ہماری قوم آمریت پسند کیوں ہے؟


پاکستان کے قیام کو ستر برس گذر گئے مگر ایک سوال اب تک  کیا جا رہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جو آج تک ہمارے اندر جمہوری رویے فروغ نہیں پا سکے؟ اس کے مقابل عام طور پر یہ دلیل لائی جاتی ہے کہ اس ملک میں آمریت نے نسبتاً زیادہ عرصہ راج کیا ہے جبکہ جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا زیادہ موقع نہیں ملا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے اندر جمہوری رویے پنپ نہیں پاتے۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوری حکومتوں کے ادوار میں طاقت کے مراکز کے مابین باہمی کشاکش جاری رہتی ہے جس کی وجہ سے جمہوری حکومتوں کی توجہ عوام کی فلاح کی جانب مبذول نہیں ہو پاتی۔ تو ہم نہایت ادب سے ایک سوال اٹھانا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ جمہوری رویے سے کیا مراد ہے؟ جمہوریت کا لفظ جمہور سے نکلا ہے۔ فیروز اللغات کی رو سے جمہوری کے معانی عوامی کے ہیں ۔ چناچہ ہمیں عوامی رویوں کو دیکھنا پڑے گا ۔ اور اسی بنیاد پر ہمیں سوچنا پڑے گا کہ پاکستانی جمہور کا عام رویہ کیا ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں۔

جمہوری رویے جمہور کی مرضی سے تشکیل پاتے ہیں۔ پاکستان کے سماجی رویوں کے اندر گذشتہ چالیس سال میں ایک بتدریج مگر غیر محسوس تبدیلی آئی ہے جس میں جمہور کو رفتہ رفتہ ہر قسم کی آزادی سے محروم کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر سوال کا گلا گھونٹ دیا گیا تو کبھی قومی مفاد کے نام پر لبوں پر قفل ڈال دیئے گئے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے جائز حقوق اور آزادی کی تمیز ہی کھو بیٹھے ہیں۔ فکری عدم توازن اور معقولیت کی عدم موجودگی کے باعث یہ شکستہ حال قوم وقتی شور شرابے اور ہاؤ ہو کو اپنی نام نہاد آزادی سمجھ کر خوش ہوتی رہتی ہے مگر حقیقی آزادی کے تصور سے ہنوز نا آشنا ہے۔ سماجی رویوں میں رواداری اور برداشت جیسے معارف قریباً ناپید ہو چکے اور اس کی جگہ بد ظنی، بد اخلاقی اور طاقت کے استعمال نے لے لی ہے۔ یہ وہ رویے ہیں جو اپنی اصل میں آمرانہ ہیں۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی عوام اپنی اصل میں آمرانہ رویہ رکھتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور وجہ ہے جو ہمارے رویوں کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور وہ ہے ہماری بچپن کی تربیت۔ بچپن سے ہماری قوم کی تربیت ایک ہی اصول پر ہوتی ہے۔ اس کا آغاز گھروں میں ماؤں کا اپنے بچوں کو باپ کا نام لے کر ڈرانے سے ہوتا ہے۔ دوستی کے بجائے باپ ایک جبر کا استعارہ بنتا ہےجو مطلق العنان ہے۔ اس کا حکم چلتا ہے اور اس حکم سے سرتابی ممنوع ہے۔ گھر میں والدین سے لے کر اسکول میں اساتذہ تک اور محلے کے بڑے بوڑھوں سے لے کر رشتے داروں تک ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ کسی بڑے کے آگے سر نہیں اٹھانا، کسی سے بحث نہیں کرنی۔ کوئی کچھ غلط بھی کہ دے تو پلٹ کر جواب نہیں دینا۔ خاموشی سے سر جھکائے اپنا کام کرتے چلے جانا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لاشعوری طور پر ہم ہر طرح کی حاکمیت قبول کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی آزادی پر سمجھوتے کرتے چلے جاتے ہیں۔ انہی رویوں کو لے کر جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو سوال کرنے اور اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم پر آمر حکمرانی کرے یا جمہوری نقاب میں کوئی آمر مسند اقتدار پر بیٹھ جائے۔ ہم طاقتور کے سامنے سر جھکائے یس سر یس سر کرتے رہتے ہیں۔ اپنی اس کمزوری اور محرومی کا انتقام ہم اس وقت لیتے ہیں جب ہم ہمارے سامنے کوئی کمزور آ جائے۔ اس وقت ہماری ذات کے اندر چھپا ہوا ایک آمر انگڑائی لے کر بیدار ہوتا ہے اور اپنے سے کمزور افراد کے حقوق کا قتل عام شروع کر دیتا ہے۔

اس کے بعد جمہوری حکومت کا نمبر آتا ہے۔ جمہوری حکومت کا مطلب جمہور کی رائے سے تشکیل پانے والی ایسی حکومت ہے جو جمہور کی فلاح وبہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور وہ پاکستان کے انتخابی عمل کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ زور و شور سے جمہوریت کے نعرے لگانے والی یہ سیاسی جماعتیں مگر جمہوری عمل اور ردعمل کو خاطر خواہ اہمیت دیتی نظر نہیں آتیں۔ ان کا مطمح نظر انتخابات میں عوام کے ووٹ حاصل کر کے اقتدار حاصل کر لینے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں رہا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ تقریباً دس برس سے پاکستان میں انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے حکومت بنانے والی سیاسی جماعتیں بر سر اقتدار ہیں اور بد قسمتی سے ان کے ادوار میں پاکستان کی عوام کی معاشی، سماجی اور اخلاقی اقدار بری طرح تنزلی کا شکار رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ جمہوری حکومتوں میں پائے جانے والے آمرانہ رویے ہیں۔ یہ رویے کیوں ہیں؟ یہ اس لیے ہیں کہ ہم انفرادی طور پر اپنے اندر آمرانہ رحجانات رکھتے ہیں۔ ہمیں سیاسی جماعتوں کے منشور یا ان کے نظریات یا ان کے وژن سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ ہم نواز شریف، عمران خان یا بلاول بھٹو کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہماری سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے اور ہم اپنی من پسند شخصیات کو ساتویں آسمان پر چڑھا دیتے ہیں۔ ان کا کہا ہمارے لیے حرف آخر بن جاتا ہے۔ ہم اپنے ہاتھوں اپنی آزادی کا گلا گھونٹ کر مطلق العنانی قبول کر لیتے ہیں۔ اور جب بدقسمتی سے ان شخصیات کا نظریہ قوم کے بجائے ذاتی آسودگی اور ترقی بن جائے تو قوم مجموعی تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور یہی ہم آج کل مشاہدہ کر رہے ہیں۔

جب ہم جمہوری رویوں کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہمارا مطلب جمہوری آزادی ہوتا ہے۔ اب یہ آزادی کیا ہے؟ جمہوری آزادی کی بہترین شکل تو یہ ہے کہ جمہور کو اپنی بات کہنے میں مکمل آزادی ہو۔ مگر پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ آج کل تو وہ زمانہ آ گیا ہے کہ کسی کو بھی اپنی بات کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جمہوری حکومت میں جمہور اپنی مرضی کے مطابق روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں آزاد ہونی چاہیے۔ پاکستان میں ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ روزگار کے مواقع میسر نہیں ہیں اور جمہوری حکومتیں بجائے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے، روزگار کے مواقع ختم کرنے میں کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کے جس شعبے کو دیکھ لیں، جمہوری آزادی کی بجائے ایک گھٹن کی سی کیفیت ہے۔ اس کی وجوہات ہم سب جانتے ہیں لہٰذا ان کی تفصیل میں جانے کی بھی ضرورت نہیں۔

کہنا صرف یہ ہے کہ جمہوری معاشروں میں گھٹن نہیں ہوا کرتی۔ جو قومیں جمہوری آزادی کی ضمانت دیتی ہیں ان کے سماجی رویوں میں رواداری اور برداشت سب سے پہلا وصف ہوتا ہے۔ پاکستان میں مجموعی قومی مزاج میں برداشت اور رواداری کا فقدان ہے۔ سیاسی راہنماؤں سے لے کر عوام تک ہر کوئی ایک دوسرے کے لتے لیتا پھر رہا ہے۔ کوئی کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ نقطہ نظر سے اختلاف ایک انسانی جان کے زیاں پر بھی منتج ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔

پاکستانی جمہور کے آمرانہ اصل کی ہی وجہ ہے کہ آج تک اس ملک میں ایوب خان، ضیا ءالحق اور پرویز مشرف عوام کی بڑی تعداد کے پسندیدہ حکمراں ہیں۔ ہماری جمہوری حکومتوں کو بھی مسلسل اپنے آمرانہ رویوں ہی سے خطرہ رہتا ہے۔ اور اگر کبھی ماورائے آئین تبدیلی آ جائے تو عوام کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو 13 اکتوبر 1999 کے اخبارات پڑھ لیں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad