تعمیری طریقہ تدریس


گزشتہ ہفتے ایک کانفرنس میں شمولیت کا موقع ملا۔ اس کا مقصد اساتذہ کو ایک نئے تدریسی طریقہ کار سے متعارف کرانا تھا۔ ایسی ٹریننگ حاصل کرنے کا یہ میرا دوسرا تجربہ تھا۔ پہلی ٹریننگ 2014 میں حاصل کی جو پنجاب کے سکول ونگ میں نئے آنے والے اساتذہ کو دی جاتی ہے۔ پہلی ٹریننگ جو ایک ماہ پر محیط تھی میں اتنا کچھ سیکھنے کو نہیں ملا جتناان پانچ دنوں میں سیکھا۔ میرا مقصد یہاں پر ان دو کا تقابلہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس تدریسی طریقہ کار کو متعارف کرانا ہے ہے جس سے میں آشنا ہوا ہوں۔

یہ کانفرنس امریکی امبیسی کے دو روخہ پروگرام Instructional Leadership Institute for Pakistani Educators کی 2018 کے انتخاب کی ایک کڑی ہے۔ اس پروگرام کی فنڈنگ پاکستان میں موجود امریکی ایمبیسی جب کہ اس کی مینیجمنٹ یونیورسٹی آف میسا چیوسٹس ایمرسٹ کرتی ہے۔اس پروگرام کے تحت پاکستان سے بیس اساتذہ امریکہ جاتے ہیں جہاں وہ پانچ ہفتے تک تعمیری طریقہء تدریس (Constructivist Learning Theory)سے روشناس ہوتے ہیں اور وہاں کے سکولوں کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے اساتذہ سے مل کر اس طریقہء تدریس کو عملی طور پر نافذ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ جب کہ دوسرے برس امریکہ سے اساتذہ پاکستان آتے ہیں اور مختلف شہروں میں ٹریننگ سیشن منعقد کرتے ہیں۔ پہلی بار اس پروگرا م میں پاکستان سےبیس اساتذہ 2014 جب کہ دوسری بار 2016 میں امریکہ گئے۔ 2018 کے انتخاب کےسلسلے میں پورے پاکستان سے پچاس اساتذہ کو چنا گیا جن کا ٹریننگ سیشن گزشتہ ہفتے میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہوا اور اب ان میں سے بیس کو حتمی ٹریننگ کے لیےچنا جائے گا۔

یہ ایک وسیع پروگرام ہے جس میں پورے پاکستان سے استادوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس بار بلائے جانے والے پچاس اساتذہ میں کوئٹہ، ژوب، کراچی، سکھر ، آزادکشمیر، سوات، چترال،گلگت، پشاور، مردان، صوابی،لاہور ، گجرانوالہ، راولپنڈی، اسلام آباد اوربہت ساری جگہوں سے اساتذہ نے شرکت کی۔ اس طرح ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو ملنے اور ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے کا بھی موقع ملا۔

یہ تھیوری تعمیری طریقہ تدریس(Constructivism) کہلاتی ہے ۔ یہ تھیوری بنیادی طور پر ہمارے مشاہدات پر اساس ہے کہ ہم (لوگ) کیسے سیکھتے ہیں۔یہ نظریہ کہتا ہے کہ لوگ دنیا کے متعلق اپنی فہم اور علم کو خود اپنے تجربات کی بنیاد پر تعمیر کرتے ہیں۔جب بھی ہمارا واسطہ کسی نئی چیز سے پڑتا ہے تو ہم اس کو اپنے پرانے تصورات اور تجربات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس عمل کے دوران ہمیں اپنے بہت سارے پرانے تصورات کو بدلنا بھی پڑتا ہے۔کسی بھی طرح اپنی فہم کے سب سے اہم خالق ہم خود ہوتے ہیں۔اس کے حصول کے لیے لازم ہیں کہ ہم سوالات اٹھائیں ، وضاحتیں مانگیں اور حاصل کردہ علم کا جائزہ لیں۔

اس طریقہ تدریس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو کلاس میں بہت ساری اشکال میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ عمومی حالت میں یہ جس شکل میں لاگو ہوتا ہے اس میں طلبا کو سرگرمیوں یا روزمرہ کی زندگی کے مسائل حل کرنے کی طرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس عمل کے دوران وہ خود علم کو تخلیق کرتے ہیں اور پھر ان پر سوچ بیچار کر کے نتائج اخذ کرتے ہیں۔ استاد کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ طالب علموں کے مشاہداتی علم کو زیرِ بحث لائے اور ان ہی کے اخذ کردہ نتائج کی مدد سے ان کے جوابات دے۔

استاد کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ طلبا کے سامنے سوالات رکھے جیسا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ کس طرح ان کو کسی خاص سرگرمی یا تجربے سے فائدہ ہو رہا ہے ۔اس طرح اس طریقہ تدریس میں طلبا بذاتِ خود ماہر علم بن جاتے ہیں جب کہ استاد کا کردار یہ رہ جاتا ہے کہ وہ ان سے تخلیقی قسم کے سوال پوچھے جس کے جواب طلبا خود سوچیں ۔

یہ طریقہ تدریس بنیادی طور پر پانچ اصولوں پر مبنی ہے۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ طالب علموں کے سامنے ایسے سوالات رکھے جائیں جو کہ پہلے سے پڑھائے گئے تصورات سے جڑے ہوں۔

2۔ اسباق کو بنیادی تصورات (Big Ideas)کے گرد پروان چڑھانا۔

3۔ طالب علموں کی رائے معلوم کرنا اور اسے اہمیت دینا۔

4۔ سبق کوطلباء کی ضرورت کو مدنظر رکھتے اس طرح ترتیب دینا کہ اس میں طالب علموں کے ذہنوں میں موجود غلط فہمیوں کا تدارک ہو سکے۔

5۔ طالب علموں کے حاصل کردہ علم کا جائزہ تدریس کے تناظر میں لیا جائے۔

ان اصولوں کو بظاہر پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے۔ ان کی تھوڑی سی وضاحت ناگزیر ہے۔

تعمیری طریقہ تدریس یہ کہتا ہے کہ یہ پانچ اصول کسی نہ کسی شکل میں سبق میں موجود ہونے چاہیے۔ یہ استاد پر منحصر ہے کہ وہ سبق کس طرح تیار کرتا ہے ۔

پہلا اصول یہ کہتا ہے کہ کوئی بھی سبق پڑھانے سے پہلے طالب علموں کے سامنے کچھ سوالات رکھے جائیں جو یا تو اس سبق سے متعلق ہوں جو پہلے سے پڑھائے جا چکے ہوں یا پھر کوئی ایسی سرگرمی کرائی جائے جو طالب علموں کی تمام تر توجہ اپنی طرف مبذول کرا لے اور وہ مکمل طور پر سبق میں غرق ہو جائیں۔ یہ اس سارے طریقہ تدریس کا ایک بہت ہی اہم نقطہ ہے اور اسے ہک (hook) کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی کوئی ایسا سوال یا سرگرمی (جو کسی تجربے یا کسی وڈیو کی شکل میں ہو سکتی ہے جو استاد کلاس میں طلبا کو دکھاتا ہے) جس سے طلبا کی اس سبق میں دلچسپی پیدا ہو جائے اور پھر اس موقع پر استاد ان کے سامنے اس سرگرمی کے متعلق کوئی سوال رکھے۔عمومی طور پر وقت گزرنے کے ساتھ طالب علموں کی دلچسپی لیکچر میں مانند پڑنے لگتی ہے۔ اس لیے بعض اوقات ایک ہک سے بات نہیں بنتی بلکہ استاد کو اس کے لیے پہلے سے تیار رہنا پڑتا ہے اور جب وہ کمرہ جماعت میں داخل ہو تو اس کے پاس سوالات یا کسی بھی صورت میں ایسی بہت ساری ہکس موجود ہونی چاہیے جو طالب علم کی عدم دلچسپی کے وقت استعمال کر کے ان کو لیکچر میں واپس لایا جا سکے۔

دوسرا اصول یہ کہتا ہے کہ کسی بھی سبق کو اس طرح متعارف کرایا جائے کہ وہ کسی بنیادی تصور(Big Idea) کے گرد گھومتا ہے۔ اس اصول کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے مرکز پر وہ تصور یا بڑا خیال ہوتا ہے جس کا ادراک طالب علموں کی سمجھ بوجھ میں اضافہ کرتا ہے ۔اور اس کے بعد وہ ذیلی تصوارات آتے ہیں جو اس مرکزی تصور سے جوڑے ہوں اور جو اس مرکزی کنسپٹ کی وضاحت اور اطلاق کے طور پر آتے ہیں جب کہ سب سے آخر میں وہ کنسپٹ ہیں جو زیادہ اہمیت کی حامل نہیں لیکن طلبا کو اس کے متعلق اگاہی ہونی چاہیے۔ مرکزی خیال وہ علم ہے جو طلبا اپنے ساتھ لے کے جاتے ہیں۔ یعنی اگر ان سے کوئی استفسار کرے کہ آج انہوں نے کیا سیکھا تو وہ بتا سکیں۔

