معاشرے کی اصلاح سوشل میڈیا اور انگریزی اخبار تک


صبح سویرے ناشتے کی میز پر میری یونیورسٹی جانے والی بہن نے جب نقیب اللہ کے مبینہ جعلی مقابلے کی خبر پر مجھے دلچسپی لیتے دیکھا تو ایک سوال میری جانب پھینکا۔ کیا زینب کے قاتل مل گئے؟ میں نے نفی میں گردن ہلادی۔ اگلا سوال آیا اور عاصمہ کے؟ میں نے پھر گردن ہلادی۔ پھر اگلا سوال آیا اب تک اتنے لوگ مرگئے جنھیں پولیس مقابلوں میں مارا گیا ان کا حساب دیا گیا جو نقیب کا دیا جائے گا؟ شاید یہ لڑکا ایک وجہ بن جائے اس ظلم کے رکنے کی۔ شاید زینب ایک آواز بن جائے زیادتی کے رکنے کی میں نے دل کو تسلی دینے کے لئے جواب دیا۔

ایسا ہو ہی نہ جائے۔ اب تک جو ہوتا آیا ہے یہی سوچا جاتا رہا شاید ایسا ہوجائے ویسا ہوجائے لیکن ہوا نہیں۔ سبین محمود ماردی گئی، تو کبھی پروین رحمان، پروفیسر شکیل اوج کو قتل کیا گیا تو کبھی نشانہ بنے ڈاکٹروحید الرحمان، کبھی حکیم محمد سعید تو کبھی امجد صابری اور جو بچ گئے انھیں مقابلے میں مارا گیا یا میڈیا کے ذریعے مروادیا گیا۔ میں نے مڑ کر اپنی بہن کی طرف دیکھا تو لہجے میں بہت کڑواہٹ تھی۔ وہ غلط تھوڑی کہہ رہی تھی۔ جو نام اس نے گنوائے وہ تو چند ہیں یہاں تو ایک طویل فہرست ہے کس کس کا نام لیا جائے کس کس سے منہ چھپایا جائے کہ معاف کردو ہم انصاف نہ دلا سکے۔ موضوع بد لا پھر وہ زینب پر آگئی۔ یہ پہلی تو بچی نہیں ہے اس سے پہلے بھی کتنی بچیاں مریں ان کے ساتھ بھی یہ سب ہوا۔

وہ یاد ہے جو ابراہیم حیدری سے گلا کٹی بچی ملی تھی جو زندہ بچ گئی۔ وہ منگھو پیر والی سات سالہ بچی جس کی لاش خالی پلاٹ سے ملی تھی، اور وہ دو بہنیں جو گڈاپ ٹاون کی تھیں۔ اب یہ عاصمہ جو مردان کی کسی غریب گھر کی بچی ہے۔ باجی ایک بات تو بتاو؟ یہ جو ٹویٹر پر ہیش ٹیگ چل رہا ہے یہ قصور کی زینب اور مردان کی عاصمہ کے گھر والوں کو سمجھ آتا ہے؟ یہ جو انگریزی اخبار کے لئے معروف اداکارہ، ماڈل، ڈیزائنر نے جو اپنے اپنے ہراساں کیے جانے کے دکھ لکھے ہیں یہ اخبار گاؤں دیہاتوں میں جاتے ہیں؟ اچھا سب چھوڑو یہ جو سب اسکولوں اور نصاب میں جنسی تعلیم پڑھانے کی بات کر رہے ہیں یہ نافذ ہوگئی تو کون پڑھائے گا؟ بڑے اسکول تو پڑھا دیں گے۔ امیروں کے بچے سیکھ جائیں گے اور یہ متوسط طبقے کے بچے بھی کلاس میں ٹیچر سے کھی کھی کر کے اور سرخ کان ہوتے سن پڑھ لیں گے اور جب اسکول سے باہر یہ بچیاں جائیں گی تو ان ہی کے اسکول کے لڑکے ان پر آوازیں کسیں گے۔

کون پڑھائے گا؟ وہ ٹیچر جس نے اسلامیات میں وہ چیپٹر جس میں لکھا تھا کہ نماز کن حالتوں میں چھوڑی جاسکتی ہے کہا تھا کہ گھر سے پڑھ کر آنا۔ وہ ٹیچر پڑھائیں گی جنھوں نے بچیوں کو بھری کلاس کے سامنے یہ کہہ کر بھی ذلیل کیا ہوا ہے سب جانتی ہوں آجکل پڑھنے میں دل کیوں نہیں لگ رہا۔ یہ جو اتنے بال سنوار کر آتی ہو لڑکوں کو دکھانے کے لئے ہیں یہ سارے بناؤ سنگھار۔ یا وہ معلم پڑھائے گا جو لڑکیوں کو مارنے کے بہانے چھوتا ہے یا ذومعنی گفتگو کرتا ہے؟ چلو سب نے پڑھ لیا تو یہ غریب بچوں کو کون پڑھائے گا؟ جو سرکاری اسکولوں میں دھکے کھاتے ہیں جہاں عمارت ہے تو استاد نہیں۔ استاد ہو تو اس کا پڑھانے کا طریقہ درست نہیں اور اگر یہ دونوں ہو تو اس کے پڑھانے اور تعلیم کے معیار پر کسی کی نظر نہیں۔ سب چھوڑو یہ جو گھر کام کرنے والی آتی ہے اور اس کیجو تین کم عمر بچیاں ہیں انھیں یہ تعلیم دی جائے گی؟ انھیں بتایا جائے گا کہ بچیوں کی پرائیویسی کیا ہوتی ہے جب وہ بڑی ہورہی ہوں تو ان میں ہونے والی تبدیلیوں کا احساس کرنا ضروری ہے یہ انھیں بتایا جائے گا جو خو د ایک کمرے کے مکان میں اپنے ساس سسر، شوہر، دیور اور بچوں کے ساتھ رہتی ہے؟ انھیں یہ آرٹیکل، فیس بک اور ٹویٹر پر چلنے والی مہم، ہیش ٹیگ اور انگریزی اخبار کے پرنٹ کب دینے ہیں؟ بتائے گا، میں خود دے آوں گی۔

آٹھ بج گئے وہ یونیورسٹی اور میں آفس کے لئے نکل گئی راستے بھر سوچتی رہی وہ صحیح کہہ رہی ہے۔ مجھے ماضی کی بہت سی باتیں یاد آنے لگیں۔ آج سے کئی برس قبل میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ انھیں چھوٹی بہن نے بتایا ہے کہ ان کے اسکول میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی جو سینٹری نیپکن بنانے کی مشہوری رکھتی ہے آگہی مہم کے لئے اسکول آرہی ہے اور میری بہن اس سیشن میں نہیں بیٹھنا چاہتی کیونکہ اس کو ل میں مخلوط نظام تعلیم ہے۔ میں نے اپنی بہن کے ممکنہ خدشات کو سمجھتے ہوئے اسکول کے پرنسپل سے ملنے کا سوچا۔ ملاقات ہوئی تو ان سے پوچھا کہ کیا یہ آگاہی مہم اسکول ٹائمنگ میں ہوگی؟ ان کا جواب تھا جی ہاں۔ میں نے ان سے کہا آپ یہ ضرور کیجئے لیکن اس کا وقت اسکول کے بعد مقرر کرلیں۔ کیونکہ بچیوں کو یہ خدشہ ہے کہ لڑکے ان کا مذاق بنائیں گے۔

