 54فیصد ڈاکوں اور اس نوعیت کے دیگر جرائم میںزیادہ تر ہیروئن اور کوکین استعمال کرنے والے افراد ملوث ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہیروئن اور کوکین کے استعمال کے باعث ہونے والی جرائم کی وارداتوں سے برطانیہ کو سالانہ سولہ بلین یورو کا نقصان پہنچتا ہے۔

 سب سے زیادہ وہ ممالک متاثر ہوتے ہیں جو منشیات کی سمگلنگ کے روٹ ہیں۔افغانستان اس وقت منشیات کی پیداوار کا گڑھ ہے اور وہاں پیدا ہونے والی زیادہ تر منشیات پاکستان کے راستے سے سمگل کی جاتی ہیںجس کی معقول کھپت یہاں کی مقامی مارکیٹ میں ہے۔عالمی ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والوںکی تعداد8.9 ملین یعنی نوے لاکھ کے قریب ہے۔ یہ ہماری کل آبادی کا چھ فیصد ہے جبکہ ان میں سے چالیس لاکھ سے زائد لوگ منشیات کے مستقل عادی ہیںجو دنیا میں منشیات استعمال کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعدادبنتی ہے۔اس کی بڑی وجہ پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت ہیروئن اور اس طرح کی دیگر نشہ آور چیزوں کی ارزاں داموں فروخت ہے۔پاکستان میں زیادہ تر منشیات افغانستان کے راستے آتی ہے جو دنیا میں منشیات کی 75 فیصد پیداوارکا مرکز ہے۔ یو این او ڈی سی کے مطابق پاکستان میں روزانہ 15سے 64سال کی عمر کے آٹھ لاکھ افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 44ٹن ہیروئن استعمال ہوتی ہے جو امریکہ سے تین گنا زیادہ ہے۔جبکہ 110ٹن ہیروئن اور مورفین پاکستان کے راستے انٹرنیشنل مارکیٹ میں سمگل کی جاتی ہے۔پاکستان میں سالانہ غیر قانونی تجارت کا حجم دو بلین ڈالر ہے۔جبکہ منشیات کا استعمال کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد افغانستان سے متصل صوبے خیبر پختونخواہ میں ہے جہاں کل آبادی کا گیارہ فیصدمنشیات کے استعمال کا عادی ہے۔ بلوچستان میں تین لاکھ سے زائد لوگ منشیات کی لعنت کا شکار ہیں۔اسی طرح پنجاب، سندھ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی لاکھوں لوگ منشیات کے عادی ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے 11فیصد افراد کا ایچ آئی وی(HIV)مثبت ہے جس کی ایک بڑی وجہ انجکشن کے ذریعے ڈرگ کا استعمال جبکہ یہاں منشیات کے لاکھوں مریض موجود ہونے کے باوجود صرف تیس ہزار سے بھی کم لوگوں کیلئے علاج معالجہ کی سہولتیں میسر ہیں۔روزانہ سات سو افراد منشیات کے استعمال کے سبب مر رہے ہیں۔

یہ بات بہت باعث تشویش ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ہمارے کالج اور یونیورسٹیوں میں ہر دس میں سے ایک طالبعلم منشیات کا شکار ہے جن میں لڑکیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے لہٰذا والدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف اسلام آباد اور پنڈی میں اسّی سے زائد مقامات پر حشیش ، چرس ، ہیروئن، مارفین اور آئس فروخت ہو رہی ہے۔ آج کل نوجوان لڑکے لڑکیوں میں آئس کا نشہ بہت مقبول ہو رہاہے ۔ بیچنے والے زیادہ تر ایجنٹ چھوٹے دکاندار ، پھیری والے، سبزی فروش، بھکاری اور آٹو موبائل مکینکس ہیں جبکہ اب وائٹ کالرپیشے کے افراد بھی منشیات کی نقل وحمل میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔سب سے سستا نشہ حشیش ہے جو اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایک کلو بیس ہزار روپے میں دستیاب ہے جبکہ ہیروئن کی ایک خوراک سو روپے میں مل جاتی ہے۔منشیات کا مسلسل استعمال انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر ناکارہ بنا دیتا ہے اوراس وقت یہ پاکستان کو درپیش سنگین خطروں میں سے ایک ہے ۔

منشیات کی روک تھام ایک مشترکہ ذمہ داری ہے لہٰذا تمام وفاقی و صوبائی اداروں اور شعبہ ہائے زندگی کا باہمی تعاون ناگزیر ہے۔قومی و عالمی سطح پر منشیات کی بڑھتی ہوئی سمگلنگ اور اس کے استعمال سے پیدا ہونے والے منظر نامے کے پیش نظر اینٹی نارکوٹکس فورس پاکستان قومی و بین الاقوامی سطح پر منشیات کی روک تھام کیلئے 2010 میں وضع کی گئی اپنی سہہ جہتی حکمت عملی کے تحت منشیات کی ترسیل کی روک تھام ، انسداد منشیات کے سلسلے میں عالمی تعاون اور منشیات کی تخفیف طلب کے ساتھ منشیات فروشوں کے خلاف سینہ سپر ہے۔میڈیابھی اطلاعات و معلومات کی رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے ناطے منشیات کے استعمال کے خلاف شعور بیدار کرنے کیلئے ایک اہم وسیلے کے طور استعمال ہوسکتا ہے۔حال ہی میں پی آئی کے ذریعے منشیات کی سمگلنگ سے ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لا کر اینٹی نارکوٹکس فورس نے اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے آہنی عزم کا اظہار کیا ہے جس پر اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل مسرت نواز ملک اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).