میرے نزدیک تیسرا اصول نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس میں ایک استاد طلبا کے سابقہ علم کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ کلاس میں پوچھے جانے والے سوالات یا کوئز (quiz) کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اس سے استاد اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ طالب علموں کو ان کنسپٹس کی کتنی سمجھ بوجھ ہے جو پہلے سے پڑھائے جا چکے ہیں اور لہذٰا وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اب طلبا کو آگے کیسے لے کر چلنا ہے۔ ایک اور اہم نقطہ جو یہاں قابلِ غور ہے وہ یہ کہ طالب علموں کے جوابات کو اہمیت دینی چاہیے۔ بہت سارے کیسز میں طلبا اس وجہ سے جماعتی مکالمات میں شمولیت اختیار کرنا چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ کسی ایک غلط جواب پر ان کا استاد یا باقی طلبا کی طرف سے مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہاں استاد پر یہ فرض ہے کہ وہ اس عمل کو نہ ہونے دے۔ جب کلاس میں بہت سارے طلبا سے جوابات آتے ہیں تو ان میں بہت سارے صحیح بھی ہوتے ہیں۔ لہذٰا استاد کو یہ چاہیے کہ وہ ان جوابات کو لے کر آگے چلے۔اس سے ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ کلاس میں کسی کی بھی حوصکہ شکنی نہیں ہو گی جب کہ دوسرا یہ کہ چونکہ آپ طلبا کی طرف سے آئے جوابات کو لے کر ٹاپک کو آگے بڑھاتے ہیں تو یہ ایک قسم کی طلبا کی ہی پیش گوئیوں کی تائید ہو گی اور ان میں خود اعتمادی پیداہو گی۔

ہر طالب علم اپنی روز مرہ کی زندگی میں چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس پر کچھ تصورات کو جنم دیتا ہے۔ ایک استاد پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے لیکچر کو اس طرح ترتیب دے کہ طالب علم کے ان مشاہدات اور تصورات کو پرکھا جاسکے۔ استاد کیسے جان سکتا ہے کہ کوئی طالب علم کسی خاص شئے کے بارے میں کس طرح کے تصورات رکھتا ہے تو وہ اصول نمبر تین سے پتا لگایا جا سکتا ہے جس میں استاد طلبا کو کسی خاص ٹاپک کے متعلق اپنے جوابات پیش کرنے کا کہتا ہے۔ یہ چوتھے اصول کا مرکزی خیال ہے۔

پانچواں اور آخری اصول اس چیز سے تعلق رکھتا ہے کہ جو کچھ پڑھایا گیا ہے طالب علموں نے اس کو کتنا سمجھا ہے۔ اس کے لیے استاد کئی طریقے استعمال کر سکتا ہےلیکن تین قابلِ ذکر ہیں۔

الف۔ رسمی تشخیص(Formal assessment): اس میں طالب علم خود اپنی تشخیص کسی خاص میعار کو استعمال کرتے ہوئے کرتا ہے اور صحیح اور غلط کے درمیان تفریق کرتا ہے۔

ب۔ ابتدائی تشخیص( Formal assessment): اس میں استاد طالب علم کے علم کا جائزہ کلاس میں سوال پوچھ کر لگاتا ہے۔ یہ دراصل تیسری اور آخری تشخیص کی جانب تیاری ہوتی ہے۔

ج۔ مجموعی تشخیص( Summative assessment): یہ طالب علم کے علم کی جانچ کی حتمی شکل ہے جس میں طالب علم کو امتحان یا کلاس ٹیسٹ کے ذریعے جانچا جاتا ہے اور اس امتحان کے باقاعدہ نمبر دیے جاتے ہیں۔

روایتی اور تعمیری طریقہ تدریس میں نمایاں فرق ہی یہی ہے کہ اول الذکر میں کلاس کا مرکز استاد ہوتا ہے۔ وہ طالب علموں کو علم ایک مقتدرہ کی صورت میں فراہم کرتا ہے۔ طلبا کو استاد کی بات من و عن تسلیم کرنا پڑتی ہے۔ جب کہ موخرالذکر میں کلا س کا مرکز طلبا خود بن جاتے ہیں۔ وہ استاد کی جانب سے آئے کسی بھی سوال کا جواب اپنے پہلے سے حاصل کردہ علم اور مشاہدات کی بنا پر دیتے ہیں اور پھر اس کی جانچ میں کہ آیا ان کا جواب صحیح ہے یا غلط، مختلف قسم کی سرگرمیاں کر کے خود اخذ کرتے ہیں۔ اس میں استاد کا کام طلبا سے سوال پوچھنا اور دوران تجربہ مختلف ممکنات کی طرف سمت دینے تک رہ جاتا ہے اور طلبا متحرک لرنر بن جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).