چھ سال کی عمر اورحکمت والی کتاب


شاہ ٹاؤن ملیر کراچی میں، قاری نجم الدین کے ہاتھوں ایک نو سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد اور اس کی ہلاکت سے ابھی دل کا لرزہ باقی تھا کہ ایک دوست نے فیس بک پر بتا یا کہ ان کے بھتیجے کو مسجد کے مولوی نے اتنا زدوکوب کیا کہ اس کی زندگی پر بن آئی ہے اور وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پڑھے لکھے والدین اپنے بچوں کو اسکول کے بعد ٹیوشن اور پھر قرآن پڑھنے کے لیے مدرسے کیوں بھیجتے ہیں۔ جنسی زیادتی کے بعد قتل اور مار کٹائی کے آئے روز خوف ناک واقعات کے باوجود ہم اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں نکال پا رہے۔ آپ کا بچہ مدرسے میں صرف دس منٹ پڑھتا ہے ، پہلے پانچ منٹ میں وہ مولوی صاحب کو پچھلا سبق سنا کر اگلا سبق لیتا ہے، اور پھر مولوی صاحب بیس یا پچیس بچوں سے پچھلا اور اگلا سبق سننے اور یاد کرنے کی تلقین کے بعد کوئی ایک، ڈیڑھ گھنٹے بعد پھر سے ایک ایک بچے کے پاس جا کر اس کی ’’خیریت‘‘ پوچھتے ہیں، اور پھر دو یا تین گھنٹے بعد بچہ خیر سے گھر جاتا ہے۔ یہی حال گھر پر ٹیوشن پڑھانے والوں کا ہے۔ ہمارے ملک میں جن لوگوں نے قرآن پڑھا ہوا ہے، اردو اور انگریزی زبان میں تعلیم بھی حاصل کی ہوئی ہے، ہم زیادہ تر ان ہی گھرانوں میں ٹیوٹر اور مولوی صاحب سے پڑھانے کا رواج دیکھتے ہیں آج سے تیس چالیس سال پہلے جب پی ٹی وی پر قاری صاحب صرف دس منٹ میں درست تلفظ کے ساتھ سپارہ پڑھاتے تو مائیں بچوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھا دیتیں اور روزانہ ناشتے سے پہلے بچوں کو سپارہ پڑھانا معمول ہوا کرتا تھا، اب عربی زبان میں درست تلفظ اور الفاظ کے اتار چڑھاؤ پر جہاں بہت زور دیا جا تا ہے وہیں اب اس سب کے لیے بہت سی Apps متعارف کروادی گئیں ہیں اب آیات، مفہوم، ترجمہ، تشریح اور درست تلفظ، کسی بات کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

کیا ہم اپنے بچوں کے لیے دس منٹ نہیں نکال سکتے، قران مجید کی تعلیم دینا، انہیں عربی پڑھانا، اور درست الفاظ کی ادائگی موجودہ دور میں کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ لیکن ہمیں بچے کو یہ حکمت والی کتاب اس عمر میں پڑھانے /رٹانے کی جلدی ہوتی ہے جب کہ وہ ٹھیک سے اردو بھی نہیں پڑھ سکتے۔ سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہمارے ہاں مقابلے کی دوڑ لگی ہوتی ہے۔ نند، بھاوج، جٹھانی اور دیورانی کے درمیان عام طور پر ان الفاظ سے ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرے بچے نے سات سال کی عمر میں قران شریف ختم کر لیا، میرے بچے نے تو چھ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا تھا۔ افسوس! جس عمر میں ہم انگریزی اور اردو کے ناولوں اور فلسفے کی کتابوں پر سر دھن رہے ہو تے ہیں، اس حکمت کی کتاب کی اکثر باتیں ہم فراموش کر چکے ہو تے ہیں، اور عربی بھی ہمیں درست تلفظ میں یاد نہیں رہتی۔ جب بچہ میٹرک یا او لیول کا امتحان دے کر فارغ ہو اس وقت ہم اس کی دینی تعلیم پر توجہ دیں، اس کے لیے معلم رکھیں یا ہماری نگرانی میں خود نیٹ سے یا الیکٹرانک قرآن سے عربی سیکھے تو وہ قرانی تعلیم سے اچھی طرح مستفید ہو سکتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام ہو یا پھر بچوں کی تعداد زیادہ ہو، (کبھی کبھی کم دو یا تین بچوں کی کاہل مائیں بھی ) بچوں کی شرارتوں سے جان چھڑانے کا واحد حل اسی میں نظر آتا ہے کہ بچے پڑھائی کے بہانے نظروں سے غائب رہیں۔ اسکول سے آئے، ٹیوشن اور اس کے بعد مدرسے۔ ان بچوں نے ہو سکتا ہے آپ کو تھکا دیا ہو ، لیکن تھکن کے احساس کو ان کی انفرادی زندگی پر قربان کر کے دیکھیں تو ایک ایک بچہ آپ کو روشن ستارے کی مانند دکھائی دے گا، ان ستاروں کی روشنی کو کسی ٹیوٹر ، کسی مولوی کے ہاتھوں ماند نہ پڑنے دیں ان کی تعلیم و تربیت کی زمہ داری آپ خود لے کر دیکھیں ، اس سے نا صرف آپ کا پیسہ بچے گا بلکہ بچے کی جان اور صلاحیت بھی محفوظ رہے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).