حسین حقانی کے خلاف پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے الزام میں مقدمات درج


حسین حقانی

ضلع کوہاٹ میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف سکیورٹی فورسز کے خلاف نفرت پھیلانے اور ملک کے خلاف کتابیں لکھنے کے جرم میں تین مقدمات درج کردیئے گئے ہیں۔

تاہم مقدمات درج کرانے والے عام شہری ہیں جنہوں نے میڈیا سے کسی قسم کی بات کرنے اور اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کردیا ہے۔

کوہاٹ پولیس کے مطابق یہ مقدمات شہر کے تین مختلف تھانوں سٹی، کینٹ اور بلی ٹنگ میں درج کئے گئے جس میں سابق سفیر کو ‘ملک دشمن’ قرار دیا گیا ہے۔

تھانہ سٹی کوہاٹ میں دائر ایف آئی آر شہر کے نواحی علاقے پہلوان بانڈہ سے تعلق رکھنے والے ایک رہائشی حبیب الرحمان کی طرف سے درج کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ 120 بی اور 121 پی پی سی کے تحت درج کیا گیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ سابق سفیر ملک کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کرنے میں ملوث رہے ہیں اور بحثیت سفیر امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کو ویزے جاری کئے تھے۔ درخواست میں الزام لگایاگیا ہے کہ سابق سفیر میمو گیٹ سکنڈل کے باغی ہیں اور ان کے انڈین ایجنٹس کے ساتھ مضبوط روابط رہے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق حسین حقانی نے پاکستان کے خلاف دو کتابیں لکھی ہیں جس میں ملک کے حساس اداروں کے خلاف زہریلا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا ہے ۔

اس سلسلے میں جب بی بی سی نے درخواست گزار حبیب الرحمان کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابط کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹیلی فون بند کردیا کہ وہ اس معاملے پر کوئی بات کرینگے اور نہ میڈیا کو موقف دینگے۔

کتابوں کو پوری دنیا میں تعلیمی اداروں میں پڑھائی جارہی ہے اور اسے پاکستان میں بھی پڑھا اور سمجھا جائے بجائے اس کے کہ ان کے خلاف مذاق پر مبنی پولیس کی کارروائی کی جائے۔ حسین حقانی کے مطابق پولیس کو بچوں سے جنسی زیادتی کی کارروائیوں کا سدباب کرنا چاہیے اور ان بین الاقوامی دہشت گردوں کے خلاف ثبوت تلاش کرنا چاہیے جو ان کے بقول پاکستان میں ‘آزاد’ پھر رہے ہیں۔تاہم تھانہ کینٹ میں درج ایف آئی آر کے درخواست گزار شمش الحق سے جب رابطے کی کوشش کی گئی تو فون پر موجود ایک نامعلوم شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ وہ موبائل فون کے مکینک بول رہے ہیں اور یہ موبائل فون شمس الرحمان نے ان کو خرابی دور کرنے کےلیے دیا ہے اور وہ خود موجود نہیں ہیں لیکن میں اپ کا پیغام ان کو پہنچا دوں گا۔’

کوہاٹ کے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ مقدمات کا اندراج کرنے والے تمام افراد عام اور غیر معروف شہری ہیں جنہیں کوئی جانتا نہیں ہے۔

ادھر سابق سفیر اور ممتاز دانشور حسین حقانی نے اپنے خلاف کوہاٹ میں درج تمام مقدمات کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

بی بی سی کو خصوصی طورپر بھیجے گئے اپنے ایک وضاحتی بیان میں انہوں نے کہا کہ ‘سپریم کورٹ ابھی تک نام نہاد میمو گیٹ کا فیصلہ نہیں کرسکی ہے لہذا میرا ِخیال نہیں کہ ایف آئی آر کے اندراج سے ذرائع ابلاغ پر کوئی نیا شور مچے گا یا اسے سنجیدگی سے لے جائے گا۔’

انہوں نے کہا کہ ملک یقیناً کئی قسم کے مسائل سے گزر رہا ہے اور اگر بعض لوگوں کی ملک پر ان کی تحقیق پسند نہیں تو وہ اپنی راہ لے۔

انہوں نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ‘ سرکس میڈیا’ ان کے نظریات کے اثرات کو راتوں رات دنیا بھر میں تبدیل نہیں کرسکتا۔سابق سفیر نے کہا کہ ان کی کتابوں کو پوری دنیا میں تعلیمی اداروں میں پڑھائی جارہی ہے اور اسے پاکستان میں بھی پڑھا اور سمجھا جائے بجائے اس کے کہ ان کے خلاف مذاق پر مبنی پولیس کی کارروائی کی جائے۔ حسین حقانی کے مطابق پولیس کو بچوں سے جنسی زیادتی کی کارروائیوں کا سدباب کرنا چاہیے اور ان بین الاقوامی دہشت گردوں کے خلاف ثبوت تلاش کرنا چاہیے جو ان کے بقول پاکستان میں ‘آزاد’ پھر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ حسین حقانی سابق پیپلزپارٹی کے دور میں امریکہ میں سفیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں تاہم بعد میں میمو گیٹ سکنڈل میں ان کا نام آنے کے بعد انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ وہ آجکل امریکہ میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں درس و تدرس کے شعبے سے منسلک ہیں۔وہ پاکستان پر دو کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ایک کتاب ‘ پاکستان بٹوین ماسک اینڈ ملٹری’ سفیر مقرر ہونے سے قبل شائع ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp