زینب کی ماں کہتی ہے، مجھے انصاف چاہیے


زینب کی ماں کہتی ہے: مجھے اور کچھ نہیں انصاف چاہیے۔ زینب کی ماں کافی بھولی ہے اور دنیا کو بالکل نہیں سمجھتی۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک ایسی چیز کا مطالبہ کررہی ہے، جو اس سماج میں کہیں وجود نہیں رکھتی، بلکہ اس لیے کہ جو کچھ زینب کے ساتھ ہوا: جس طرح اس سات سالہ بچی کے جسم کو چیر ڈالا گیا اور جس طرح کوڑے کے ڈھیر میں اسے پھینک دیا گیا، اس کا ازالہ ’انصاف ‘ سے نہیں کیا جا سکتا، خواہ انصاف اپنے تمام تر مثالی تصور کے ساتھ ہوتا نظر آئے۔ زیادہ سے زیادہ اس ننگ انسانیت کو کوڑے لگائے جاسکتے ہیں، پتھروں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، یا پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہے، یا عمر بھر کے لیے تنگ وتاریک کوٹھڑی میں قید تنہائی میں رکھا جاسکتا ہے۔ مجرم کو بدترین سزا سے غصے، رنج اور انتقام کے وہ جذبات ٹھنڈے ہوسکتے ہیں جوزینب کے ماں باپ اور ہم سب محسوس کررہے ہیں، لیکن زینب کو کیا ملے گا؟ انصاف کا تصور پس ماندگان کی اشک شوئی کا کچھ نہ کچھ سامان رکھتا ہے، مگر ظلم کا شکار ہوکر مر جانے والوں کے لیے انصاف کے دامن میں کچھ نہیں۔

زینب نے یقینا ایک دن مرنا تھا، ہم سب کی مانند، مگر اسے باعزت زندگی کے حق کے ساتھ ساتھ معمول کی موت سے محروم کیا گیا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی موت صرف اس اذیت کے سبب ہوئی، جسے اس کا نوخیز جسم سہارنے سے قاصر تھا یا اس کی روح کی توہین کے باعث ہوئی، جس کا تصور صرف وہی کرسکتے ہیں جن کے دل پتھر کے نہیں ہیں۔ روح کی توہین کے بعد اس کے مردہ جسم کی اہانت میں بھی آخری حدیں پار کی گئیں۔ ہمارے نظام انصاف میں روح کی توہین اور بعد از مرگ اہانت کے سلسلے میں کیا کوئی طریقہ وضع کیا گیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم کے مداوے کی کوئی صورت نہیں۔ البتہ اس کے ماں باپ، رشتہ داروں اور اس کے غم میں شریک لوگوں کی اشک شوئی کے لیے تھوڑا بہت ممکن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مرد جو بچوں اور بچیوں کے ورغلا کے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر قتل کرکے، ان کی لاشوں کو کہیں چھپا دیتے یا پھینک دیتے ہیں، ہمیں بے بسی کی انتہائی حالت میں پہنچا دیتے ہیں۔ ہم ان بچے بچیوں کو ملنے والوں زخموں کو اپنی روحوں میں محسوس کرتے ہیں، غصے میں آتے ہیں، آنسو بہاتے اورمجرموں پر لعنت بھیجتے ہیں، مگر جس توہین کو یہ بچے بچیاں جھیل کر مرے ہوتے ہیں، اس کے سلسلے میںنہ تو خود کچھ کرسکتے ہیں، نہ اپنے نظام انصاف میں اس کا کچھ مداوا دیکھتے ہیں۔

نفسیات کے ماہرین جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کے بارے میں کئی باتیں بتاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جنسی زیادتی محض جنسی جذبے کے اشتعال کا نتیجہ نہیں۔ جنسی اشتعال کے اظہار کے کئی بے ضرر طریقے بھی موجود ہوتے ہیں اور جن سے ہر مرد واقف ہے۔ بعض نفسیاتی ماہرین کے نزدیک یہ مسئلہ جنسی۔ نفسیاتی بہ یک وقت ہے۔ ان کے نزدیک ایسے لڑکے یا مرد عزت نفس کے بحران کا شکارہوتے ہیں۔ جو شخص اپنی عزت نہیں کرتا، وہ دوسروں کی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتا۔ یا یہ کہ وہ سادیت پسند ہوتے ہیں: انھیں دوسروں کو اذیت و توہین سے ہمکنار کرکے خوشی ملتی ہے۔ یا یہ کہ اس طرح کے لوگ مستقبل کا ٹھیک ٹھیک تصور کرنے سے قاصر ہوتے ہیں؛ وہ ایک لمحے کے عمل کے نتیجے میں رونما ہونے والے مستقبل کے واقعات کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ ہوسکتا ہے، ایسا ہی ہو۔ لیکن کوئی شخص عزت نفس کے بحران میں کیوں مبتلاہوتاہے، یا کیوں سادیت پسند ہوتا ہے، یا کس بنا پر ایک مشتعل لمحے کے بعد کے بعد کے واقعات کا اندازہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے؟ کیا اس کی معاشی حالت، خاندانی حالات، جہالت، یا ایک پاپولر بیانیے کے مطابق سمارٹ فون پر دستیاب پورنو فلمیںاس سب کا باعث ہیں یا انسانی فطرت میں موجود وہ درندگی سبب ہے، جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی؟ ان میں سے کوئی وجہ بھی ہوسکتی ہے، یا کئی اسباب بہ یک وقت ہوسکتے ہیں۔ ان جرائم کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میںنہ تو دیر ہونی چاہیے، نہ غفلت، مگر اس کے ساتھ اس پر باقاعدہ تحقیق ضرور ہونی چاہیے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ وہ خود کتنے ذمہ دار ہیں، سماج کس قدر ذمہ دار ہے اور ریاست نے کہاں وقتی اور کہاں مستقل غفلت کا مظاہرہ کیا؟

 ہمیں ان لوگوں کی باتوں کو دھیان دینے کے بجائے، ان کے فہم کے افلاس پر رحم کھانا چاہیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ منٹو کے افسانے یا کلاسیکی شاعروں کی عشقیہ شاعری اس طرح کے اقدامات پر مردوں کو مائل کرتی ہے۔ پنجاب کے جن قصبوں میں اس طرح کے واقعات جس تواتر سے ہورہے ہیں، وہاں شاید ہی کوئی منٹو کو جانتا ہو یا اس نے کسی پرانی لائبریری سے لے کر کلاسیکی شعرا کے دیوان پڑھے ہوں۔ نیز جن لوگوں نے کالجوں یا یونیورسٹیوں میں یہ کتابیں پڑھی ہیں، ان میں سے شاید ہی کسی نے یہ گھناﺅنا کام کیا ہو۔ اس طرح کی باتیں اصل واقعے سے توجہ ہٹا کر اپنی جانب توجہ مبذول کرانے کا سبب بنتی ہیں۔

 زینب کے واقعے نے ہمیں بے بسی کی جس انتہائی حالت میں پہنچایا ہے، اس سے نکلنے کی کوئی نہ کوئی ہمیں راہ نکالنی ہے۔ سب سے پہلے تو زینب کے ساتھ ساتھ ان سب بچے بچیوں کو یاد رکھنا ہے، جو اس بربریت کا شکار ہوئے ہیں۔ جس عزت کے یہ مستحق تھے، اس سے کہیں بڑھ کر عزت انھیں بعد از مرگ دی جانی چاہیے۔ آخر ان کے لیے کوئی میوزیم، کوئی یادگار یا کوئی ایوارڈ کیوں نہیں، یا ان کے نام پر کوئی ایوراڈ کیوں نہیں؟یہ وہ کم ازکم انصاف ہے جو ہم ان کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کے جواب میں انھیں دے سکتے ہیں۔ ہم اپنی بے بسی کی حالت سے نکلنے کا راستہ عام طور پر بھلانے کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان بچوں، بچیوں کو بھلا دینے سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں۔ بھلا دینے کے سبب ہی ہم مزید ایسے واقعات ایک مظلوم کو بھلانا، مزید مظلوم پیدا کرنے کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).