یہ کیسا مہلک نشہ ہے سگریٹ کا یارو!


دھونکنی کی طرح چلتی سانس اور تکلیف دہ کھانسی کا دوران پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا بوڑھے باپ نے سخت بے بسی اور جانکنی کے عالم میں اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے سگریٹ لا دو۔ آنسو بہاتی اولاد نے دوڑ کر نکڑ کی دکان سے سگریٹ خرید کر حکم کی بجا آوری کی پھر اپنے ہاتھوں سے سگریٹ سلگا کر باپ کے منہ میں لگا دی۔ باپ نے زندگی کے آخری لمحات میں چند کش پھونکے اور کچھ ہی لمحوں میں جانِ آفرین سپرد کے سپرد کر دی۔

یہ قصہ سو فیصد سچا ہے لیکن حیران کر دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر یہ کیسا نشہ ہے۔ کہ باوجود اس آگہی کے کہ سگریٹ میں موجود اجزا کے اثرات مہلک ہیں اپنے شکنجہ میں جکڑ لیتا ہے۔ اور بیشتر صورتوں میں اس طرح چمٹ جاتا ہے کہ جان جیسی عزیز اور بھاری قیمت لے کر ہی دم لیتا ہے۔
دشمن بھی ہے اور ساتھ رہے جان کی طرح
مجھ میں اتر گیا ہے وہ سرطان کی طرح
(پروین شاکر)

یہ جاننے کے باوجود کہ سگریٹ یا تمباکو کا نشہ خود کشی کے مترادف ہے۔ دنیا کے تقریباً 1.1 بلین افراد سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔ اس شرح کے ساتھ اندازہ یہ ہے کہ یہ تعداد 2025 میں 1.6 بلین تک پہنچ جائے گی۔ اندازہ لگائیے کہ اس وقت دنیا میں سگریٹ کی فی منٹ خرید کی شرح دس ملین (ایک کروڑ)کے قریب ہے جبکہ اس کے استعمال کے نتیجہ میں ہر آٹھ سیکنڈ میں ایک موت واقع ہو رہی ہے۔ یعنی 5.4 ملین سالانہ اموات کا سبب محض تمباکو کی کسی نہ کسی شکل کا استعمال ہے جو دنیا میں ہونے والی کسی اور بیماری یا نشہ آور مصنوعات کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یعنی ہر پانچ میں سے ایک موت کی وجہ سگریٹ نوشی ہے اگر یہی شرح رہی تو 2030 تک اموات کی شرح 8 ملین سالانہ ہو جائے گی۔

اگر ہم تاریخ میں جھانکیں تو 1492 میں مشہور سیاح کرسٹوفر کولمبس نے اپنے سفر کے دوران نہ صرف نئی دنیا امریکہ کا پتہ لگایا بلکہ وہاں کے مقامی باشندوں کو تمباکو کی پتیوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ جو ایک پودے نکوٹینا ٹیبوکم سے حاصل کی جاتی ہیں۔ امریکہ میں پہلی سگریٹ کی فیکٹری 1864 میں لگی کہ جس میں 20 ملین سگریٹ سالانہ کے حساب سے تیار ہوتے تھے۔ تمباکو انیسویں صدی میں امرا کا من پسند شوق بن چکا تھا۔ 1880 کی دھائی میں اس کا استعمال عام افراد میں بھی مقبول ہونے لگا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران سگریٹ کمپنیوں نے فوجیوں میں ایک ملین سگریٹیں مفت تقسیم کیں۔ سگریٹ کی مقبولیت کا ثمر 1930 کی دھائی میں مردوں اور 1970 کی دھائی میں عورتوں کے پھیپھڑوں کے سرطان کی حیران کن حد تک بڑھتی ہوئی شرح کے گراف کی صورت ملا کہ جس نے طب کی دنیا کو ششدر کر دیا۔ آج تقریباً 48000 اموات سالانہ صرف امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں سگریٹ نوشی کے سبب ہو رہی ہیں۔ سگریٹ نوشی کی وجہ سے طبی اخراجات اور پیداواری قوت کا نقصان سالانہ کھربوں ڈالرز ہے۔ یعنی طبی اخراجات 170 بلین ڈالرز تو 156 بلین ڈالرز پیداواری خسارہ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ سگریٹ نوشی میں کونسا سرور ہے اور اس کے ہمارے جسم پہ کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سگریٹ میں موجود تمباکو کے اندر جو کیمیائی جزو دراصل خطرناک قسم کے نشہ کا باعث ہے وہ نکوٹن کہلاتا ہے۔ تاہم نکوٹن کے علاوہ بھی تقریبا چار ہزار قسم کے دوسرے کیمیائی اجزا ہوتے ہیں۔ جو نہ صرف زہریلا اثر رکھتے ہیں بلکہ کینسر پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ تقریبا 60 اجزا کینسر کا محرک ہیں۔ چند زہر آلود کیمیائی اجزاء کے نام کاربن مونو آکسائیڈ، ٹار، بینزیں، کیڈمیم، امونیا، ایسی ٹلڈ یٹائیڈ، نائیٹروسوامانٹین وغیرہ ہیں۔

