پاکستانی خاتون ڈیزائنر نے صنفی علامات سے بنی تصویروں سے دھوم مچا دی


شہزل ملک نے اپنے اردگرد موجود صنفی امتیاز کے ردعمل میں فیمنسٹ تصاویر بنانا شروع کی تھیں۔ ان کی تصویروں میں جابجا حجاب پہن کر موٹر بائک چلانے والی لڑکیاں، ٹیٹو کھدی لڑکیاں، سانولی لڑکیاں نظر آتی ہیں۔ شہزل ملک اپنے غیر روایتی رنگوں، مچلتی لکیروں اور باغیانہ موضوعات سے اپ معاشرے میں صنفی امتیاز کے خلاف آگہی پیدا کرنا چاہتی ہیں

لاہور سے تعلق رکھنے والی شہزل ملک کہتی ہیں کہ پاکستان یں عورت ہونا، بالخصوص نوجوان لڑکی ہونا ہرگز آسان نہیں۔

ایک امیر گھرانے میں پیدا ہونے کے باعث انہین پورا احساس ہے کہ ان کے تجربات پاکستان کی عام عورتوں سے مختلف رہے ہیں جن کی زندگیاں بہت زیادہ مشکل ہوتی ہیں۔ تاہم شہزل ملک کو یہ بھی احساس ہے کہ عورت ہونے کی بہت سی مشکلات ایسی ہیں جو معاشی تفریق کے باوجود ہر عورت کو ایک ہی طرح بھگتنا پڑتی ہیں۔ عورتوں کو ان کے ناک نقشے کی بنیاد پر بدسلوکی کا سامنا پڑتا ہے۔ ان کے لباس پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ شادی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

شہزل ملک کی پہلی تصویری سیریز کا موضوع لڑکیوں کے لیے گھر سے باہر نکلنے کا اضطراب تھا۔ طنز میں ڈوبی ہوئی یہ پوری سیریز مروجہ اقدار پر ایک کڑی تنقید تھی۔ گھر سے باہر نکلنے والی عورت کو نیکلس سے لے کر قمیص کے دامن تک اور چادر سے لے کر بالوں کی آرائش تک سو طرح کے معاملات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس سیریز میں ایک تصویر خاص طور پہ نوٹ کی گئی جس میں گھر سے باہر آنے والی لڑکی پر تماشائیوں کی آنکھیں پھسل رہی تھیں۔ ملک کہتی ہیں کہ گرمیوں میں گھومنا پھرنا پاکستانی لڑکیوں کے نصیب میں نہیں لکھا۔ انہیں خود بھی گلیوں اور سڑکوں پہ گھومنے کا شوق ہے اور وہ بتاتی ہیں کہ اس شوق کی تکمیل مں انہیں کیا کچھ دیکھنا پڑا۔ میرا پیچھا کیا گیا۔ مجھ پر آوازے کسے گئے، مجھے گیت سنائے گئے، مجھے گھورا گیا اور مجھے ان گنت مرتبہ چھوا گیا۔

https://giphy.com/gifs/3o7TKGIipqI7F2GMwg

شہزل ملک کو امید ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کی ان تصویروں کی مدد سے وہ مقبول عام پدر سری سوچ کی جڑیں کاٹ سکیں گی۔ انہوں نے اپنے آپ کو بہت سی عورت دشمن تنقید کے لیے تیار کر رکھا تھا لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ تصویریں کس قدر مقبول ہوں گی۔

شہزل ملک کی ان تصویروں کے نتیجے میں عورتوں کے لباس، گلی کوچوں میں ہراسانی اور جنسی حملوں پر بامعنی بحث مباحثہ شروع ہوا ہے۔ انہیں ہزاروں کی تعداد میں مدد اور حوصلہ افزائی کے پیغامات ملے ہیں۔

شہزل ملک نے خود کو سمجھا لیا ہے کہ وہ فی الحال ایک پروپیگنڈہ آرٹسٹ ہیں۔ براون از بیوٹی فل کے نام سے وہ ان عورتوں کے لیے ایک سیریز تیار کر رہی ہیں جنہیں ان کے گہرے رنگ کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہونا پڑا۔

شہزل ملک پاکستان کے فیشن برانڈ جنریشن کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ اس منصوبے میں عورتوں کی قمیصوں، جیکٹوں وغیرہ پر شہزل ملک کی بنائی تصاویر لگائی گئی ہیں۔ اس کا مقصد مردوں کی نگاہوں کو دعوت نظارہ دینا نہیں ہے بلکہ عورتوں میں اعتماد پیدا کرنا ہے۔ یہ ایک تجربہ تھا کہ کیا آرٹ کو روزمرہ زندگی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے؟ میں چاہتی ہوں کہ لوگوں کو آرٹ سے محظوظ ہونے کے لیے گیلریوں میں نہ جانا پڑے۔ ان کے حقوق کو یاد دلاتا ہوا آرٹ ان کی روزمرہ زندگیوں کا حصہ بن جائے۔

شہزل اپنے ملک کی غریب عورتوں کو چھپی ہوئی بہادر دیویاں قرار دیتی ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ ان بہادر عورتوں کے گن اجاگر کرنے والا آرٹ اس قیمت پر فروخت کرنا ہو گا جسے یہ عورتیں بھی خرید سکیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain