ترکی کا آپریشن اولیو برانچ


میں ترکی کی عوام سے مخاطب ہوں ہم نے عفرین میں پیپلز پروٹیکشن یونٹ ( وائی۔ پی۔ جی ) اور ”وومن پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جے) کے خاتمے کے لئے ایک بڑا آپریشن شروع کر دیا ہے۔ میں بتا دینا چاہتا ہوں کے یہ لوگ اب کی بار بچ نہیں پائیں گے۔ ہمارے F16 اڑان بھر چکے ہیں ہم ان کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔

ترک صدر طیب اردگان کے انہی الفاظ کے ساتھ ترک فضایہ نے شام کی شمالی سرحد پر واقعہ شہرعفرین پر بمباری شروع کر دی۔ یہ آپریشن ”پیپلز پروٹیکشن یونٹ ”اور ”وومن پروٹیکشن یونٹ ”نامی کرد تنظیم جو شامی کرد علاقوں میں پچھلے 5 سال سے شامی کرد قوم کےحقوق اورشامی کرد علاقوں کےدفاع کے نام پر داعش، شامی سرکاری افواج اور شامی حکومت کے خلاف لڑنے والی باغیوں کی فوج (ایف۔ ایس۔ اے )فری سیرین آرمی کےخلاف برسرپیکار ہے کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

2004 میں قائم ہونے والی شام میں موجود کردوں کی یہ تنظیم شامی علاقوں میں کردوں کےحقوق کے لئے برسرپیکار رہنے والے اتحاد ”ڈیموکریٹک یونین پارٹی ”حزب الاتحاد ” ( پی۔ وائی۔ ڈی ) کاملٹری ونگ ہے ۔ اس تنظیم کے تانے بانے کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے ) سے بھی ملتے ہیں۔ موجودہ دور میں اس تنظیم کی مقبولیت کی ایک وجہ 2013 میں قائم ہونے والی اس کے ویمن ونگ ”وومن پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جے) کی خوبصورت جدید اسلحہ سے لیس کرد دوشیزائیں ہیں جن کی سوشل میڈیا پر پھیلی تصاویر نے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنا گرویدہ کیا ہوا ہے۔

اس تنظیم ”وومن پروٹیکشن یونٹ ( وائی پی جے) کی حسیناؤں نے اس مختصر عرصے میں بہادری کے جو افسانے رقم کیے وہ ایک مثال ہیں ۔ حلب، عفرین، الرقة، کوبانی نیز جہاں بھی یہ گئیں بہادری کی ایک نئی داستان چھوڑ آئیں۔ مگرکردوں کی اس نئی فوج کا ٹریڈ مارک کوبانی ہی ہے۔ جہاں دنیا نے پہلی بار ان حسیناؤں کی بہادری کو محسوس کیا جب یہ کوبانی ( عین العرب ) کے گرد داعش کا محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب داعش ناقابل شکست تھی عراق اور شام میں اس کے سامنے کوئی فوج نہ ٹک پائی تھی۔

یہ سچ ہے جب عرب میں کوئی ایک مقامی فوج بھی داعش کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتی تھی ایسے وقت میں ( وائی۔ پی۔ جی ) اور (وائی پی جے) نے نہ صرف داعش کو شکست دی بلکہ اس بری طرح سے شکست دی کے کوبانی کا محاصرہ داعش کے لئےآج بھی ایک بھیانک خواب کی طرح ہے۔

اس تنظیم کو امریکہ اور مغرب کی مکمل حمایت ہے۔ تمام جدید اسلحہ اور اس تنظیم کے جنگجؤں کو ٹریننگ عراقی کرد علاقوں میں موجود امریکہ کےفوجی ہی دیتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے ترکی کا ایک ایسے وقت میں جب شام کے اندر تمام بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں ایسا آپریشن کرنے کے کیا مقاصد ہیں اور ان مقاصد سے کیا ممکنہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

شام کی جنگ ایک دلچسب فیز میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ سمیت تمام بڑی طاقتیں کسی نہ کسی طرح اس جنگ میں شامل ہیں مگر کون کس کے ساتھ ہے یہ آج تک واضح نہیں ہو رہا۔ ترکی امریکہ اور کئی دوسرے عرب ممالک شام کے مختلف حصوں میں مختلف گروپس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ ترکی اور عرب ممالک چاہتے ہیں کے داعش کو نقصان پہنچایا جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کے اتنا ہی نقصان پہنچایا جائے کے داعش شام سے باہر طاقت نہ حاصل کر سکے شام کے اندر کی کارروائیاں ان سب طاقتوں کے لئےسودمند ہیں۔

ترکی سمیت سارے عرب ممالک ( ایف۔ ایس۔ اے)فری سیرین آرمی کی شامی حکومت کے خلاف کارروائیوں کو ہمیشہ سے سپورٹ کرتے آے ہیں۔ حالیہ آپریشن میں بھی زمینی کروائی کے لئے ترکی نے 25000 فری سیرین آرمی (ایف۔ ایس۔ اے) جنگجؤں کو ٹرکوں میں بھر بھر کےعفرین میں داخل کیابلکہ نیشنل ٹی وی پر ویڈیوز بھی نشر کیں ۔

پچھلے ایک سال سےکرد جنگجؤں کی تعداد میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا۔ 2013 میں ان کی تعداد صرف چند ہزار تھی مگر اب ان کی تعداد 30000 سےتجاوز کرچکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب اس میں ایک نیا عنصر بھی شامل ہوا جس نے ترکی کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کے کردوں کی جنگ صرف کرد نہیں لڑ رہےبلکہ اس جنگ میں اب شام کےعرب، شام کےعیسائی، آرمینین کرد، آرمینین عیسائی، عراقی کرد اور ایران کےکردوں کی کثیر تعداد نے شمولیت اختیار کر لی۔
وہ جنگ جو کبھی صرف کرد لڑا کرتے تھے اب سب لڑنے کو آمادہ ہیں اور اس بار ٹریننگ اوراسلحہ بھی زبردست دکھائی دے رہی ہے۔

ترکی کے لئے یہ انتہائی نازک صورتحال ہے۔ امریکہ ہر جنگ میں اپنے فائدے کی تلاش میں ہوتا ہے اس جنگ میں بھی امریکہ کس کے ساتھ ہے یہ آج تک سمجھ نہیں آ پایا۔ روس تو پہلے دن سے ہی شام کے حمایت میں تھا بلکہ روس ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے حقیقت میں داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔ ترکی جس نے پہلے اپنے مفاد کی خاطر داعش اور ایف۔ ایس۔ اے کو ایک حد تک سپورٹ کیا مگر اس سپورٹ میں وہ کردوں کو بھول گیا۔

اپنی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں امریکہ کی بھرپور حمایت سے بننے والی 30000 کردوں کی یہ نئی فوج کسی بھی طرح سے ترکی کے لئے قابل قبول نہیں ترکی کے اس آپریشن کو اسلامی دنیا سے مکمل سپورٹ حاصل ہے اب دیکھنا یہ ہے کے امریکہ اور مغرب اس صورحال پر کیا ردعمل دیتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).