نکوٹین کا اثر اس قدر زہریلا ہوتا ہے کہ اس کا ایک خالص قطرہ کسی زبان پہ رکھا جائے تو اس کی موت کا سبب بن جائے۔ سگریٹ کی ہر کش سے یہی زہریلی نکوٹن اور دوسرے نقصان دہ کیمیائی مادے دس سیکنڈ کے اندر پھیپھڑوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے وہ جذب ہونے کے بعد خون میں داخل ہو کر 8 سیکنڈ کے اندر دماغ میں پہنچ جاتے ہیں۔ واضح ہو کہ ہر سگریٹ میں تقریباً دس ملی گرام نکوٹین ہوتی ہے جو نشہ کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

ہمارا دماغ کروڑوں اعصابی خلیوں یا نیوروں سے مل کر بنا ہے۔ یہ خلیہ ایک دوسرے سے رابطہ کے لئے قدرتی کیمیائی مادے (نیورو ٹرانسمٹر) کی مدد لیتے ہیں۔ جو خلیوں کی سطح پہ مخصوص مقامات یعنی(receptors)پہ فٹ ہو کر خلیہ کو فعال بناتے ہیں۔ اور اس طرح اعضا کی حرکت، بھوک، سانس کی رفتار، دل کی رفتار، سیکھنے کی صلاحیت وغیرہ کا محرک بنتے ہیں۔

نکوٹن کی ساخت ایسے ہی اہم نیورو ٹرانسمیٹر سے ملتی جلتی ہے جس کا نام ایسی ٹلڈ یٹائیڈ کولین ہے۔ لہذا اصل کیمیائی مادہ کے نقل اور نقصان دہ کیمیکل نکوٹین دماغ کے خلیوں سے چسپاں ہو جاتا ہے۔ اور نہ صرف تمام نارمل امور کو متاثر کرتا ہے بلکہ ایسے ہارمون کا بھی کثیر تعداد میں اخراج کرتا ہے جو موڈ اور یاداشت پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون یا نیورو ٹرانسمیٹر جو نشہ کو لطف کی کیفیت یا احساسات (Pleasure & Rewards) کو جگاتے ہیں۔ اور یہ ڈوپ امین کہلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سگریٹ کے استعمال سے جسم کے انزائم مونو امائین اکسیڈنڈ میں بھی خاصی کمی ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بھی ڈوپ امین کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ اس کے باعث سرور و کیف کی حس میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ تو ہے کہ سگریٹ کا ترک کرنا آسان نہیں۔ اس طرح سگریٹ ہو یا اکثر شراب
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

وقت کے ساتھ ساتھ سگریٹ کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کیونکہ جسم میں نشہ کا اثر جلد زائل ہونے لگتا ہے اور برداشت کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
سگریٹ چھوڑنا اس لیے مشکل ہوتاہے کیونکہ انسان ترک کرتے وقت تکلیف دہ حالت سے گزرتا ہے۔ جس کو (Withdrawl) یا نشہ ٹوٹنے کا اثر کہا جاتا ہے۔ اس میں چڑ چڑاہٹ، سوچنے اور توجہ دینے کی صلاحیت میں کمی، ڈیپریشن، نیند میں گڑ بڑ، سر درد، بھوک کا بڑھ جانا اور شدت سے دوبارہ سگریٹ پینے کی طلب شامل ہے یہ کیفیت سگریٹ چھوڑنے کے چھ ماہ بعد تک جاری رہتی ہے۔

