رپورٹ کے بعد کیا کرنا ہے؟


شاید آپ کو یاد ہو کہ سنہ 2013 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں برسرِ اقتدار آنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد تحریک انصاف نے افغانستان جانے والے نیٹو کنٹینروں کو روکنے کے لیے صوبے میں قومی شاہراہوں کے ناکوں پر دھرنے دینے کا فیصلہ کیا۔

پشاور کی رنگ روڈ پر جوشیلے کارکن ہر ٹرک پر چڑھ کے چھان بین کرتے تھے اور کاغذات چیک کرتے تھے۔ چند دنوں بعد یہی کارکن اکتانے لگے اور نیٹو دھرنا پتلا ہوتا چلا گیا۔

اور پھر اچانک ایک دن دھرنا بغیر یہ بتائے ہوا میں تحلیل ہوگیا کہ شروع کیوں ہوا تھا؟
نیٹو ٹرک پہلے بھی چلتے رہے اور آج تک چل رہے ہیں۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ مئی 2013 کے انتخابی نتائج آتے ہی تحریکِ انصاف نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح انھیں تحفظات کے ساتھ تسلیم کرلیا اور خیبر پختونخوا میں حکومت تشکیل دے ڈالی۔
چند ماہ بعد عمران خان نے ہلکے سروں میں دھاندلی کی تان چھیڑی اور پھر اس میں دیگر ساز بھی شامل ہوتے چلے گئے۔ ایک برس کے اندر یہ تان فل آرکسٹرا میں تبدیل ہوگئی۔
عمران خان نے ہر نئے دن کے ساتھ کیا عدلیہ، کیا الیکشن کمیشن، کیا وفاقی حکومت سب ہی پر عدم اعتماد کردیا اور پھر اصلی تے سچی جمہوریت کی تلاش میں لانگ مارچ کی اپیل کردی۔

کسی نے خان صاحب کا کان میں کہا کہ انتخابات میں 35 پنکچر لگے ہیں خان صاحب نے کہا اچھا؟ انھیں تو میں ناک رگڑوا دوں گا۔ کسی نے کہا خان صاحب ہوائیں آپ کے حق میں ہیں لہذا دبی رکھ۔ بس اسلام آباد پہنچنے کی دیر ہے۔ اگر ایک ہفتہ بھی ٹک گئے تو اگلا وزیرِ اعظم عمران خان۔

لہذا طاہر القادری جیسے الیکٹ ایبل کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے بھی دارالحکومت فتح کرنے کا بگل بجا دیا۔ مزید آگ شیخ رشید جیسے الیکٹ ایبلز نے سینے میں بھر دی کہ عیدالضحی پر بکروں کی نہیں نواز حکومت کی قربانی ہونے والی ہے۔
اس دل خوش کن خبر کا خان صاحب نے یہ کرکٹانہ ترجمہ کیا کہ ایمپائر کی انگلی تین دن میں اٹھنے والی ہے۔ نیز یہ کہ اگر سب مجھے چھوڑ کے چلے گئے تب بھی میں اس وقت تک کنٹینر نہیں چھوڑوں گا جب تک دھاندلی سے پاک اسمبلی کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اور گو نواز گو کا خواب شرمندہِ تعبیر نہیں ہوتا۔

نئے پاکستان میں نیا نظام لانے کے جوش میں گالم گلوچ سے بھر پور الٹی میٹموں کا کنٹینری اور سوشل میڈیائی طوفان برپا ہوگیا۔ جیو نیوز کی عمارت کو جمرات (مکہ میں وہ جگہ جہاں حاجی شیاطین پر سنگ باری کرتے ہیں ) کا متبادل سمجھ کر اس پر روز سنگ باری و گالی باری واجب سمجھ لی گئی۔ پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر میں توڑ پھوڑ ہوئی۔ پارلیمنٹ اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی ناکہ بندی ہوئی۔

سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی دفتر تک پہنچنے کے لیے متبادل راستہ اختیار کرنا پڑ گیا۔ کئی پولیس والوں اور افسروں کی پھینٹی لگی۔ خیبر پختونخواہ حکومت کا سیکریٹیریٹ بھی عملاً کنٹینر پر منتقل ہوگیا۔ سول نافرمانی کا فرمان بھی جاری ہوا مگر غیر اعلانیہ طور پر واپس لے لیا گیا۔

نہ قربانی ہوئی نہ انگلی اٹھی۔ انگلی اٹھی بھی تو پندرہ دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور کے قتلِ عام کے بعد۔ جب 126 دن کا دھرنا ملکی مفاد میں ختم ہوگیا اور طالبان سے صرف مذاکرات کا موقف بھی پاک فوج کو سلام سے بدل گیا۔

جس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار بتایا گیا اسی میں ایک روز سب خاموشی سے جا کر بیٹھ گئے اور پھر غیر حاضری کے دس ماہ کی تنخواہیں بھی وصول کر لی گئیں۔
چار ماہ بعد بالاخر جوڈیشل کمیشن بنا بھی تو مذاکرات کے نتیجے میں بنا۔ آج تک یہ سوال جواب طلب ہے کہ جب یہی ہونا تھا تو پھر چار ماہ کے اسلام آبادی محاصرے سے کیا حاصل وصول ہوا، سوائے اس کہ کہ چینی صدر کا دورہ چند ماہ اور آگے بڑھ گیا اور بے یقینی کے سبب محض کچھ ارب روپے کا اور معاشی نقصان ہوگیا۔

جہاں تک کراچی اور ایم کیو ایم کے ساتھ گرمی سردی کا معاملہ ہے تو یہاں بھی تحریکِ انصاف مسلسل کنفیوژن میں مبتلا رہی۔
آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ کئی برس پہلے عمران خان ثبوتوں سے بھرے جو بریف کیس لے کر اسکاٹ لینڈ یارڈ گئے تھے وہ کیا ثبوت تھے اور ان کا کیا ہوا؟

وہ تو عمران فاروق کا قتل نہ ہوتا تو ایم کیو ایم کی لندن قیادت گرداب میں نہ آتی۔ اس قتل نے منی لانڈرنگ کے معاملے کو بھی اجاگر کیا لیکن خان صاحب جو ثبوت لے کر گئے تھے ان سے اسکاٹ لینڈ یارڈ یا کوئی برطانوی عدالت استفادہ کرنے میں ناکام رہی اور نہ کبھی خان صاحب نے ان ثبوتوں کے بارے میں لب کھولے۔

بلکہ ایم کیو ایم کے ساتھ کراچی کی حد تک تحریکِ انصاف نے نہ مخالفت نہ موافقت کی پالیسی اپنا کے رکھی۔ 2013 کے ’دھاندلی زندہ انتخابات‘ کے باوجود تحریک انصاف کو کراچی میں اچھے خاصے ووٹ ملے اور یہ تاثر ابھرا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ایم کیو ایم کے بعد اگر کوئی جماعت ہے تو وہ تحریکِ انصاف ہے۔

تحریکِ انصاف کا موقف پھر یہ ہوا کہ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں شفاف انتخابی عمل ہو تو کراچی سے یک جماعتی فاشزم ختم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ حلقہ 246 کے ضمنی انتخاب اگرچہ انھی انتظامات کے ساتھ ہوئے پھر بھی تحریکِ انصاف بہت پیچھے رہی۔

کراچی میں تحریکِ انصاف سندھ کی نائب صدر زہرہ شاہد حسین کے قتل کے مقدمے میں تحریکِ انصاف کی قیادت پچھلے ڈھائی برس سے کتنی مستعدی سے دلچسپی لے رہی ہے؟ اگر کسی کو جانکاری ہو تو اس فقیر کو بھی بتائے۔

دھاندلی سے متعلق عدالتی کمیشن کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی تحریکِ انصاف نے 35 پنچروں کی اس تھیوری سے لاتعلقی اختیار کرلی جس کی بنیاد پر دھاندلی زدہ انتخابی عمل کی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔ مگر آج تک نہ نیٹو کنٹینر روکنے کی تحریک کی ناکامی پر معذرت ہوئی۔ نہ اسلام آباد دھرنے کے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی پر معذرت ہوئی، نہ سول نافرمانی کی کال پر معذرت ہوئی، نہ پی ٹی وی پر حملے کی معذرت ہوئی، نہ 35 پنکچر تھیوری واپس لیتے ہوئے پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے کوئی رسمی معذرت ہوئی بلکہ سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے فرمایا کہ معذرت کس بات کی؟

ہاں جب 31 اکتوبر 2011 کو لاہور کا اقبال پارک بھر گیا تھا تو واقعی لگتا تھا کہ بالاخر ملک کو وہ جاندار ایمان دار جوشیلی قیادت مل گئی ہے جس کا ہر کوئی انتظار کر رہا تھا لیکن اس کے بعد سے تحریکِ انصاف جس طرح گول پوسٹ کسی ایک جگہ لگانے کے بجائے کندھوں پر لیے گھوم رہی ہے۔ اسے جوش تو کہا جاسکتا ہے ہوش نہیں۔

لگ یوں رہا ہے کہ تحریکِ انصاف کی قیادت نظام کی تبدیلی کے لیے غور و فکر سے تیار کردہ کوئی دورس بنیادی حکمت ِ عملی اپنانے کے بجائے آن جاب ٹریننگ کی قائل ہو گئی ہے اور ہر مسئلے کو وہ جتنی سنجیدگی اور جوش سے اٹھاتی ہے، اتنی ہی غیر سنجیدگی و بے دلی سے اسے راستے میں چھوڑ کے پھر کوئی نیا مسئلہ اٹھا لیتی ہے۔

بالکل میرے سب سے چھوٹے بیٹے کی طرح جو ہر نئے کھلونے کی ضد میں پچھاڑیں کھاتا ہوا اسے زندگی و موت کا مسئلہ بنا لیتا ہے اور جب وہ کھلونا مل جاتا ہے تو دو ہی دن میں دل بھر جاتا ہے اور پھر وہ ایک اور کھلونے کے لیے اسی طرح پچھاڑیں کھانے لگتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ کوئی سیاسی پارٹی یا اس کی قیادت ایسی کیفیت سے ہر بار گزرے تو اسے کیا کہا جائے۔ مگر اس طرزِ عمل سے اپنا، پرستاروں کا اور قوم کا وقت بہت ضائع ہوتا ہے اور توانائی بھی۔

اب جبکہ انتخابی کمیشن کی رپورٹ بھی شائع ہو چکی تو اب کیا کرنا ہے۔ کسی اور کھلونے کی تلاش یا انتخابی اصلاحات پر پوری توجہ؟
اور مسلم لیگ ن کو اگلے ڈھائی برس کیا کرنا ہے؟ تحریکِ انصاف پر صرف جگتیں لگانی ہیں یا اس سے آگے بھی کچھ اور؟
مگر یہ داد تو بہرحال بنتی ہے کہ رفتہ رفتہ منہ سے جھاگ نکلوا کر بات منوانے کے بجائے پاکستانی سیاست کچھوے کی رفتار سے ہی سہی پر ثالثی اور بات چیت کے اصول کی بالغ دنیا میں داخل ہو رہی ہے۔
23 جولائی 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).