منو بھائی ایسا کہاں سے لائیں کے تجھ سا کہیں جسے


معروف صحافی کالم نگار شاعر اور ڈراما نگار منو بھائی نے چھ فروری 1933 کو وزیر آباد میں جنم لیا گورنمنٹ کالج کیملپور موجودہ اٹک سے تعلیم پائی فتح محمد ملک اور شفقت تنویر مرزا ان کے کلاس فیلو تھے ان دنوں کالج کے پرنسپل معروف اسکالر ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور ڈاکٹر محمد عثمان بھی اسی کالج سے وابستہ تھے ان دنوں کالج کے پرنسپل اور طالب علموں کے دوران فاصلے نہیں ہوتے تھے۔ ان طالب علموں اور ڈاکٹر برق کے درمیان ایک علمی روحانی رشثہ استوار ہوا اور۔ یوں اس درسگاہ سے عظیم لکھاری اور صحافیوں نے جنم لیا۔

فتح محمد ملک بتاتے ہیں کہ منو بھائی جب صبح بیدار ہوتے تو کلاس کا وقت ختم ہو چکا ہوتا پھر درس و تدریس کا سلسلہ کالج کنٹین پر شروع ہوتا۔ امتحانات کے دنوں میں دقت ہوتی کمرہ امتحان میں سگریٹ نوشی کی ممانعت ہوتی نہ ہی طالب علم آدھے وقت سے پہلے رخصت ہوسکتا ایسے میں منو بھائی پیپر شیٹ پر ڈرامہ تحریر کر لیتے۔ منو بھائی کہتے ہیں کہ کوچہ صحافت میں وارد ہوتے وقت احمد ندیم قاسمی کی نصیحت عمر بھر یاد رکھی کہ صحافت میں کامیابی کے لئے پوٹہ چھوٹا رکھنا منو بھائی گزشتہ 60 سال سے گریبان کے نام سے کالم لکھتے رہے۔ منو بھائی نے صحافت کا آغاز راولپنڈی سے شائع ہونے والے روزنامے تعمیر سے کیا بعد میں فتح محمد ملک اور شفقت تنویر مرزا بھی اسی اخبار سے وابستہ ہوگئے

فتح محمد ملک بتاتے ہیں کہ منو بھائی بشیر اسلام عثمانی ایڈیٹر تعمیر اخبار کے اخبار کے مالک کے مابین اختلاف کے باعث منو بھائی اور عثمانی صاحب دونوں استعفیٰ دے کر اخبار سے علیحدہ ہو گئے۔ بےروزگاری کے باعث نوبت فاقہ کشی تک آن پہنچی بھلا ہو ریڈیو پاکستان کا جس نے منو بھائی اور فتح محمد ملک کو اسکرپٹ رائٹنگ کا کام دیا جنرل ضیاء کے مارشل لاء میں حکمرانوں کی کاسہ لیسی سے انکار کیا۔ لہزا امروز اخبار میں ان کا تبادلہ لاھور سے ملتان کردیا گیا۔ جب بڑے صحافی پلاٹ مراعات اور بچوں کی نوکریاں حکمرانوں سے وصول کر رھے تھے منو بھائی جنوں کی حکایت لکھتے رھے لیکن قلم کی حرمت پر سمجھوتا نہ کیا

آخر دم تک وہ لاہور میں سات مرلے کے گھر میں رھائش پذیر رہے اور منو بھائی کے بقول ان کا ساٹھ سال سے شائع ہونے والے کالم گرہبان اخبار کے نچلے حصے میں شا ئع ہونے پر انہوں نے اخبار کے مالک کو یہ مشورہ دیا کہ برائے مہربانی کالم کا نام گریبان کے بجائے پائنچہ رکھ دیا جائے۔ منو بھائی صحافت کے ساتھ ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ تھلیسمیا کے مریضوں کے لئے سندس فاؤنڈیشن کے نام سے اپنا آپ وقف کردیا۔ آج ہمارے درمیان ایک ایسا صحافی شاعر اور ادیب چل بسا جو حکومت سے پلاٹ مراعات نوکریاں اور فنڈز لینے کے بجائے دکھی انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتا تھا۔ رب کریم منو بھائی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).