نشہ کی عادت کے علاوہ نکوٹین اور دوسرے کیمیائی مادے اپنے بھرپور مضر رساں اثرات پیدا کرتے ہیں۔ جن میں سے چند دل کی ڈھرکن کا بڑھ جانا، خون کی نالیوں کا تنگ ہونا، اس کی وجہ سے دل کا دورہ اور اسٹروک کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ امریکہ میں دل کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ سگریٹ نوشی ہے۔ پھیپھڑوں پر اثر کی وجہ سے اعضائے تنفس میں جرثومہ کا حملہ باآسانی ہوتا ہے اور مستقل کھانسی ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں میں سرطان کی 90 فیصد وجہ سگریٹ نوشی یا کسی طور تمباکو کا استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ایمفاسئیما (Ephysema) اور برونکائٹس بھی سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

پھیپھڑوں کے کینسر کے علاوہ گردے، مثانہ، حلق، سانس کی نالی، نرخرہ، پیٹ اور غذا کی نالی کا سرطان بھی سگریٹ نوشی کے سبب ہو سکتے ہیں۔ یہی نہیں اکثر آنے والی نسل بھی اپنے والدین کی سگریٹ نوشی کی سزا بھگتتی ہے۔ کم وزن کا بچہ پیدا ہونا، وقت سے پہلے بچہ ہو جانا، مرا ہوا بچہ پیدا ہونا، (SID) سڈ یعنی اچانک ہی کسی نوزائیدہ بچے کا مر جانا چند علامات ہیں۔ جو سگریٹ نوشی کا سبب ہیں۔ سگریٹ کی عادی ماؤں کے پیٹ میں پلنے والے بچوں میں پیدائشی طور پہ نکوٹین کے نشہ کی عادت اور کم عمری سے سگریٹ نوشی کا رجحان ہوتا ہے۔

سیکنڈ ہینڈ اسموکنگ بھی نقصان دہ ہے جو سگریٹ پینے والے افراد کے فضا میں چھوڑ ے دھوئیں کی وجہ سے فضا میں آلودگی کے سبب ہوتی ہے۔ اس کے مضر اثرات بالواسطہ بھی ان تمام افراد کو اتنا ہی متاثر کرتے ہیں جتنا براہ راست سگریٹ پینے والوں کو۔

گو ڈبلیو ایچ او کے مطابق سگریٹ نوشی سے 650 ملین افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سگریٹ نوشی اتنی ہی شدومد سے جاری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمباکو کی کمپنیاں اور دنیا کے ممالک اس صنعت سے منافع اٹھا رہے ہیں۔ خود امریکہ میں تمباکو سب سے پرانی اور منافع بخش صنعت ہے اور فیڈرل بجٹ کا بڑا حصہ تمباکو کی صنعت کے مرہون منت ہے۔ باوجود سگریٹ کے خلاف مہم کے، تشہیری ادارے نئی نسل کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ کمپنیوں نے سیاسی اور حکومتی با رسوخ لابیوں کو اپنا ماتحت بن لیا ہے۔ جو نہ صرف اس صنعت کے منافع اور بقا کے لئے کوشاں ہیں بلکہ ان کے لئے قانونی جنگ بھی لڑتے ہیں۔

قارئین اس تحریر کے ذریعہ یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ سگریٹ کیوں مضر رساں اور کیوں اتنی مستعمل ہے۔ ضروری ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کے لئے سگریٹ نوشی کے خلاف متحرک ہو جائیں۔ اور ان لوگوں کو سگریٹ چھوڑنے میں مدد دیں جو علت کا شکار ہیں۔ نوجوانوں کو اپنی مہم کا حصہ بنائیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تحریر اس مہم میں کام آ سکے۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).