لیکن انھیں میرا مشورہ پسند نہیں آیا ان کو یہ محسوس ہوا کہ میں فرسودہ خیالات کی مالک ہوں اور اس مہم کے خلاف ہوں تو انھوں نے اس مہم کی ایک تیز طرار خاتون منیجر کو میرے سامنے کیا کہ وہ مجھے قائل کرسکیں جن کے دلائل یہ تھے کہ ہم ایک صحتمند معاشرے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں ہم یہ اس لئے کر رہے ہیں کہ بچیاں ان مخصوص ایام میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کردہ یہ سینٹری نیپکن استعمال کریں اور رہی بات یہ کہ اسکول ٹائمنگ کے دوران ہوگا تو ان کو تھوڑی دیر کے لئے الگ کر کے کسی بورڈ روم میں یہ سیشن کروایا جائے اور اسکول کے لڑکوں کو یہ بات معلوم ہوگی تو وہ ان پر آوازیں کسیں گے تو ان لڑکیوں کو ڈرنا نہیں چائیے۔ یہ بچیاں کوئی الگ تو نہیں ہیں مردوں کا معاشرہ ہیں انھیں خود کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ میں نے دلیل مسکرا کر سنی اور سوال کیا مطلب ہم صرف بچیوں کی تربیت کریں اور لڑکوں کی باتوں کو نظر انداز کریں، اچھا یہ بتائیں کہ اب تک آپ کی کمپنی نے ملک کے کتنے گوٹھ اور دیہاتوں میں جاکر یہ مہم شروع کی اور وہاں کی عورتوں اور بچیوں کو جو ویسے ہی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں انھیں یہ سہولت متعارف کروائی یا مفت فراہم کی؟ جواب آیا ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ لیکن میں جانتی تھی کہ ایسا ہوگا نہیں کیونکہ یہ مارکیٹنگ ہے اور پیسہ یا تو امیر خرچ کرتا ہے یا متوسط طبقہ۔ غریب کر نہیں سکتا تو اسے یہ لگژری آئٹم کیوں مفت دیا جائے ویسے بھی انھیں کون سا انسان سمجھا جاتا ہے۔

2005 میں ایک اسکول میں جاب کے دوران ایک واقعہ پیش آیا۔ معلوم ہوا کہ کلاس نہم کی ایک طالبہ جس کی بہنیں ماڈلنگ میں تھیں اور اب شوبز سے آوٹ تھیں اس نے ایک سینٹری نیپکن کے اشتہار میں کام کیا ہے۔ اشتہار ٹی وی پر آیا تو اگلے روز کلاس کے لڑکوں نے اس لڑکی کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ وہ چودہ پندرہ سالہ لڑکی ضبط کرتی رہی لیکن روئی نہیں۔ معاملہ یہاں تک بڑھ گیا کہ بریک ہوتے ہی ایک مجمع اس لڑکی کو اس پراڈکٹ کے نام سے باقاعدہ آوازیں لگا رہا تھا کہ میں نے لڑکی کو آفس میں بلاکر پوچھا کہ تم نے بیٹا یہ کمرشل ہی کیوں کیا؟ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا مس مجھے اس ایڈ کے پیسے زیادہ ملے ہیں جس سے میرے گھر کا خرچہ چلے گا میری بہنوں نے میری منت کی تھی کیونکہ انھیں اس کمرشل میں ایک کم عمر بچی چائیے تھی۔ میرے والدین کی علیحدگی ہوچکی ہے اور دونوں شادی کرکے اپنے اپنے بچوں کے ساتھ خوش ہیں ہم پھپو کے ساتھ رہتے ہیں کتنا ان پر بوجھ بنیں۔

وہ وجہ بتا رہی تھی اور مجھے کانوں میں لڑکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ پھر مجھے یہ واقعہ یاد آیا جس میں مجھے جتایا گیا کہ لڑکے تو تنگ کریں گے لڑکیاں نظر انداز کریں۔ میں نے اسکول پرنسپل سے بیس منٹ مانگے، بریک ختم ہوئی اور کلاس نائن میں جا پہنچی جہاں ابھی بھی یہ شور جاری تھا۔ میں نے کلاس سے تمام لڑکیوں کو باہر نکالا اور لڑکوں سے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد پوچھا کہ آپ جس چیز کا نام لے لے کر اپنی ہم جماعت کو چھیڑ رہے ہیں وہ کیا ہے؟ کلاس میں سناٹا طاری تھا۔ پھر ایک ایک کر کے سب سے پوچھا سب خاموش رہے ایک نے ہمت کر کے جواب دیا مس ہم کیسے بتائیں؟ وہ اچھی چیز نہیں ہے۔ میں نے کہا کیا مجھے بتانے میں کوئی شرم ہے؟ سب نے ہاں میں جواب دیا۔ جب مجھے بتانے میں شرم ہے جب کہ میں پوچھ رہی ہوں تو اس لڑکی کو آپ سب کیسے اس نام سے چھیڑ رہے ہیں؟ ایک لڑکے نے کہا مس وہ لڑکی بے شرم ہے اس نے ایسا اشتہار ہی کیوں کیا کہ آج اسے یہ سننا پڑ رہا ہے یہ لڑکی خراب ہے تب ہی تو سب اسے یہ سنارہے ہیں اس بات پر سب لڑکوں نے ہنس کر اس کی بات کی تصدیق کی۔

میں نے نظر انداز کرتے ہوئے اگلا سوال کیا یہاں کتنے لڑکے ہیں جن کے بہن بھائی اسی اسکول میں پڑھتے ہیں؟ اکثریت نے ہاتھ کھڑا کیا۔ کتنے ہیں جن کی بہنیں پانچویں سے آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہیں وہ کھڑے ہوجائیں؟ کافی لڑکے سوچتے ہوئے کھڑے ہوئے، کچھ جان بوجھ کر کھڑے نہیں ہوئے تو انھیں ان کے دوستوں نے کہا کہ کھڑے ہو لیکن انھوں نے ان کو آنکھیں دکھائی میں ان کا خوف پڑھ سکتی تھی پر وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ جو سوچ رہے ہیں ایسا نہیں ہوگا۔ میں نے کہنا شروع کیا جو بیٹھے ہیں ان کی بہنیں چھوٹی ہوں گی شاید لیکن کوئی بات نہیں یہ بات سب کے لئے ہے۔ جس اشتہار میں آپ کی کلاس فیلو نے کام کیا ہے بقول آپ کے وہ اچھی چیز نہیں آپ اس کا نام میرے سامنے مارے شرم کے لے نہیں سکتے لیکن چونکہ آپ کی ہم جماعت لڑکی ایک بے شرم ہے اس لئے اس پر آوازیں کس سکتے ہیں اس نے جس چیز کے کمرشل میں کام کیا ہے وہ آپ کے گھر میں بھی استعمال ہوتی ہے آپ کی والدہ بھی اس کا استعمال کرتی ہیں اور آپ کی بہنیں بھی۔ جو ابھی چھوٹی ہیں وہ بعد میں کریں گی۔ فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ اس لڑکی نے اس کمرشل میں کام کیا جبکہ آپ کی بہن کے لئے یہ چیز گھر چھپا کر لائی جاتی ہے۔

