اقبال لالا کا باچا خان لیکچر


 لندن میں واقع مشہور درسگاہ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز پاکستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق موضوعات پر تقریبات کا اہم گڑھ ہے۔ پچھلے سال مارچ کے مہینے میں بھگت سنگھ کے حوالے سے ایک بہت پرجوش پروگرام منعقد ہوا اور ابھی 20 جنوری کو سالانہ باچا خان لیکچر کے سلسلے میں مشال خان شہید کے والد اقبال لالا کو پاکستان سے خصوصی دعوت پر مدعو کیا گیا تھا۔ ان دو شہیدوں کا تقابلی جائزہ لوں تو مجھے جان سٹورٹ مل کی لبرٹی نامی کتاب کا ایک اہم نکتہ یاد آجاتا ہے – وہ کہتا ہے کہ جو شخص ظالم و جابر حکومت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے لوگ اس کو ہیرو مانتے ہیں اور بہادر شخص کہہ کے اس پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں – لیکن جو شخص ظالم اور جابر سماج کے خلاف بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کرتا ہے اسے سماج گمراہ اور بدذات کہہ کے دھتکار دیتا ہے .

جان سٹورٹ مل نے ہمیں بتایا کہ سماجی رویوں کے خلاف آواز اٹھانے والے بہت بڑے ہیرو ہوتے ہیں۔ بھگت سنگھ نے غیرملکی حکمرانوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کی اور اسے ہیرو کا درجہ ملنے میں کوئی دقت نہ پیش آئی – مشال خان سماجی رویوں کا نشانہ بنا تھا – اس کے ہیرو بننے میں بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مشال کے بہیمانہ قتل کے بعد کافی دیر انتہائی تکلیف دہ خاموشی سے مشال کا ایک مشہور میگزین کا اہم ترین شخصیت کا اعزاز حاصل کرنے کے سفر میں مشال کے والد اقبال صاحب کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ایک ایسا غم جو شاید پہاڑ کو چکنا چور کردے اقبال صاحب کے حوصلے کو پست نہ کرسکا – ساری دنیا نے اس سادہ لوح اور فقیر منش شخص کو انتہائی دانائی اور عالمگیر محبت کی باتیں کرتےسنا اور نتیجتا َآہستہ آہستہ مشال خان کے ساتھ ہونے والے مظالم پر سے پردہ ہٹ گیا اور ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔

لندن میں ہونے والی تقریب میں حال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اقبال لالا نے اپنی تقریر اردو میں کی اور بیچ میں پشتو کے اشعار بھی سنائے – حاضرین کی ایک بڑی تعداد شاید صرف انگریزی زبان کو جانتی تھی – لیکن جب سلسلہ دلوں کی محبت کا ہو تو زبان کی رکاوٹیں ہیچ ثابت ہوتی ہیں – اقبال صاحب کو سامعین کی طرف سے مکمل داد ملتی رہی۔ اقبال صاحب کی خصوصی تقریر سے پہلے تقریب سے ضیاء الدین یوسف زئی (ملالہ یوسف زئی کے والد) اور باچا خان پر پی ایچ دی کرنے والی ڈاکٹر مکلیکا بینرجی نے بھی خطاب کیا –

تقریر کے اختمام پر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو سامعین کی بیتابی دیدنی تھی – سوالوں کا محور پاکستان میں مخدوش حالات اور بنیادی حقوق کا مستقبل تھا– نوجوان اور پرجوش طلبا و طالبات بلاسفیمی کے الزامات سے متاثرہ پاکستانیوں سے متعلق اپنے خدشات سے آگاہ کرکے اقبال صاحب سے جاننا چاہتے تھے کہ کیا ان کو انصاف ملنے کی امید ہے – کچھ حاضرین مشال کے قتل میں سیکولر سیاسی جماعتوں کے کردار پر دکھی تھے۔ ان انتہائی مشکل سوالات کا اقبال لالا نے بہت تحمل کے ساتھ جواب دیا اور اپنی ایک پشتو نظم بھی سنائی جس میں اقبال صاحب بلبل سے مخاطب ہوکے تاکید کر رہے ہیں کہ چمن کو چھوڑ کے نہ جائے کہ بہار جلد لوٹ کے آنے والی ہے۔ اقبال صاحب گویا فیض احمد فیض کی طرح تمام اندھیروں میں … “دور اس رات کا دلارا ، درد کا ستارہ۔ ٹمٹما رہا ہے – جھنجھنا رہا ہے – مسکرا رہا ہے ” جیسا امید کا پیغام دے رہے تھے –

کچھ سال پہلے جب صحافی سلیم شہزاد کا قتل ہوا تھا تو میں نے “شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ” عنوان سے اپنی آزردگی قلمبند کی تھی – پھر کچھ عرصے بعد میں نے تین کہانیوں کے عنوان سے تین ایسے اندوہناک قتل کا ذکر کیا تھا جو سماج اور ریاستی اداروں نے کیے تھے۔ جب مشال کا قتل میں نے دیکھا تو روح کانپ اٹھی کہ یہ ایک یونیورسٹی کے اندر ہو رہا ہے – مایوسی کا یہ عالم تھا کہ میں نے مزید لکھنا وقت کا ضیاع سمجھ کر کنارہ کشی اختیار کرلی – اب جب اقبال صاحب کو سنا تو خود کو دو حقیقتوں کے درمیان جھولتا محسوس کیا . ایک طرف مشال کے نام سے اٹھنے والی تحریک ہے – سوشل میڈیا کی بیداری ہے جس نے نقیب خان کے قتل ناحق کو بےنقاب کرکے ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی ایک غریب دیہاتی طبقے سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی زبانی الزامات کی زد میں آکے جیل کی کال کوٹھری میں سزا ۓ موت کی منتظر ہے – بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے انگریزی کے استاد جنید حفیظ نہ صرف پابند سلاسل ہے بلکہ اس کے وکیل کو بھی قتل کردیا گیا تھا – مجھے نہیں معلوم کہ اقبال صاحب جیسے باہمت شخص کی جانب قدم بڑھا کے خود کو روشنی میں منور محسوس کروں یا خادم رضوی جیسے مولویوں کے آگے ریاست کی بےبسی دیکھ کے مایوسی کے گھپ اندھیروں میں ڈوبتا چلا جاؤں- شاید اقبال صاحب کا پیغام شاعر نے یوں بیان کیا تھا –

اک موج مچل جائے تو طوفاں بن جائے

اک پھول اگر چاہے گلستاں بن جائے

اک خون کے قطرے میں ہے تاثیر اتنی

اک قوم کی تاریخ کا عنواں بن جائے

بیشک غم کی شام لمبی ہے مگر ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا چراغ جلا لے تو شاید اندھیرے کا ڈر جاتا رہے گا اور روشن صبح کی جانب سفر جاری رہے گا ۔

ڈاکٹر حیدر شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر حیدر شاہ

مصنف برطانیہ کی ہارٹفورڈ شائر یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور ریشنلسٹ سوسائٹی آف پاکستان کے بانی ہیں۔ ان سے hashah9@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

haider-shah has 14 posts and counting.See all posts by haider-shah