نیوز ویک پاکستان کے ایڈیٹر کی شرمناک ٹویٹس اور انہیں بچاتی اشرافیہ


ہم خاصے مڈل کلاس ہیں۔ یہ بات پہلے ہی بتلا دینا چاہتے ہیں تاکہ قارئین اس پورے بلاگ میں ہم سے مڈل کلاسیوں والی امیدیں ہی وابستہ رکھیں۔ چادر بچھا کے کھانا کھانا۔ ریموٹ کنٹرول پہ پلاسٹک کی پنی۔ اور اپنے پرانے کپڑے دوسری کزن کو دینا اور تیسری کزن کے کپڑے خود پہن لینا۔ عیدی پہ جھگڑا کرنا اور دال میں زیادہ پانی ڈال دینا تاکہ زیادہ لوگ کھانا کھا سکیں – ہماری تربیت اور یادیں ایسی ہی ہیں۔ ہم آج بھی پرانے ڈبے سنبھال کے رکھتے ہیں اور اگلے دن کی بریانی شدید چسکے لے کے کھاتے ہیں۔

مگر ہمارا کیا ہے جی۔ ہم چھوٹے لوگ ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہم جیسوں کو خوش کر دیتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں دہلا بھی دیتی ہیں۔ پچھلے دنوں زینب نامی ننھی سی بچی کے ساتھ زیادتی اور اس کے قتل پہ دنیا بھر میں شور مچا۔ ہم نے بھی خوب شور مچایا۔ لعنت ملامت کی۔ خوف اور نفرت سے ہمیں نیند نہیں آئی۔ کبھی اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے کبھی اپنے بارے میں سوچتے۔ اپنے الفاظ کم پڑ جاتے۔ سوشل میڈیا پہ ‘جسٹس فار زینب ‘ پہ ہم نے بھی لب کشائی کی۔ اور اس بات پہ آمادہ رہے کہ جتنی زیادہ آوازیں اٹھائیں گی، جتنا شور مچے گا، کل ہماری اولادوں کو ہم اتنا ہی زیادہ محفوظ دیکھ سکیں گے۔ جنسی زیادتی کے شکار افراد مظلوم نہیں ہوتے بلکہ بہادر ہوتے ہیں۔ یہ بات بار بار دہرانا بہت ضروری ہے۔ اور ضروری رہے گی۔ ایک مشہور پاکستانی ڈرامے میں، جسے مجھ جیسے مڈل کلاسیے بہت دل جمعی سے دیکھتے ہیں، اور جس کا نام اڈاری تھا، اس میں ایک جملہ ہمیں بہت یاد آتا۔ ‘میں وکٹم نہیں، سروائیور ہوں۔’ ہزاروں آوازیں جو ‘می ٹو ‘ کے لئے اٹھ رہی ہیں جس میں خواتین اپنے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سےہونے والے واقعات اٹھا رہی ہیں، وہ یقیناً دلیر ہیں۔ سوشل میڈیا نے واقعتاً ان آوازوں کو جلا بخشی اور ان خواتین کو ہمت دلائی۔

مگر کچھ دیر پہلے ‘نیوز ویک پاکستان’ کے ایڈیٹر ان چیف، یعنی مدیر اعلیٰ ، فصیح احمد نے ٹویٹر کے ذریعے کچھ عجیب و غریب الفاظ سے اپنے احساسات کا اظہار کیا۔

پھر یوں ہوا کہ کچھ بھلے لوگوں نے فصیح احمد کی باتوں پہ سخت غصہ اور فوری رد عمل ظاہر کیا اور لاہور لٹریچر فیسٹیول کا بائیکاٹ کرنے کا بھی کہا۔

ہم تو سب کے ساتھ ابھی اپنی بھڑاس نکال ہی رہے تھے کہ چند ‘ایلیٹ’ یعنی اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے چند لوگ جو کہ ‘می ٹو ‘ اور ‘جسٹس فار زینب’ میں پیش پیش تھے، فورا فصیح احمد کے دفاع میں نیزوں سمیت میدان جنگ میں حاضر ہو گئے۔ ‘آپ سمجھے نہیں۔’ ‘دراصل وہ بھی بہت دکھی ہیں بس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بارے میں تھوڑا سا غلط بول گئے۔’

