سید شجاعت بخاری شہید کی “ہم سب” کے لئے آخری تحریر


14 جون 2018 ء کو نامعلوم مسلح افراد نے معروف کشمیری صحافی شجاعت بخاری کو سری نگر میں ان کے دفتر کے قریب فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ مسلح افراد نے شجاعت بخاری پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ اپنے اخبار کے دفتر ڈیلی رائزنگ کشمیر سے اپنے دو محافظوں کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھنے کے لیے نکلے۔ شجاعت بخاری نے 2008 میں اخبار ڈیلی رائزنگ کشمیر شروع کیا تھا۔ مسلح حملے میں شجاعت بخاری کے ہمراہ ان کے دو محافظ بھی مارے گئے۔

سید شجاعت بخاری شہید کی “ہم سب” کے لئے آخری تحریر 21 جنوری 2018 کوپاک، بھارت تعلقات کی صلیب پر سسکتا کشمیرکے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ شہید صحافی کی یاد میں یہ تحریر دوبارہ شائع کی جا رہی ہے۔  

٭٭٭      ٭٭٭

سال گزشتہ کے دوران بھارت اور پاکستان کے باہمی رشتوں میں انتہائی تلخیوں، رسہ کشی اور تناؤ کا رحجان قائم رہا اور سال کے آخر پر دونوں ممالک کے سکیورٹی مشیروں کی سطح کی سالانہ میٹنگ کے باوجود بھی قیام امن کی ایک ہلکی سی امید نظر نہیں آئی۔ دوسری جانب کافی عرصے سے جاری رہنے والی اس رسہ کشی کا براہ راست اثر دونوں جانب کنٹرول لائن پر تعینات فوجوں کے درمیان آئے دن ہونے والی گتھم گتھا کی صورت میں صاف نظر آرہا ہے۔ سالِ نو کی ابتداء بھی اسی سلسلے کے ساتھ اس وقت ہوئی جب 15جنوری کو ریاست کے پونچھ سیکٹر میں ہونے والی بھاری اور اندھا دھند گولہ باری کے نتیجے میں چار پاکستانی سپاہی( بھارتی دعویٰ کے مطابق سات) مارے گئے اور اسی دوران اوڑی سیکٹر میں دراندازی کی ایک کوشش کے دوران ہونے والی فائرنگ کے واقعہ میں چار درانداز مارے گئے۔ ان واقعات سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سابقہ برسوں کی طرح اس سال بھی مار دھاڑ کا سلسلہ جاری رہنے والا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان پچھلے چند ایک برس انتہائی پر تناؤ اور تلخیوں بھرے رہے، حالانکہ اس سے قبل امید کی ایک آخری کرن تب دکھائی دی تھی، جب وزیراعظم ہند نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف کے جنم دن پر اچانک ان کی رہائش گاہ پر دستک دی، تاہم یہ ماحول زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا کیونکہ اس کے فوراً بعد ہی بعض عسکریت پسندوں نے پٹھانکوٹ میں بھارتی فضائیہ کے ایک چھوٹے ائیر پورٹ پر دھاوا بول دیا، جس سے سارا ماحول ایک بار پھر اسی کشیدگی کی جانب لوٹ گیا، جہاں سے وہ بمشکل باہر نکلا تھا۔ دونوں سربراہان مملکت نریندر مودی اور نواز شریف اس نازک موقعہ پر بھی پشت پاء ہی رہے اور انہوں نے اس واقعہ کو ایک جانب چھوڑ کر اس حوالے تحقیقات کرنے پر بھی آماد گی ظاہر کی یہاں تک کہ پاکستانی سراغرساں ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک افسر کو بھی بھارت آکر مذکورہ ائیر بیس کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی لیکن بدقسمتی سے یہ گاڑی بھی پٹڑی سے اتر گئی جب پاکستان نے ایسی ہی ایک بھارتی ٹیم کو پاکستان کا دورہ کرکے بعض ایسی جگہوں پر جانے کی اجازت نہیں دی، جن کی نشاندہی بھارت نے اس دعوے کے ساتھ کی تھی کہ حملہ آور ان جگہوں کو بھارت کے خلاف سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بھروسے اور اعتماد کا کچا دھاگہ ایک مرتبہ پھر سے کٹ گیا اور حالات لوٹ کر پھر اپنی پرانی جگہ پر آگئے۔

حالانکہ نریندر مودی کا ’خیر سگالی‘ والا اقدام چونکا دینے والا تھا لیکن اس حوالے سے یہ کہنا کہ اس کے پسِ پردہ کوئی ’بیک چینل کوشش‘ کارفرما نہیں تھی، بالکل درست نہیں ہوگا۔ اس میں سب سے بڑا رول اُن کے اپنے تئیں پورے خطے میں ایک قد آور رہنما کے طور پر ابھرنے کی خواہش کا رہا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کا سیاسی موسم کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ یہ کوشش یک طرفہ بھی نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے میاں نواز شریف بھی نریندر مودی کی تاجپوشی کے وقت پاک فوج کی مرضی کے خلاف ایسی ہی ایک کوشش کر چکے تھے۔ مودی کا اقدام دراصل اسی راستے پر ایک قدم آگے چلنے کی کوشش تھی لیکن دونوں سربراہوں کی ان کوششوں، جو کہ ابھی زمین سے ایک ننھے پودے کی طرح سر اٹھانے کی کوشش ہی کر رہی تھیں، کے درمیان جولائی2014ء میں مسئلہ کشمیر اُس وقت خزاں بن کر آگیا، جب نریندر مودی حکومت نے بھارت میں حریت رہنماؤں اور پاکستان کے خارجہ سیکریٹری کو نئی دلی میں ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ حالانکہ یہ سلسلہ 1994ء سے چلا آرہا تھا اور کوئی بھی پاکستانی اعلیٰ خارجہ افسر حریت رہنماؤں سے ملاقات کرتا رہتا تھا اور ا س طرح کے دوروں کے دوران کشمیر کو اس میں ضرور شامل کیا جاتا تھا۔

اس کے خلاف اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے نئی دلی میں ایک راونڈ ٹیبل ملاقات کے دوران کہا کہ ہمیں بھارت کے اس منفی رویے کی وجہ سے کافی مایوسی ہوئی ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں ’’ہم کشمیری عوام سے کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اور وہاں کے عوام نے انہیں نہ تو فراموش کیا ہے اور نہ ہی ان کو تنہاء چھوڑنے کا ہمارا کوئی ارادہ ہے لیکن بھارتی رویے وجہ سے ہمارے عوام کو سخت مایوسی ہوئی ہے اور حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ وہاں موجود شدت پسند عناصر کو بھی یہ کہنے کا موقعہ مل گیا ہے کہ گویا ہم نے اس حوالے سے کوئی سودا بازی کر لی ہے‘‘ ان کا مزید کہنا تھا ’’اگر کشمیری عوام کو اس عمل میں شامل کیا جاتا ہے تو اس سے حکومت پاکستان کو اپنے ملک میں اس حوالے سے حمایت ملے گی اور مسائل حل ہوں گے، خاص طور پر کشمیریوں کو اس سے دور کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ آخر کار یہ ان کا ہی مسئلہ ہے اور ان کے بغیر کیسے حل ہوسکتا ہے؟ بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی بھی با معنی عمل میں حریت کانفرنس کی شمولیت انتہائی ضروری ہے اور ان کے بغیر ہم ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ‘‘

