انصاف پسند کافر ریاست بمقابلہ نا انصاف اسلامی جمہوریہ


امریکی ریاست ٹیکساس
اس کا نام کارلا فے ٹکر تھا۔ بارہ سال کی عمر سے ہی وہ منشیات کا استعمال کرتے کرتے اخلاقی حدود پار کر چکی تھی۔ اپنے ہی جیسے منشیات کے عادی لوگوں میں سے اس نے ایک کو جیون ساتھی بنایا اور اپنے اس ہی ہمسفر کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے گاڑی چھینتے ہوئے دو قتل کر بیٹھی۔ اس وقت وہ بمشکل چوبیس سال کی تھی اور دونوں قتل اس نے شدید جنون کی کیفیت میں کدال سے کیے۔ اسے جیل بھیجا گیا۔ ایک دن اس نے جیل کی لائیبریری میں موجود بائبل کا مطالعہ کیا اور بقول کارلا ”میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کونسی کتاب ہے مگر جوں جوں میں پڑھتی گئی کچھ ہی دیر میں میں اپنے گھٹنوں پہ گری خداوند کریم سے معافی مانگ رہی تھی۔ “

کارلا کے دل کی دنیا بدل گئی۔ اس نے خود کو دینداری میں مصروف کر لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے نشے کی حالت میں قتل کیے۔ اگر میں اس وقت نشے میں نہ ہوتی تو شاید قتل بھی نہ ہوتے۔ کارلا کے مذہبی اور اخلاقی روپ نے جیل کے عملے کو بھی اس کی خاموش حمایت پر مجبور کر دیا۔ عوام کی ایک بہت بڑی تحریک چلی جس میں اپیل کی گئی کہ کارلا کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا جائے جسے بین الاقوامی حمایت حاصل تھی۔ پاپ جان پال دوئم، ورلڈ کاونسل آف چرچز، اسوقت کے اٹلی کے وزیراعظم، امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر اور اقوام متحدہ کے نمائندگان نے گورنر ٹیکساس سے رحم کی اپیل پر غور کرنے کی سفارش کی مگر گورنر نے قانون کو جذباتیت پر ترجیح دی اور مقتولین کے ورثاء کو انصاف دیا۔ جانتے ہیں وہ گورنر کون تھا؟ جارج ڈبلیو بش جو بعد میں امریکا کا صدر بنا۔ ٹیکساس کی 135 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کو موت کی سزا دی گئی۔ 38 سالہ کارلا کو زہریلا انجیکشن دیا گیا۔ اس کی موت کے چند روز بعد ہی زندان کے انچارج فریڈ ایلن نے استعفی دے دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں ساری زندگی سزائے موت کے حق میں تھا مگر کارلا کا انجام دیکھ کر میں خود اندر سے ٹوٹ گیا۔ کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کی جان لینے کا کوئی حق نہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان
ولی خان بابر ایک اٹھائیس سالہ پختون نوجوان جس نے کراچی یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹرز کیا۔ اسے کراچی کی ایک مصروف سڑک پر تھانے کے قریب قتل کر دیا گیا۔ اس کے قاتل آج تک نا معلوم ہیں۔ صرف وہ ہی نہیں، اس کے قتل کے پانچوں چشم دید گواہوں کو یکے بعد دیگرے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کا خاندان کراچی چھوڑ گیا۔

صوابی سے تعلق رکھنے والا مشال خان۔ ایک جدت پسند اور باشعور انسان۔ شاید اس کے والدین اسے انجینئر بنانا چاہتے ہوں مگر وہ صحافی بننا چاہتا تھا۔ جاہل اور ظالم معاشرے نے اس کی آنکھوں کے خواب اس کی زندگی کے ساتھ چھین لیے۔ اس کے کسی قاتل کو تقریبا ایک سال بعد بھی سزا نہیں ملی بلکہ شاید قاتلوں کا تعین بھی نہ ہو سکا لیکن ہاں! اب سے یقینا اس کے بوڑھے باپ پر ایجنٹ ہونے کا داغ لگ جائے کیونکہ انہیں ایک مغربی ملک سے کسی فکری نسشت کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔

نقیب محسود۔ میں نے آج تک کسی قبائلی کو اتنا اسٹائلش نہیں دیکھا۔ اس کی تصاویر واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وزیرستان کا حسین نوجوان نقیب اللہ محسود ایک باذوق انسان تھا جو اپنے علاقے کا واقعی ایک سافٹ امیج تھا۔ مگر روشنیوں کے شہر کا ایک درندہ یہ برداشت نہ کر پایا اور ایک جعلی پولیس مقابلے میں اس قبائلی ہیرو کو مار ڈالا۔ ولی خان، مشال خان اور نقیب محسود پختونوں کا وہ ابھرتا ہوا امیج تھے جن پر ظلم کی سیاہی مل دی گئی۔ وہ اپنی قوم کے ستارے بن کر کسی زمانے سے چلتا آ رہا ”پٹھان آر وار لائک پیپل“ کا تاثر بدل سکتے تھے مگر انہیں موقع ہی نہ ملا۔

نقیب اکلوتا شکار نہیں۔ بے شمار پختون اور بلوچ نوجوان ایسے ہی خانہ پری کا نشانہ بن کر قاری، ملا، مولانا ہو جاتے ہیں اور اگر نشانہ اردو اسپیکنگ ہو تو وہ تو را کا ایجنٹ ہندوستانی ہی ہو گا۔ مرنے والے کے بارے فائل اس لئے بند ہو جاتی ہے کہ وہ طالبان کا ساتھی ہوتا ہے مگر دوسری طرف خود طالبان مری میں آکر مذاکرات کر کے چلے جائیں تو اس کا کوئی غم نہیں۔ کسے لگتا ہے کہ نقیب اللہ کے قاتلوں کو سزا ہوگی؟ یہ نظام سزا دے ہی نہیں سکتا جس نے ریمنڈ ڈیوس اور شاہ رخ جتوئی جیسے ثابت شدہ کیس میں سزا نہ دی۔

بہت سے قارئین یہ اعتراض اٹھائیں گے کہ جارج بش تو لاکھوں لوگوں کا قاتل ہے؟ بہت سے کہیں گے کہ شاہزیب کے تو خاندان والے دیت لے کر چل پڑے۔ میرا ایک سوال ہے کہ کیا جارج بش نے امریکی سرزمین پہ قانون کی پاسداری کی یا نہیں؟ امریکہ کے عوام کی زندگی کے لئے اقدامات کیے یا نہیں۔ دیت دلوانے والے ہمارے ہی معاشرے کے ناسور ہیں یا نہیں؟ قاتلوں کو باہر ملک فرار کروانے میں ہمارے ہی عہدیدار شامل ہوتے ہیں یا نہیں؟ کیا ریمنڈ ڈیوس کی طرح ہمارے ملک کا سفارتکار وہاں دو بندے مار کر قانون کا سامنا کیے بغیر چپکے سے واپس وطن آسکتا ہے؟ آپ ایک کتا مار کر امریکا سے بھاگ نہیں سکتے وہ آپ کے بندے مار کر چلے گئے۔ کیسے؟ کیونکہ ہم نا انصاف قوم ہیں۔ ایک بے قصور رانی بی بی اپنی زندگی کے انیس سال جیل میں نکال چکی تو نظام انصاف نے اظہار افسوس کیا۔ نہ اس کے انیس سال واپس کیے اور نہ ہی اس کا باپ جو جیل میں ہی وفات پا چکا تھا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول سچ ثابت ہوتا ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ اور ہمارے ملک میں تو ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ اب بربادی ہی مقدر ہے۔ کافر اپنی زمین پر انصاف فراہم کر کے خوشحال یے جبکہ ہم اہل ایمان ظلم کے ساتھ کھڑے ہیں اسی لیے برباد اور بد حال ہیں۔ انصاف کی فراہمی کے لئے ایک عیسائی، پاپائے اعظم کی سفارش کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ذرا اپنا حال سوچیں کہ اگر یہاں صدر مملکت کو امام کعبہ کوئی اپیل کریں تو کیا وہ اپنے ملک کے قانون کوترجیح دیں گے یا سفارش کو قبولیت کا شرف عطا کریں گے؟

انصاف کی عدم فراہمی ہی معاشرے میں بے چینی اور شورش کو جنم دیتی ہے۔ آج جو نا انصافی کے بیج ہم نے بو دیے ہیں بہت جلد وہ ظلم کی کھیتی بنکر نکلیں گے اور پھر ہم مغرب، کفار، عالمی سازش اور مشرقی پڑوسی کا رونا روئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).