فصیح احمد پاکستان کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان لوگوں کا ٹولہ جو فصیح احمد کے گرد ڈھال بنا ہوا ہے انہی کی طرح کے ‘اعلیٰ کلاس’ کے لوگ ہیں جو ہم جیسے تھرڈ کلاس لوگوں کی بے تکی سرگرمیوں پہ ہنستے ہیں یا لاتعلق رہتے ہیں۔ ہاں اگر خبر اچھی بن جائے تو کریڈٹ لینے ضرور پہنچتے ہیں۔ مزید یہ کہ فصیح صاحب نیوز ویک پاکستان کے نہیں بلکہ لاہور میں منقد ہونے والےجانے مانے ادبی تہوار کے بھی سربراہ ہیں۔ سنتے ہیں فصیح احمد سے دوستی کے بڑے فائدے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ نیوز ویک ان کے باپ کا ہی ہے۔ یعنی وہ بے حد آرام و سکوں سے مجھے اور آپ کو کہہ سکتے ہیں، ‘ہاں یہ میرے باپ کا مال ہے۔ جو کرنا ہے کر لو۔’

شور ہنگامے کے بعد فصیح احمد نے ایک معافی ٹویٹ کی جو معافی سے زیادہ نقصان کو کم کرنے کا سامان معلوم ہو رہی تھی۔ کافی جگ ہنسائی کے بعد انہوں نے اتنا احسان کیا کہ ادبی تہواروں سے خود کو الگ کیا اور معافی کے دو بول بول دیے۔ کیا ہم جیسے لوگ ان کی اس فراخدلی کے لئے ان کے شکر گزار ہیں؟ پتہ نہیں۔

دکھ اس بات کا نہیں کہ فصیح کے جملے انتہائی شرمناک اور اخلاق سے گرے ہوئے تھے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں ان باتوں کی پرسش پہ لوگوں کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے اور اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو پہ کریئر تباہ ہو جایا کرتے ہیں وہاں فصیح احمد کی ایک ننھی سی ٹویٹ ان کی فیس سیونگ کے لئے بہت ہے۔ اس لئے کیونکہ ان کو بچانے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے پیسے، اپنی جان پہچان اور اپنے تعلقات کی بنا پہ فصیح کو کلین چٹ دے دیں گے۔ خدا نخواستہ کسی اور واقعے کی مد میں فصیح پھر فضول الفاظ ادا کریں گے اور ان کے دفاع میں وہی اعلی کلاس کے لوگ جو باقی دن عورتوں کے حقوق اور مساوات کا درس دیتے پائے جاتے ہیں، فصیح کی سوچ اور کردار کا دفاع کر رہے ہوں گے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ فصیح جیسے لوگ ٹویٹر کی وجہ سے چند لمحوں کے لئے اپنے اصلی چہرے سمیت سامنے تو آگئے لیکن ساتھ ساتھ ہم عام عوام کو یہ علم بھی ہوگیا کہ چند تعلقات کو بچانے کے لئے انسان کتنا اندھا ہو جاتا ہے۔ بجائے یہ کے لوگ فصیح احمد سے دوستی کی بنا پہ فصیح احمد کو سمجھانے کے لئے استعمال کرتے، اس کا غیر ضروری دفاع کرتے پائے گئے۔

معاشرے کے مڈل کلاس لوگوں کے پاس شاید بہت سا پیسا نہیں اور بے پناہ جائیداد نہیں ہوا کرتی ہے، لیکن فصیح جیسی اشرافیہ اور فصیح کے امیر کبیر دوستوں کو جو مجبوری اس وقت لاحق ہے، خدا کا شکر ہے کہ ایسی کسی قسم کی مجبوری ہمیں لاحق نہیں۔ اور امید ہے کہ آگے بھی نہ ہوگی۔ کیونکہ جو سچ بولتے ہیں – وہ زیادہ تر خریدی ہوئی عزت سے پاک ہی رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).