جب لاہور میں انگریز آیا


وقت راوی کی طرح گزرتا رہا۔ یوں تو بہت سی بیرونی قومیں لاہور میں وارد ہوئیں اور پھر یہیں کی ہو رہیں مگر اب کچھ اور زمانہ تھا۔ انگریز اپنے ساتھ ایک نظام لائے تھے۔ عام لوگوں نے کوئی سو برس بعد سکھ کا سانس لیا۔ ڈاک خانہ، تھانہ اور عدالتیں قائم ہونے سے لوگوں کو امید کی کرن نظر آنے لگی۔

ابتدا میں انگریزی فوج قلعے اور حضوری باغ میں آئی۔ قلعے کی مرمت کی گئی۔ قلعے میں داخل ہوتے ہی لکڑی کا ایک پل نظر آتا ہے جو دیوان خاص کو پرانے باورچی خانے سے ملاتا ہے۔ یہ پل انگریزوں نے بنوایا تھا۔ بہت سے کمروں میں سفیدی پھیر دی گئی جس سے دیواروں پر بنی مغل اور سکھ دور کی قیمتی تصویریں چونے کی تہہ میں چھپ گئیں۔ شہر کے گرد خندق بند کر کے یہاں کمپنی باغ بنا دیا گیا۔ جلد ہی انگریزوں کو پتا چل گیا کہ قلعے میں فوج رکھنا مناسب نہیں ۔ سو پہلے انارکلی میں چھاﺅنی بنائی گئی اسے صدر بازار کا نام دیا گیا ۔ گول باغ بھی ان دنوں گورا باغ کہلاتا تھا۔ اس زمانے میں ہورٹی کلچرل سوسائٹی قائم ہوئی جس نے بعد ازاں لارنس باغ بنایا اور پھر چڑیا گھر بنانے میں بھی مدد دی۔

چھاﺅنی شہر سے باہر میاں میر کے علاقے میں منتقل ہو گئی۔ بادشاہی مسجد مسلمانوں کو واپس مل گئی اور قلعے میں لاہور سیکرٹریٹ قائم ہو گیا۔ قلعہ بندیوں کا دور ختم ہو رہا تھا ۔ اب چھاﺅنیاں کھلے علاقوں میں قائم ہونے لگیں جہاں زیادہ فوجی اور زیادہ جنگی سامان رکھا جا سکتا تھا ور جہاں سے نکل بھاگنا بھی آسان تھا۔

لاہور میں بہت سی تبدیلیاں انگریزوں کے آمد کے ساتھ ہی آنے لگی تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ شہر کی فصیل کا مقصد ختم ہو گیا۔ نئی آبادیاں شہر سے باہر بسائی جانے لگیں ۔ یوں تو مغل عہد میں بھی لاہور فصیل سے باہر دور دور تک پھیلا ہوا تھا ۔ نولکھا سے لے کر باغبانپورہ تک اور دوسری طرف داتا صاحب سے لے کر چوبرجی اور نواں کوٹ تک لیکن بدانتظامی، جنگوں اور ڈاکوﺅں کے ہاتھوں یہ علاقے بار بار برباد ہوتے رہے۔ خاس طور پر نولکھے کا علاقہ تو کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا تھا۔ سکھوں کے دور میں اور پھر انگریزوں کے ابتدائی زمانے میں لوگ یہاں سے اینٹیں نکال نکال کر بیچتے رہے۔ اب بھی پرانے لاہور میں اور نئی تعمیر ہونے والی کوٹھیوں میں مغل اور نانک شاہی اینٹ صاف دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کہیں تو پرانے پتھروں کے بریکٹ اور فرش بھی نظر آ جاتے ہیں۔ انگریزوں نے شہر سے باہر نئی سڑکیں بنائیں۔ بھاٹی کے سامنے لوئر مال، لوہاری کے سامنے انارکلی، شاہ عالمی کے سامنے بانسانوالہ بازار ، موچی دروازے کے سامنے گھاٹی اترتے ہی فلیمنگ روڈ اور دلی دروازے کے سامنے لنڈا بازار ۔

لوئر مال، انارکلی، مال روڈ اور میکلوڈ روڈ کو ڈونلڈ ٹاﺅن کا نیا نام دیا گیا۔ ڈونلڈ میکلوڈ 1865 ءسے 1870ءتک پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر رہا۔ گورنر ہاﺅس بھی میکلوڈ روڈ پر تھا۔ ڈونلڈ ٹاﺅن میں بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ لمبے عرصے تک جاری رہا۔ لیڈی میکلیگن سکول 1859ءمیں قائم ہوا۔ ٹولنٹن مارکیٹ کو یہ نام بعد میں دیا گیا۔ ابتدا میں تو یہ عمارت 1864ءمیں بین الاقوامی نمائش کے لیے Exhibition Hall کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس سڑک کو بھی نمائش روڈ کہا جاتا تھا۔ اس نمائش کی خبریں یورپ کے اخبارات میں نکلیں تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے بھی ہم کس قدر ترقی یافتہ تھے اور بہت معیاری دست کاریاں اور صنعتی اشیا بناتے تھے۔ آگرہ بینک کے نام سے لاہور کا سب سے پہلا بینک پرانی انار کلی سے سیکرٹریٹ کی طرف جاتے ہوئے نکڑ پر قائم ہوا ۔ یہ سڑک بینک روڈ کہلانے لگی۔ یہاں میرے ہم جماعت سعادت اللہ خان آئی جی پولیس بھی بیٹھتے رہے۔ منٹگمری ہال اور لارنس ہال بھی ابتدائی زمانے کی عمارتیں ہیں۔ یہ سب عمارتیں پرانی چھوٹی اینٹ اور چونے سے بنائی گئی ہیں۔ ابھی انگریزی اینٹ یہاں نہیں پہنچی تھی۔ پھر قدیم یونانی اور رومی طرز کے لمبے ستون متعارف کرائے گئے۔ خاص طور پر لیڈی میکلیگن سکول بہت ہی خوبصورت ہے۔ اسے محفوظ رکھنا چاہیے۔ ٹولنٹن مارکیٹ بھی قومی ورثہ ہے جسے بچانے کے لیے صدر پاکستان کو خصوصی حکم دینا پڑا تھا۔

نئے لاہور میں ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ فصیل سے باہر زمیں کے وسیع قطعات موجود تھے۔ ماضی میں مکان چھوٹے اور کئی منزلہ ہوتے تھے۔ اب وسیع رقبے پر بڑی بڑی کوٹھیاں بننے لگیں۔ صحن گھر کے اندر ہوا کرتے تھے لیکن اب گھر سے باہر باغ لگانے کا رواج شروع ہوا۔ انگریزوں کے آتے ہی ریل گاڑی بھی یہاں پہنچ گئی۔ لاہور کے پہلے اخبار کوہ نور کی اشاعت شروع ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).