حالانکہ دونوں جانب کے سیکورٹی مشیروں کے درمیان رابطہ اس کے باوجود قائم رہا اور اس کا ثبوت بھارت اور پاکستان کے درمیان سابقہ ایک برس کے دوران باعث تناؤ بننے والے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی والدہ اور بیوی کی پاکستان میں ملاقات کے محض ایک دن بعد 26دسمبر کوبنکاک میں ہونے والی ان کی میٹنگ کے دوران مل گیا۔ دونوں جانب کے سرکاری ذرائع نے اس میٹنگ کو انتہائی دوستانہ اور کار آمد قرار دیا، جب کہ اس سے قبل دونوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزروں نے گزشتہ برس مئی میں روس میں ملاقات کی تھی۔ اگرچہ دونوں جانب حد متارکہ پر متصادم افواج اور اس وجہ سے ہونے والی ہلاکتیں اس بات کا اعلان کر رہی ہیں کہ ان ملاقاتوں سے خاص کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس صورت حال میں یہ سلسلہ قائم رکھنا بھی ایک بڑی بات قرار دی جاسکتی ہے۔

کل ملا کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان رسا کشی اور تناؤ کے ماحول نے ایک مستقل جگہ بنا لی ہے، دونوں اپنی انتہائی پوزیشنوں پر ڈٹے ہوئے اور بضدہیں، جس وجہ سے دونوں جانب کی حزب اختلاف اور شدت پسند عناصر کو اپنے مفادات کی کلہاڑی چلانے کا بھر پور موقعہ مل رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان حالات کا بھر پور فائدہ اٹھانے کا مستقل من بنا لیا ہیے، جس کا مظاہرہ اس نے حال ہی میں گجرات کے پریشان کن اسمبلی انتخابات کے دوران کیا، جب انہوں نے پاکستان کارڈ کا استعمال کرکے ان میں آسانی کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی خاص تعاون نہیں دیا گیا اور وہاں موجود عسکری ڈھانچہ بھارت کے خلاف بدستور استعمال ہو رہا ہے، جس کا بین ثبوت 15جنوری کو اوڑی سیکٹر میں ہونے والی دراندازی سے بھی ملتا ہے۔ حالانکہ اسلام آباد اس حوالے سے مسلسل انکار کرتا آیا ہے۔ دوسری جانب خود بھارتیہ جنتا پارٹی کا پاکستان مخالف رویہ بھی اس کے لئے کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ نئی دلی میں سرگرم ٹی وی میڈیا پاکستان کے خلاف جو زہر افشانی کرتا رہتا ہے، وہ سب حکومت ہند کی خاموش سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا اور یہی وجہ سے ہے کہ بھارت اس سمت میں ایک بھی انچ پیشرفت سے قاصر ہے، جس سے ملک میں پاک مخالف رجحان کو تقویت مل رہی ہے اور اگر اس سب کے باوجود ابھی تک اعلیٰ سطح پر ایک امید کا دروازہ کھلا ہے، اس کو کسی معجزے سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب حوصلہ شکن امر یہ ہے کہ اس صورت حال میں ابھی فی الحال کسی بہتری کا امکان نہیں کیونکہ بھارت میں پارلیمانی انتخابات مئی2019ء میں منعقد ہورہے ہیں جبکہ اس سے پہلے پاکستان میں بھی انتخابات ہو رہے ہیں اور ان میں ’مسئلہ کشمیر، ملی ٹنسی اور پاکستان ‘ایک بار پھر سے ابھر کر سامنے آئیں گے اور دونوں ممالک کی مین اسٹریم سیاسی جماعتیں اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی، حالانکہ اس سے قبل ہونے والے گجرات اور اتر پردیش انتخابات میں کشمیر، پاکستان اور بھارت کے مسائل کا استعمال نہیں کیا گیا تھا لیکن مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ2018ء کے انتخابات میں کشمیر پھر ایک اہم مدعا بن کر ابھر سکتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم سب کو 2019ء میں ہونے والے بھارتی عام انتخابات کا انتظار کرنا ہوگا، جس میں اس حوالے سے کوئی امید قائم ہو سکتی ہے، وجہ یہ ہے کہ ابھی سارا ماحول ان انتخابات کی وجہ سے منجمد ہوچکا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ ایک بار پھر دونوں جانب 2003سے2007والی صورت حال پیدا ہوجائے اور امن عمل کو تقویت ملے لیکن ایسا تبھی ہی ممکن ہے، جب اس سمت میں آگے بڑھنے کے لئے دونوں جانب پر خلوص کوششیں کی جائیں، تاہم موجودہ پر تناؤ ماحول میں اس کی کم ہی امید نظر آتی ہے۔

بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ شام سرن نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے کا ایک نادر موقعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری صرف چند مخلصانہ اور تعمیری اقدامات اٹھانے کے نتیجے میں ہی آسکتی ہے نہ کہ مخاصمت یا رسا کشی کو جاری رکھنے سے‘‘۔ وہ اپنی حالیہ شائع شدہ کتاب میں لکھتے ہیں ’’بھارت دنیا کو کس نظریے سے دیکھتا ہے‘‘ شیام سرن اس عمل میں خود بھی بطور سیکریٹری خارجہ 2004سے2006کے درمیانی عرصے میں جڑے ہوئے تھے۔

بھارت اور پاکستان اپنی رسہ کشی اور الزامات کا سلسلہ جب تک چاہیں، جاری رکھ سکتے ہیں اور اس حوالے سے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراسکتے ہیں لیکن ان کے عمل کا اصل دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کس طرح سے دیکھتے اور حل کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان شروع سے ہی باعث نزاع رہا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دونوں نے اس مسئلہ کو سیاسی نظریے سے دیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کی، دونوں کے تعلقات میں بہتری پیدا ہوئی اور دونوں جانب کے عوام کی پریشانیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت اپنی یہ روایت پر قائم رکھ سکتا ہے کہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ اسلام آباد کی ایماء پر ہو رہا ہے اور پاکستان بھی اس کے جواب میں اپنا دعویٰ پیش کر سکتا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کی اس کشتی میں جموں و کشمیر کا ہی نقصان ہوتا آیا ہے اور مستقبل میں بھی ہو تا رہے گا۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ریاست کے لوگوں کو کبھی انسانوں کی طرح نہیں دیکھا گیا ہے بلکہ انہیں ایک قطعۂ اراضی پر آباد ایسی بستی سمجھا گیا جس کی اراضی دونوں کو یہ عزیز ہے۔ اس حوالے سے نئی دلی پر کافی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ عوامی مزاحمت اس کی جانب والے علاقے میں موجود ہے۔

حالانکہ دوسری جانب پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور گلگت و بلتستان کے عوام کی بھی اپنی پریشانیاں ہوسکتی ہیں لیکن اُس طرف عوامی مزاحمت کا زور اور شدت کم ہے۔ ہلاکتیں جموں و کشمیر میں ہی ہو رہی ہیں اور یہ بات بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ یہ علاقہ دنیا کا واحد ایسا علاقہ ہے، جہاں سب سے زیادہ فوجیں موجود ہیں۔ یہ جوازیت بھی کوئی تسلیم نہیں کر سکتا کہ یہ کوئی جنگ زدہ علاقہ ہے اور یہاں محض 300 عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے لئے اس قدر فورسز کو رکھنا ضروری ہے۔ عوام کے قلب و ذہن میں جو جذبات پائے جاتے ہیں، ان کو مارنا مشکل ہی نہیں، نا ممکن بھی ہوتا ہے۔ اس کا واحد علاج صرف اور صرف ایک پر امن، با معنی اور مسلسل سیاسی عمل ہے، جو کہ دونوں جانب یعنی نئی دلی اور اسلام آباد کے ساتھ ساتھ نئی دلی اور سرینگر کے درمیان یکساں طور شروع ہونا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نئی دلی کی جانب سے دھنیشور شرما کو مذاکرات کے طور پر تعینات کیا گیا ہے لیکن ان کے دائرۂ اختیار کے بارے میں ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں۔ تاحال اس کو محض ایک شکایات کا ازالہ کرنے والا منیجر ہی سمجھا جا سکتا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کوئی ’شکایت‘ نہیں بلکہ ایک زبردست سیاسی معاملہ ہے، جو کافی سنجیدہ تقاضے کرتا ہے۔

(شجاعت بخاری، انگریزی اخبار رائزنگ کشمیر سری نگر کے چیف ایڈیٹر ہیں)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).