جس روز آپ کی ماں آپ کے ہوتے ہوئے خود دکان سے سودا لینے جائے یہ اسی روز آتی ہے۔ جس روز آپ اپنی بہن کو وقت بے وقت اٹھا کر پانی مانگ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو پانی لاکر دیتی ہے۔ وہ ان تکلیف دہ ایام سے گزر رہی ہوتی ہے۔ جس روز وہ بھری کپڑوں کی بھاری بالٹی تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر رکھنے کے بجائے آپ کو آواز دے کہ بھائی یہ رکھ آو اور آپ اسے تڑاخ سے جواب دے کر انکار کردیتے ہیں تو اس روز وہ بے بسی میں آپ کو یہ زحمت دے رہی ہوتی ہے۔ جس روز وہ رغبت سے ماں کا بنایا ہوا پسندیدہ کھانا کھانے سے انکار کردے، آپ کے مذاق پر چڑچڑا جائے، آپ کی بات پر دھیان نہ دے، اسکول، ٹیوشن جاتے ہوئے رفتار کم رکھے، رک رک کر اپنے آپ کو بار بار دیکھے اور کوئی اسے ایک سے دو با ر دیکھے تو گھبرا جائے اس روز وہ اسی سے گزر رہی ہوتی ہے جسے آپ نے کہا کہ وہ اچھی چیز نہیں ہے۔ تو آج ایک کام کیجئے۔ اپنے اپنے گھر جائیں اور بہن کو کھڑا کر کے آتے جاتے یہ آواز اسے لگائیں جیسے اپنی کلاس فیلو کو لگائی ہے کیونکہ برے کام کو روکنے کے لئے آواز تو اٹھانی چائیے تو یہ کام گھر سے کیوں نہ شروع کیا جائے۔ اپنی ماں اور بہن سے کیوں نہ آغاز کیا جائے؟ کلاس میں موت کا سا سناٹا تھا جو لڑکے کھڑے تھے ان کے سر جھکے تھے جو بیٹھے تھے ان کی گردنیں ایسے جھکی تھی کہ جیسے ٹوٹ کر دھڑ سے الگ ہونے کو ہو۔

میں کلاس سے باہر نکل گئی اور لڑکیوں سے کہا کہ وہ واپس کلاس میں جابیٹھیں۔ میں نے اس روز بچیوں کے چہرے پر وحشت اور خوف کو پڑھا اگلے روز بچیوں نے بتایا کہ جب وہ کلاس میں گئیں تو بلیک بورڈ پر لفظ سوری لکھا ہوا تھا اور کوئی کچھ نہیں بولا۔ دو روز کے بعد آٹھ اکتوبر کا خوفناک زلزلہ آگیا ہمارے اسکول نے امدادی سامان اکٹھا کیا اور پھر انھیں بڑے بڑے کارٹن میں بند کرنے کا ذمہ لڑکوں نے اپنے سر لیا۔ جس روز یہ لڑکے میرے ساتھ سامان پیک کروا رہے تھے تو سب نے ایک ساتھ مجھ سے کہا۔ مس اس روز جو کچھ ہم نے کیا ہم سب اس کے لئے آپ سے معافی مانگتے ہیں۔ میں نے بات نہیں بڑھائی اور مسکرا دی۔ اس روز میں نے ایک بات سیکھ لی کہ کب تک ہم اپنی بچیوں کو الزام دیتے رہیں گے، ا ن پر معاشرے اور سماج کےمطابق چلنے کے بوجھ ڈالتے رہیں گے ہمیں اپنے لڑکو ں کی بھی تربیت کرنا ہو گی ان کو بتانا ہوگا کہ بیٹا ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ایک مخلوق اور بستی ہے جس کا نام عورت ہے جو بحرحال جسامت میں تم سے کمزور ضرور ہے لیکن صلاحیتوں میں تم سے کم نہیں اسے بھی جینے کا حق اتنا ہی ہے جتنا تم لوگوں کو ہے۔

سفر تمام ہوا آفس آکر سب سے پہلے آن لائن اخبارات پر نظر ڈالی وہی زینب وہی عاصمہ اور اور ایک ہی بازگشت مجرم تاحال پولیس کی نظروں سے اوجھل۔ پھر خود سے سوال کیا جس معاشرے میں ہم بیٹوں کو بتا نہ سکیں کہ ان کی بہن کو کب آرام کی ضرورت ہے وہ کس اذیت سے گزر رہی ہے کہ ان میں شعوری طور پر احساس پیدا ہو کہ عورت کی عزت کریم ہوتی ہے وہ نازک ہوتی ہے، ذرا ذرا سی بات پر اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اس پر نظر رکھنے کے لئے تمہیں نہیں جنا اس کے عزت کرنے کے لئے تم اس دنیا میں آئے ہو۔ جہاں آج بھی لڑکی اپنی بنیادی ضروریات ( جو کہ شرمناک ہیں) کے لئے ماں کی جانب دیکھتی ہو۔ جہاں آج بھی بچی دکان پر جائے تو اسے کچھ بھی ایسی ضرورت کا سامان خریدتے ہوئے دکاندار کی ذومعنی مسکراہٹ کا زہر گھونٹ گھونٹ پینا پڑے۔ جہاں آج بھی دیہات اور گوٹھوں میں پلنے بڑھنے والی بچی اس حفظان صحت کے عین مطابق والے نمونے سے واقف نہ ہو وہاں یہ انگریزی اخبار کیا گھول کر پلائے جائیں؟ زینب کو انصاف دو کے ہیش ٹیگ کو تعویز بناکر ان کے بازوں پر حفاظت کے لئے باندھے جائیں؟

جہاں میرے گھر کام والی یہ کہے کہ باجی یہ قصور والے واقعہ پر اتنا ہنگامہ کیوں ہورہا ہے؟ ہمارے گاؤں میں تو کئی بہووں کی عزت ان کے سسر نے خراب کی، کئی بچیوں کو ان کے چاچا اور ماما نے خراب کیا اور پنچایتوں میں ان عورتوں کو سزا بھی ان کے گھروں کے مردوں نے دلوائی۔ وہاں میری سوچ جواب دے جاتی ہے وہاں میں سوچتی ہوں کہ کیا ہم عقل بانٹنے کا کاروبار وہی تک کریں گے جہاں تک ہماری ائیر کنڈیشنڈ گاڑی کا ٹریکر ہمیں اجازت دیتا ہے یا پھر جہاں تک اوبر اور کریم کی سروس دستیاب ہے۔ اور کچھ تو ہم میں سے اتنے باظرف ہیں کہ اگر غلطی سے چلے بھی جائیں تو لائیو اسٹریمنگ کرنا نہیں بھولتے۔ یا ان کی تصاویر ہی بتادیتی ہیں میلے گندے بچوں کے ہا تھوں میں چند کلر پینسلیں دے کر یا کوئی آئسکریم پکڑا کر کہ ملک کے مہنگے ڈیزائنر کا جوڑا پہنے یہ صاحبہ ایک معزز خاتون ہیں جو سماج کی خدمت کرنے کسی سانحے کے بعد نکلتی ہیں۔ آج یہ انقلاب ٹویٹر پر لے آئیں گی اور ہم داد دیتے رہ جائیں گے۔ ایک نئی این جی او بنوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دور کسی ویرانے میں کسی غریب بچی کی لاش اس سماج کا تربیت سے عاری بیٹا پھینک کر جائے گا۔ اور شہر کے آوارہ کتے اور بوکھلائی ہوئی بلیاں اس کوڑے کے ڈھیر کے اطراف پہرہ دیتے دکھائی دیں گے۔

اگلے روز سورج کی کرن پھوٹے گی۔ انگریزی اخبار نکلے گا ایک دم دار سا آرٹیکل ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر کافی کے گھونٹ کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ انگلیاں ٹویٹر پر ایک ٹوئیٹ کر دیں گی جو خو د بخود کسی آوارہ پنچھی کی مانند اڑتے ہوئے اس ملک کے ہر گھر میں چلا جائے گا اور اس طرح ہمارے معاشرے میں بیٹے کی تربیت بھی ہوجائے گی، ہر گھر میں بسنے والی بچی کو اچھا برا بھی سمجھ آجائے گا۔ بے شر م لڑکی کہنے والے کچے ذہنوں پر جمی گرد بھی چھٹ جائے گی اور ہمارا معاشرہ محفوظ اور پاک ہوجائے گا۔

تم صحیح کہتی ہو میری پیاری بہن ہم اپنی سہولت دیکھتے ہیں، ہم صرف باتیں کرتے ہیں اور جس روز کسی غریب کی تربیت اور ضرورت پوری کرنے کا ارادہ بھی کرلیں اس روز ہینڈ سینیٹائزر پہلے ڈھونڈتے ہیں۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar