جناب ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب قوم کو پاگل کون سمجھتا ہے؟


محترم ڈاکٹر صاحب آپ نے ہمیشہ کی طرح زینب قتل کیس میں بھی قوم کو انکشافات سے جس طرح نہلایا ہے یہ آپ کا طرۂ امتیاز ہے جس کے لئے قوم خلوصِ دل سے سپاس گزار ہے۔ جو آپ نے اپنے براہِ راست پروگرام میں فرمایا چلیں پہلے سہولت کی غرض سے اُسے یہاں نقل کر لیتے ہیں۔ ’’ یہ عمران جو ہے جس کو پکڑا ہے جھوٹ کیوں بول رہی ہے پنجاب حکومت۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مستری نہیں ہے۔ ٹھیک ہے؟ یہ میں باہر تھا جب وہاں پر بھی میری نالج میں بات آئی لیکن میں خاموش رہا۔ میں صرف انتظار کر رہا تھا کہ شہباز شریف صاحب کل کیا فرماتے ہیں۔ یہ باہر میں۔ دنیا بھر میں ڈسکس ہو رہی ہے یہ چیز۔ اب میں کہاں کہاں تھا یہ پچھلا ایک ہفتہ، دس دن میں باہر رہا ہوں ملک سے۔ میں اس بات کو چھوڑ دیتا ہوں کہ میں کن جگہوں پہ تھا لیکن میں آپ کو صرف یہ یہاں پر بتانا چاہ رہا ہوں اور میں چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس میں لا رہا ہوں۔

یہ آدمی مستری بھی نہیں ہے۔ یہ آدمی ذہنی مریض بھی نہیں ہے۔ یہ ایک۔ اب جو میں بات کہنے جا رہا ہوں نا۔ یہ میں یہاں ڈائریکٹ مخاطب کر رہا ہوں ثاقب نثار صاحب کو۔ یہ ایک بین الاقوامی مافیا یا گروہ کا انتہائی فعال رکن ہے۔ جس کو پاکستان کی اعلیٰ اور مضبوط شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس آدمی کے کم از کم۔ کم از کم 37 بنک اکاؤنٹس ہیں۔ عمران کے۔ جس میں سے اکثریت فارن کرنسی اکاؤنٹس ہیں۔ 37 اکاؤنٹس ہیں اس کے۔ اس عمران کے جس کو یہ پاگل اور ذہنی مریض بنا کر دے رہے ہیں۔ 37 اکاؤنٹس جو آپریٹ کرتا ہے اور ان اکاؤنٹس میں ڈالرز، یوروز اور پاؤنڈز کی ٹرانزیکشنز ہیں باہر سے۔ اور یہ کروڑوں اربوں کا کھیل ہے۔ اور یہ جن بین الاقوامی تنظیموں یا ریکڈز کے لئے یہ کام کرتا ہے کی مکمل انویسٹیگیشن کریں گے تو لیکن جو میں بات کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں پر یہ سارا قصور پاکستان دائیں بائیں دنیا میں ڈسکس ہو رہا ہے میں مِلا ہوں لوگوں سے۔ اور میں جو بات کر رہا ہوں وہ بہت ذمہ داری سے بات کر رہا ہوں۔ 37 کم سے کم 37 اکاؤنٹس ہیں نہ یہ پاگل ہے۔ نہ یہ بے وقوف آدمی ہے۔

اِس کو اہم سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی اس کو حمایت حاصل ہے۔ اور یہ بندہ جو ہے۔ یہ جس۔ جو لفظ میں مجبوراً مجھے استعمال کرنا پڑ رہا ہے لیکن اُس کو استعمال کیے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ یہ وائیلنٹ چائلڈ پورنو گرافی ایک اے اے بد قسمتی کے ساتھ ایک اے اے۔ یورپ میں ایسٹرن یورپ میں یا باہر کی دنیا میں کچھ پاگل یا ذہنی مریض قسم کی شخصیات ہیں جو کہ جب وہ نشے میں ہوتے ہیں یا کسی اور کیفیت میں ہوتے ہیں تو وہ لائیو (Live) انٹرنیٹ پہ اس قسم کے مناظر دیکھتے ہیں جہاں پہ بچوں کو تشدد۔ بچوں پہ کیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے؟ اب۔ اچھا۔ اور اُس میں پہلے جو واقعات قصور میں ہوئے ہیں۔ یہ اور یہ اُس میں اکیلا نہیں ہے۔ یہ اکیلا نہیں ہے۔ یہ شہباز شریف صاحب جو مائیک کھینچ رہے ہیں۔ میں نام نہیں لینا چاہ رہا اُس شخصیت کا۔ جس شخصیت کا کو جو جو involve ہے وہ شخصیت میں نام نہیں لینا چاہ رہا۔ ٹھیک ہے؟ میرے پاس ایک نام بھی ہے۔ ایک اہم شخصیت اور میرے پاس ایک وزیر کا نام ہے۔ میرے پاس ایک وفاقی وزیر کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔

دیکھیں بات سنیں۔ اس کی تحقیقات چیف جسٹس آف پاکستان کروائیں۔ اِس کی تحقیقات آرمی چیف کروائیں۔ اس کی تحقیقات شاہد خاقان عباسی صاحب کروائیں اگر گروا سکتے ہیں؟ اس کی تحقیقات تمام لوگ کروائیں میں جو بات یہاں کہہ رہا ہوں۔ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ اور اس میں دیکھیں کہ اس کے اکاؤنٹس کتنے ہیں؟ نہ یہ پاگ۔ ۔ ۔ یہ اور یہ مائیک کیوں کھینچ رہے تھے؟ شہباز شریف صاحب کو علم ہے یا نہیں ہے۔ یہ مائیک شہباز شریف صاحب کیوں کھینچ رہے تھے؟ اور اس کو ذہنی مریض ۔ ۔ ۔ ایک آدمی کے 37 بنک اکاؤنٹس ہیں اور وہاں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہو رہی ہے تو وہ ذہنی مریض ہو گا؟ یہ پاگل سمجھتے ہیں قوم کو؟ ان کو نہیں پتہ؟ شہباز شریف صاحب کو نہیں پتہ؟ ان کو نہیں پتہ کہ اُس کے 37 بنک اکاؤنٹس ہیں۔ کم از کم 37۔ 37 سے زیادہ ہیں ویسے۔ میں کم سے کم 37 بتا رہا ہوں۔ یہ پاگل سمجھتے ہیں لوگوں کو؟ اور ان کو نہیں پتہ؟ اُس میں کروڑوں کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں؟ ذہنی مریض ہے تو۔ گلی میں گھومتا تھا۔ تو پاگل تھا۔ یہ ایک۔ بس کریں۔ کافی ہو گیا ہے اس ملک میں۔ اب بس کریں یہ۔ اور یہ اللہ کی پکڑ میں جب آئیں۔ یہ انہوں نے ایں ایں سب نے جواب دینا ہے۔ اگر میری بات نہیں ان کو پتہ تو پھر پتہ کروائیں کہ ڈاکٹر شاہد جھوٹ بول رہا کہ نہیں بول رہا۔ یہ کیا۔ کر کیا رہے ہیں یہ لوگ؟ ذہنی مریض ہے تو انسدادِ دہشت گردی میں جائے گا تو۔ یہ مروا دیں گے اُس کو۔ ایک آدمی مروا دیں گے اندر جیل میں۔ مشتعل افراد۔ اس کو حراست میں لیں عسکری ادارے۔ اس کو اِنٹیروگیٹ کریں۔ چیف جسٹس سوو موٹو لیں اور اس کے پیچھے لوگوں تک پہنچیں۔ اس کو یہ پاگل واگل یہ کروا کر اس بندے کو نہ مار دیں کہیں۔ ہاں اس کے پیچھے پورا۔ میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔ اوہ ایک آدمی کے 37 بنک اکاؤنٹس ہیں۔ فارن کرنسی اکاؤنٹس ہیں۔ وہ پاگل ہے؟ وہ مستری ہوگا؟ وہ گھومتا رہتا تھا گلی میں۔ وہ بچے اٹھاتا تھا۔ زیادتی ہوتی تھی۔ انٹرنیشنل دنیا میں تماشہ دیکھا جاتا تھا۔ یہ پورا مافیا ہے اور اہم ترین شخصیات ملوث ہے اس میں۔ ‘‘

محترم ڈاکٹر صاحب! اوّل تو عمران کے حوالے سے کسی کی بھی طرف سے پاگل کا لفظ استعمال نہیں ہوا کیونکہ اُس کے وزٹنگ کارڈ قصور میں عام ہیں جن کے مطابق وہ نعتیہ محافل میں نقابت کرتا اور خود بھی نعت خوانی کرتا تھا۔ وڈیوز بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ دوئم یہ کہ آپ کے پاس یہ معلومات اسی ایک رات میں تو یکجا نہیں ہو سکتی کہ پوری دنیا میں اُس کے 37 اکاؤنٹس ہیں۔ یقینا اس سطح کی معلومات کے لئے ایک طویل وقت چاہیے۔ اور اگر پہلے سے آپ کے پاس اتنی معتبر معلومات تھیں تو آپ نے انہیں کسی تحقیقی ادارے کو کیوں نہیں دیا اور پولیس کی طرف سے ملزم کی گرفتاری سے پہلے ہی آپ نے عمران اور دیگر وغیرہ کی نشاندہی کیوں نہیں کی۔ کہ ایک شخص فلاں گلی میں رہتا ہے اور اُس کا نام یہ ہے اور اُس کے بنک اکانٹس کے نمبر اور تفصیلات یہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور کیوں آپ پورے ملک میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کو خامش تماشائی بنے دیکھتے رہے؟

کیا ایسے قومی سطح کے جرم کے حوالے سے معلومات کو چھپانا بھی جرم کے ضمرے میں نہیں آتا؟ ملزم عمران واقعے کے 14 روز بعد گرفتار ہوا۔ حیرت ہے کہ اتنے بڑے بین الاقوامی مافیا کا فعال ترین کارکن۔ جس کے 37 فارن کرنسی کے بنک اکاؤنٹس ہوں اور اُن میں کروڑوں اور اربوں ڈالرز اور یوروز اور پاونڈز کی ٹرانزیکشنز بھی ہو چکی ہوں لیکن اُس کے پاس پاسپورٹ نہ ہو اور اُس پر قابلِ استعمال ویزے نہ ہوں۔ راؤ انوار ایک ایس ایس پی ہے لیکن جیسے ہی گرفت کا سنا تو فوراً فرار کا سوچا یہ الگ بات کہ ناکام رہا۔ ایک تو طرف تو آپ عمران کو پاگل نہیں ( جو کہ یقیناً وہ نہیں ہے ) ثابت کرنے مُصر ہیں اور دوسری طرف اُسے نالائق ثابت بھی کر رہے ہیں کہ اربوں پتی ہونے کے باوجود وہ اپنی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد اور عوامی دباؤ اور ردِ عمل دیکھنے کے باوجود 14 دن یہیں گرد و نواح کے اضلاع تک جا سکا اور ملک سے فرار ہونے کو ضروری نہ سمجھا۔

ڈاکٹر صاحب جن اہم ترین شخصیات کا آپ ذکر کر رہے ہیں اُن کی اہمیت کا اندازہ تو اسی نالائقی سے ہی ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے انتہائی فعال کارکن کو فرار کروانے میں مدد کرنے کی بجائے 14 روز تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں۔ عجیب صوفی منش مجرم اور مافیا ہے کہ فعال ترین کارکن 37 اکاؤنٹس اور اربوں کی ٹرانزیکشز کے باوجود سردیوں کے موسم میں ایک چپل میں گرفتار ہوتا ہے کیا آپ اس ضمن میں بھی رہنمائی فرمائیں گے کہ وہ جو یورپ یا مشرقی یورپ والے ذہنی مریض یا نشہ کرنے والوں نے کہ جن کے اس مافیا کے ساتھ تعلقات ہیں یہ شرط عائد کر رکھی تھی کہ یہ مافیا صرف قصور شہر کے 3 مربع کلو میٹر کی حدود میں ہی اُن ذہنی مریضوں کے اس گھناؤنے تلذز کا انتظام کرنے کا پابند ہوگا؟ کیوں اُس ارب پتی عمران نے اپنی والدہ یا کسی اہلِ خانہ کو اربوں روپے ہوتے ہوئے بھی حج یا عمرے کروائے کیونکہ اگر وہ اتنا گھناؤنا کام کرنے کے ساتھ ساتھ نعت خوانی کرنے کی منافقت کر سکتا ہے تو اپنے علاقے میں مزید اچھی شہرت کی غرض سے ایسی منافقت کرنا بھی مشکل نہ تھا۔

حضور جنہوں نے پکڑا اُن کے لئے تالیاں بجنا چاہیے تھیں یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے( کیونکہ سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار جناب حامد میر کے مطابق وہ تالیاں وہاں موجود دو تین صحافیوں نے آغاز کی تھیں اور پھر سب اس میں شامل ہوگئے) لیکن آپ انہیں شاباش دینے کی بجائے چیف جسٹس اور عسکری اداروں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ تحقیقات کریں۔ جناب اگر اتنے بڑے پیمانے پر معاملات ہو رہے تھے تو پہلے انٹیلی جنس کے اداروں کو خبر کیوں نہ ہوئی جو اب وہ کسی پکڑے پکڑائے ملزم پر اپنے اخلاص اور مہارتوں کا جلوہ دکھائیں۔ اور محترم ڈاکٹر صاحب سوالات کی تو اتنی لمبی فہرست ہے کہ ایک نہیں بلکہ 37 مضامین لکھے جا سکتے ہیں اور یقینا لکھے جائیں گے کیونکہ آپ نے بجا فرمایا کہ اب بس کریں۔ آپ اس قوم کو پاگل سمجھتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).