سیاستدان یا پورس کے ہاتھی


عمران خان کے اقتدار حاصل کرنے کے امکانات جونہی روشن ہوتے ہیں تو وہ ضرور کوئی ایسی حرکت کربیٹھتے ہیں کہ امیدیں دم توڑ جاتی ہیں اور معاشرے کے فعال طبقات ان سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ لاہور کے جلسے میں انہوں نے پارلیمنٹ پر نہ صرف غصہ نکلابلکہ اس پرمقرر لعنت بھی بھیجی۔ عذرگناہ بدتر ازگناہ کے مصداق بعد میں موصوف نہ صرف اپنی غلطی پر ڈٹ گئے بلکہ کہتے ہیں کہ لعنت تو پارلیمنٹ کے لیے معمولی لفظ ہے۔ صاحب طرزکالم نگار ہارون الرشید کے بقول فقط غلطی انسان اور قوموں کو تباہ نہیں کرتی بلکہ اس پر اصرار۔

پارلیمنٹ کسی بھی ریاست کا سب سے مقدس ادارہ اور اقتدار اعلیٰ کی علامت ہوتا ہے۔ کروڑوں عوام حق رائے دہی استعمال کرکے اپنے نمائندے وہاں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ملک کی زمام کار سنبھالیں اور قانون سازی کریں۔ پارلیمنٹ پر لعنت کا مطلب ہے کہ آپ جمہوری نظام کے انکاری ہیں۔ آپ کو ووٹروں کی دانش پر اعتماد نہیں اور آپ اقتدار کی راہداریوں تک رسائی کے لیے چور دروازے تلاش کرر ہے ہیں یاپھرآپ انقلابی ہی۔ جمہوری نظام ہی کو ڈس کریڈٹ کرکے شہریوں کو یقین دلار ہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں چور چکے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو جمہوریت مخالف عناصر گزشتہ ستر برسوں سے لوگ کو ازبر کراتے آئے ہیں۔ مسلسل پروپیگنڈے سے سیاستدانوں کا چہرہ بری طرح مسخ کردیاگیا ہے۔ حال یہ ہے کہ جب بھی جمہوریت پر شب خوں ماراجاتا ہے تو لوگ سیاستدانوں کی بداعمالیوں کو یاد کرتے ہیں اور آمروں کی آمد پر مٹھائی بانٹھ کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔

عمران خان نے اپنی سیاست اور ریاضت سے پاکستانیوں کی ایک بہت تعداد کے دلوں میں گھر کیا۔ کسی زمانے میں وہ ششتہ زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ سیاست میں وہ جب نو وارد تھے انہوں نے اپنا سیاسی ویژن سمجھانے کی خاطر بہت اعلیٰ پائے مضامین بھی لکھے اور ٹی وی چینلز پر بڑے مدلل انداز سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ ان کے موجودہ حامیوں کی ایک بڑی تعداد ان سے متاثر ہوئی۔
معلوم نہیں کس سیاسی پنڈت نے انہیں مشورہ دیا کہ اب وہ گفتگو سے قبل یہ یقینی بناتے ہیں کہ تیوری چڑھی ہو۔ منہ سے جاگ نکل رہی ہو تاکہ وہ آسانی سے مخالفیں کے لتے لے سکیں۔ شیخ رشید کی طرح کے تانگہ پارٹی کے سربراہ کو یہ انداز گفتگو زیب دیتا ہے کیونکہ ان کے ہاتھ ایک آدھ وہ بھی ادھار کی نشست کے اور کیا ہے۔ ان کے دامن میں بدزبانی اور دوغلہ پن کے سوا کچھ نہیں۔ وہ عمران خان کے ساتھ اس لیے نہیں کھڑے کہ وہ تبدیلی کے لیے ہلکان ہور ہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شریف برداران نے ان کی معافی قبول نہیں۔ بصورت دیگر آج وہ جاتی امرا کے ترجمان ہوتے۔ آج بھی وہ دن بھولتے نہیں کہ لال مسجد پر آتش وآہن کی بارش ہورہی تھی اور شیخ رشید ٹی وی چینلز پر پرویز مشرف کی وکالت کرتے نہیں تھکتے تھے۔ ان کا ضمیر ان کے مفاد کے مطابق جاگتا اور سوتا ہے۔

عمران خان کی طرح جو سیاستدان ملک کا اگلا وزیراعظم بننے کا امید وار ہو اسے سنجیدہ فکر ہوناچاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی جلسوں میں مخالفین بارے میں لوز ٹاک کیا کرتے ہیں لیکن ہر روز اوربلاناغہ نہیں۔ سیاسی حکمت عملی کے نقطہ نظر سے ایک حد تک عمران خان کا جغاداری سیاستدانوں کو للکارنا ٹھیک بھی تھا کہ اس طرح ان کی شہریوں پر قائم ہیبت ٹوٹی۔ لوگ بے باک ہوگئے۔ عوامی نمائندوں سے وہ احتساب اور حساب کتاب کا مطالبہ کرنے لگے لیکن عوام کو بلکل ہی پٹری سے اتاردینا اور پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنا سیدھا سیدھا اپنے پاؤں پر کھلاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

نوازشریف بھی عدلیہ کے زخم خوردہ ہیں۔ جاتی امرا میں ماتم کی کیفیت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ وہ او رمریم نوازشریف مسلسل عدلیہ کو کوستے ہیں۔ اسے سازشوں کا گڑھ قراردیتے ہیں۔ موقع ملتا ہے تو عسکری اداروں کو دبے لفظوں میں رگیدتے ہیں۔ اسے جمہوریت کا دشمن قراردیتے اور پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے خلاف بالخصوص نوازشریف کے خلاف سازشوں کا مرتکب گردانتے ہیں۔ انہیں یہ باریک نکتہ سمجھ نہیں آرہا کہ کوئی بھی پارٹی یا سیاستدان اپنی ملک کے دفاعی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف الیکشن مہم چلا کر ایوان اقتدار تک رسائی نہیں پاسکتا۔ نون لیگ کی سیاست کی بنیاد پنجاب سے اٹھی ہے۔ چار دریاؤں کی اس سرزمین سے عساکر پاکستان کی اکثریت کا تعلق ہے۔ پنجاب میں فوج ولن نہیں، ہیرو ہے۔ لوگ اس کے مخالفین کو ووٹ نہیں ڈالتے۔ آج کل تو کنٹرول لائن، پاک افغان اور سیالکوٹ کی سرحد سے ہر روز فوجی جوان کفن میں لپٹے گاؤں لوٹے ہیں تو پورا علاقہ ان کا استقبال کرتا ہے اور ملک سوگ میں ڈوب جاتا ہے۔

الیکشن کا معرکہ درپیش ہے۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ اسے ملکی اداروں کی حمایت حاصل ہو یا کم ازکم یہ تاثر قائم ہوکہ قومی سلامتی سے متعلقہ ادارے اس کی پشت پناہی کرر ہے ہیں۔ غالباً اسی لیے تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی والے نون لیگ اوربالخصوص نوازشریف کوافواج پاکستان کے مخالف اور بھارت کے حمایتی کے طور پر مخاطب کرتے ہیں تاکہ پنجاب میں ان کی حمایت کا گراف کم کیا جاسکے اور قومی اداروں کو نون لیگ کے خلاف متحرک کیاجاسکے۔ افسوس! نوازشریف اپنے مخالفین کے بچھائے ہوئے جال میں آگئے۔ انہوں نے عدلیہ کو اس قدر ہراساں کیا ہے کہ چیف جسٹس کوصفائیاں دینا پڑھ گئی۔ لوگوں سے درخواستیں کرتے ہیں کہ بابائے رحمتے پر اعتماد کریں۔ وہ کسی کے دباؤ میں ہے اور نہ کسی سیاستدان کے خلاف ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ چیف جسٹس کی حالیہ تقاریر کے سرسری جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت عظمی کو بھی خوف ہے کہ الیکشن کی سیاست اور اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی خاظر نون لیگ عدلیہ کا بھٹہ بٹھا دے گی۔ اگر ایک دفعہ عدلیہ سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو اس ادارے کا حال بھی پارلیمنٹ جیسا ہوجائے گاتو پھر امید کا آخر ی چراغ بھی گل ہوجائے گا۔

الیکشن کمیشن کو بھی سیاستدانوں نے بری طرح ڈس کریڈٹ کیا۔ گزشتہ عام الیکشن کے بعد آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن کے خوب بھد اڑائی۔ بعدازاں اس کار خیر میں عمران خان تحریک انصاف کے ہمراہ پورے جوش وخروش سے جت گئے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو دھاندلی اور تحریک انصاف کے خلاف سازش کا مرتکب قراردیا۔ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان کافی دیر تک رسا کشی چلتی رہی۔

اداروں اور مخالف سیاستدانوں کی تذلیل کا جو سلسلہ عمران خان نے شروع کیا تھا اسے خادم حسین رضوی اپنے شیریں کلامی سے بام عروج تک پہنچایا۔ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران انہوں نے اپنے مخالفین اور خاص طور پر حکمران نون لیگ کے بعض لیڈروں کے نام لے لے کر ایسی ہرزہ سرائی کی کہ شرفا کے لیے ٹی وی دیکھنا محال ہوگیا۔

قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں ملک بھر میں بدتمیزی کا ایک طوفان اٹھنے کو ہے۔ سیاست میں شائستگی کا زمانہ لد گیا۔ اب جو جس قدر زیادہ بدتمیزی کرتا اور گالی دیتا ہے وہ پارٹیوں اور لیڈرشپ کے سامنے زیادہ معتبراور وفادار ہے۔ ٹی وی چینلز بھی اسی کو مدعو کرتے ہیں۔ انہیں بھی ریٹنگ درکار ہوتی ہے۔ ریٹنگ اشتہارات میں اضافہ کے لیے درکار ہے۔ تو صاحبو! اگلے آٹھ دس ماہ تک کانوں میں انگلیاں ٹھونس لو اور آنکھوں پر پٹی چڑھالو اگر اس ماحول سے بچنا چاہتے ہو تو۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood