پہلے”پٹاری“ دیکھیں پھر ”مداری“ ۔۔۔۔


بھلے وقتوں کی بات ہے کبھی بھولے سے بھی گاﺅں میں کوئی موٹر کار آجاتی تو اس کے گرد مجمع لگ جاتا۔ کوئی نوجوان ”انگریزی لباس“ پہن لیتا یا کلین شیو بنا لیتا تو گھر باہر سے اس کی ایسی ”خاطر مدارت“ ہوتی کہ وہ مدت تک یاد رکھتا۔ گاﺅں میں اگر کوئی مداری آجاتا تو شام تک اس کے گرد ”حسب توفیق“ رونق لگی رہتی۔ ہمیں یاد ہے جب کبھی کبھار ہمارے گاﺅں میں بھی کوئی مداری آ جاتا تو ہم شام تک تماشا دیکھنے کی غرض سے اسکے پیچھے پیچھے بھاگے رہتے۔ مداری کی پٹاری دیکھنے کی ”بیماری” ہمیں بچپن سے لگ گئی اور ابھی تک افاقہ نہیں ہوا۔مداری جب ”وارم اپ” ہونے لگتا تو مجمع کو مخاطب کرکے کہتا کہ ”آج میں ایک ایسا کھیل تماشا دکھانے لگا ہوں جس کا نظارہ آپ نے پہلے نہیں کیا ہوگا۔ میری پٹاری میں “اڑنے والا” ایک ایسا سانپ ہے جس کے سامنے ہر قسم کے سانپ ”سجدہ ریز” ہو جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں آپ ”سانپوں کے شہنشاہ“ کا دیدار کریں گے۔ مداری یہ کہہ کر تماشائیوں کے درمیان ایک لکیر لگاتا اور پھر قسم دے کر کہتا کہ اس لکیر کو کسی نے کراس نہیں کرنا اور اب تماشے کے اختتام تک یہاں سے جانا بھی نہیں۔اپنا دایاں پاﺅں ہلانا ہے نہ بایا ں ہاتھ ورنہ نقصان کے ہونگے خود ذمہ دار ؟ شروع شروع میں تو ہم بھی مداری کی”نصیحت“ پر ایسے ہی عمل کرتے جیسے کسی”مولوی“ کے واعظ پر کیا جاتا ہے۔ اس نصیحت آموز افتتاحی سیشن کے ساتھ ہی مداری اپنا نیا کھیل شروع کر دیتا اور کہتا کہ میر ے پاس صرف   10 انگوٹھیاں ہیں ان انگوٹھیوں پربہت روحانی پڑھائی کی گئی ہے اور یہ ہر بیماری سے شفا دیتی ہیں اور میں صرف 10 ”خوش نصیبوں”کو ہی یہ انگوٹھیاں بلا معاوضہ دوں گا ؟ ہر تماشائی سانس روک لیتا ہے کہ ”خوش نصیبی“ کا ہما اس کے سر پر بیٹھتا ہے یا کسی اور کے۔

چہرہ شناسی میں”پی ایچ ڈی ہولڈر“ مداری چند سیکنڈ میں ہی بھانپ لیتا ہے کہ کس کی ”جیب گرم“ ہے اور کون ہے تہی دامن؟ وہ اپنے ”تجربات“ کی روشنی میں صرف 10 تماشائیوں کو ہی اپنی کھینچی گئی لکیر پر آکر بیٹھنے کی دعوت دیتا ہے اور انگوٹھیاں ان”خوش نصیبوں“ کے حوالے کردیتاہے اس کے بعد وہ کہتاہے کہ یہ انگوٹھیاں تو میں نے آپ کو مفت دیدیں لیکن میں آپ کے گاﺅں آیا ہوں اور مجھے بھوک بھی لگی ہے اگر میں آپ سے کھانا مانگوں تو کیا آپ بھوکے کو کھانا دو گے ؟ انگوٹھیاں لینے والے تو خوشی سے نعرے لگاکر کہتے کہ ہاں ہم دیں گے۔مداری پھر کہتا کہ میں تو مذاق کررہاتھا مجھے کھانے کی طلب نہیں لیکن فرض کریں کہ اگر کھانا 5 روپے میں آتا ہے تو کیا آپ میں سے کوئی مجھے 5 روپے دے سکتا ہے اور جو دے سکتاہے وہ ہاتھ کھڑا کرے جس تماشائی کے پاس پیسے ہوتے وہ توہاتھ کھڑا کرتا مگر جس کی جیب خالی ہوتی وہ تو سر بھی اوپرنہ کرتااور مداری سے نظریں ملانے سے بھی کتراتا کہ اتنا لمبا چوڑا تماشا مفت میں ہی دیکھ لیا ہے۔ تماشائی دل ہی دل میں سمجھتے کہ مداری نے پہلے بھی کھانا نہیں کھایا اب وہ کون سے 5 روپے لے گا؟ مداری پھر رعب دار آواز میں کہتاہے کہ میرے ایک سے 10 گننے تک جس جس کی جیب میں پیسے ہیں وہ نکال کر دائر ے کے اندر پھینک دے۔ تماشائی فوری حکم کی تعمیل کردیتے تو مداری بلند آواز میں کہتاہے کہ “مجھے آپ کے پیسوں کی ضرورت نہیں بس آپ کی محبت چاہیے میں تو آپ کا جذبہ دیکھنا چاہتا تھا آپ تو واقعی “قدر دان” نکلے ہیں تو پھر میں بھی آپ کو ایک منٹ۔ صرف ایک منٹ میں ”سانپوں کے شہنشاہ“ کا دیدار کراتا ہوں آپ کہیں جانا مت ؟”

اس کے بعد مداری کہتا ہے کہ میں آپ کو ایک ایسی دوا کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں جس کے کھانے سے آپ کی ”تمام بیماریاں“ ختم ہوجائیں گی لیکن اس کی تفصیل میں تب جاﺅں گا جب ہجوم میں سے بچوں کو باہر نکال دیا جائے گا بچوں کی”شامت“ آ جاتی ہے کوئی چھپ جاتا ہے اور کوئی بھا گ جانے میں عافیت سمجھتا ہے۔ مداری تماشائیوں کو ایک نئی ”کستوری“ کی آفر میں مگن کر کے بڑی صفائی سے”بچے جمورے” کے ذریعے پیسے زمین سے اٹھواتا ہے اور جیب میں ڈال کر چلتا بنتا ہے اور ”سانپوں کے شہنشاہ“ کے دیدار کا قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔ شروع شروع میں تو مداری ”سانپوں کے شہنشاہ“ کا دیدار کرائے بغیر ہی چلا جاتا لیکن ایک بار ہم تین چار دوستوں نے مداری کو گاﺅں سے باہر جاکر پکڑ لیا اور ضد کی کہ آج ہمیں ”سانپوں کے شہنشاہ“ کا دیدار کروا کر ہی جاﺅ؟ مداری نے موڈ دیکھ کر خود ”تماشا” بننے کے بجائے بڑی بیچارگی کے ساتھ اپنی پٹاری کھولی اور کہاکہ بھائی صاحب اس میں اگر کچھ ہوتا تو میں آپ کو وہیں نہ دکھا دیتا یہ پٹاری تو ہماری روزی کا وسیلہ ہے بس۔ اس دن کے بعد ہماری نظر میں”مداریوں” کی قدرومنزلت بڑھ گئی کہ یہ بے چارے بڑے”سادہ لوح“ انسان ہوتے ہیں اب بھی کہیں”انسانوں کا ہجوم” نظر آتا ہے تو دل بہت چاہتا ہے کہ”تماشا“ ہی دیکھ لیں مداری کے جیب صاف کرانے کے نئے طریقے ہی سمجھ لیں لیکن دل سے آواز اٹھتی ہے کہ یارچھوڑو ان کویہ تو لوگوں کو”خوش نصیبی“ کا پروانہ دیتے ہیں ویسے بھی ایک بار پٹاری کا نظارہ کر کے کیا ہاتھ آیا تھا ؟

یہ کہانی تو تھی ایک گاﺅں کے مداری کی جس کو بھی بہت کم لوگ سمجھ سکتے تھے اب آپ بڑے شہر کے ”مداری“ دیکھیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ خود ”تماشا” بن جائیں لیکن ان کے ”کرتبوں” کو نہ سمجھ پائیں کیونکہ بڑے شہروں میں ”ہجوم” بھی بڑا ہوتا اور ”مداری”کا دماغ بھی بڑا۔ گاﺅں کے مداری تو بیچارے سانپ کی خالی پٹاری کے ساتھ ہی پانچ روپے لکیر سے آگے پھینکوا لیتے تھے اور شہر کے”مداری” تو اپنی”کرامات“ سے ہی خزانے کے ڈھیر لگوا لیتے ہیں اگر آپ آسانی کے ساتھ جیب صاف کرنے کے موڈ میں نہ ہوں تو ان کے پاس”معجزات“ کی بھی کمی نہیں ہوتی اور اس کے باوجود بھی آپ ٹس سے مس نہ ہوں تو پھر آپ سے بڑا ”مداری” بھی کوئی نہیں؟ پتہ نہیں وہ کیسے”حاتم طائی تماشائی“ ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ ”مداری”پر ”قربان” کر دیتے ہیں ہمیں تو زندگی میں صرف ایک بار ہی انگوٹھی لینے والے”خوش نصیبوں”کی صف میں بیٹھایا گیا تھا مداری تو چلا گیا لیکن ہم پانچ روپے جانے کے غم میں اب تک”خوش نصیبی”کی اس ”لکیر“ کو پیٹتے ہیں ۔سنٹرل لند ن میں بھی ایک بار مداری کاتماشا دیکھنے کا’ ’شرف”حاصل ہوالیکن اس کی گیم بڑی فیئر اورکلیئر لگی اس میں”جیب کی صفائی“ اور”کرامات“ والا کوئی ”خصوصی ٹوٹکا“ نہیں تھا۔ ویسے تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم قوم تو بن نہیں سکے صرف ”ہجوم” ہی ہیں ہمارے مجمع میں ایک کے بعد دوسرا نیا ”مداری“ آ جاتا ہے اور”سانپوں کے شہنشاہ” کے دیدار کا مژدہ سناتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے؟ سوچنے والی بات صرف یہ ہے کہ پاکستان میں آج کل پھر”مداریوں“ کا سیزن ہے اور ان کا کاروبار عروج پر ہے لہذٰا مداری گاﺅں کاہویا کینیڈا امریکا اور برطانیہ کا۔ پہلے اس کی ”پٹاری”دیکھیں اور پھر”مداری“؟

ویسے بھی بات اب بھلے وقتوں سے نکل کر مادہ پرستی کے دورمیں داخل ہوچکی ہے اوراب تو گاﺅں میں موٹرکاروں کا مجمع لگ جاتا ہے لیکن کوئی ان کے پاس پھٹکتا تک نہیں۔ انگریزی لباس پہننے اور چہرہ ”بالوں سے صاف“ رکھنے والا ہی معزز سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی چیز کو زوال نہیں آیا تو وہ ہیں ”مداری”جو بن بیٹھے ہیں ا ب قوم کے ”بیوپاری“۔

نوٹ:اس کالم کا کسی بھی “سیاسی مداری ” سے تعلق نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).